ترا علاج نظر کے سوا کچھ اور نہیں
اولادِ آدم میں سے حکیم الامت علامہ محمد اقبالؒ کی طرح جب کوئی کارآمد ہو جائے تو سارے دن اسی کے دن، اورسارے لمحے اسی کے لمحے ہوتے ہیں، وہ امر ہو جاتا ہے۔ نو نومبرآزادی کے پیامبر کا استعارہ بن کر سال کے باقی ماندہ دنوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے، گویا سال کے دیگر لمحات کو مقید کر لیتا ہے۔ دریں اثناء اقبال کی بازگشت پیہم سماعتوں سے ٹکراتی ہے ۔ پل پل اقبال کی محبت میں دل دھڑکنے لگتے ہیں۔ دھڑکنوں میں اقبال دھڑکتا چلا جاتا ہے۔ اس کے نت نئے پرت وا ہوتے چلے جاتے ہیں۔ ہر پرت نئی دنیاکا عکس معلوم ہوتا ہے۔ کائنات کے رموز سمجھ میں آنے لگتے ہیں۔ عشق جلوہ افروز ہوتا ہے۔ خرد بذاتِ خود انگشت بدنداں رہتی ہے۔ خود سے خودی کا سفر آسان سے آسان تر ہو جاتا ہے۔ خود، خودی اور خدا کی تکون میں کائنات کا ذرہ ذرہ نظر آنے لگتا ہے۔ اس طرح پرت در پرت کا سفر ایسی منزل کا پتا دیتا ہے، جس پر کبھی قدم نہ رکھا جائے، جس کی جستجو باقی نہ رہے، بس انسان منزل کوچلتا جائے، سفر در سفر کرتا جائے اور وہ سفر کی سرمستی میں مست رہے، لیکن منزل کو پا لینے کی آرزو کو ہر قدم مات دے، کیونکہ منزل پہ قدم دھرنے سے سفر کی راہ بند ہونے کا خدشہ ہوتا ہے۔ سفر کے کواڑوں پہ قفل پڑ جاتے ہیں۔ اس طرح راہ میں گم بلکہ گم سم رہنا بڑی بات ہے، بڑی عنایت ہے۔راہی کو راہ سے لگن ہوتی ہے۔ یہ لگن ختم نہ ہونے پائے۔ سفر کی امنگ قائم رہے۔ اس تناظر میں مرشدِ گرامی واصف علی واصف نے کہا تھا ’’جن لوگوں کو یار کا سنگِ در نہ ملا وہ راہ کا غبار ہو گئے اور محبت والوں کے لئے غبارِ راہ بھی اتنا ہی اہم ہے جتنا سنگِ در‘‘۔
صاحبِ نظر کے سامنے دل گویا ہو جاتے ہیں، بالکل ان کنکریوں کی طرح جو میری ، آپ کی جانوں کے وارث رحمتہ للعالمینؐ کے سامنے مٹھی میں سے بول پڑی تھیں۔ صاحبِ نظر کی نظر بھی وہی نظر ہے جس نظر بارے خالقِ کائنات کا فرمان ہے ’’میں تمہاری آنکھ بن جاتا ہوں‘‘۔ یہ نظر بھی اسی نظارے پر جا ٹھہرتی ہے جونظر اور صاحبِ نظر کو بھاتا ہے۔ اس نظارے کا من دھل جاتا ہے۔ من کا برتن شفاف ہو تو اہلِ نظر کی نظر پڑ ہی جاتی ہے۔ صاحبِ نظر کی نظر سے نظارہ بدل جاتا ہے۔ دلوں سے زنگ اترتا ہے۔ محبت کی فصل اگتی ہے۔ میٹھے چشمے پھوٹتے ہیں۔ قول و فعل میں مٹھاس در آتی ہے۔ ظاہر و باطن کی زمیں سے صرف محبت کی فصل پروان چڑھتی ہے۔ تضادات کی لہروں پہ سکوت طاری ہو جاتا ہے۔محبت کی کشش سے ایسے مدوجزر اٹھتے ہیں کہ دل کی دنیا بدل کر رہ جاتی ہے۔ نظر اور نظارے کا یہ میل ابدی روشنیوں کو لے کر آتا ہے۔ ظاہر کے ساتھ باطن بھی روشن ہو جاتا ہے، پھر انسان ’’تاش‘‘ نہیں کھیلتا۔ جھوٹ، بغض، حسد، انتقام، کینہ اور حرص و ہوس کے پتے نہیں پھینکتا۔ وہ کسی کی شکست کی خُو نہیں پالتا، بلکہ وہ کارآمد ہو جاتا ہے۔کارآمدی عطا ہو جانے سے وہ مخلوقِ خدا کے لئے بروئے کارآنا شروع ہو جاتا ہے۔ اس کے دیکھنے سے نظارہ بدل جاتا ہے، بات کرنے سے بات بن جاتی ہے۔ماضی کفر ہو تو نظر پڑنے سے حال اسلام سے مزین ہو جاتا ہے۔ صاحب ِ نظرکی نظر سے اس کی نظر ملتی ہے تو اندر کا منظر بدل جاتا ہے۔ وہ اقبال بن کر رومی کی نظر سے اکتساب کرتا ہے، کبھی رومی ہو کر شمس تبریزؒ کی نظر سے فیضیاب ہوتا ہے،اور کہیں نظام الدین محبوبِ سبحانی بن کر فرید الدین مسعود گنج شکرؒ کی نظر سے نظر سے ملاتا ہے تو بات بن جاتی ہے۔ اقبالؒ نے برملا کہہ دیا:
؎کیمیا پیدا کُن از مشتِ گِلے
بوسہ زن بر آستانِ کاملے
مٹھی بھر خاک کو کیمیا بنانے کے لئے کسی کامل کی دہلیز پہ بوسہ زن ہونا پڑتا ہے۔ اقبالؒ نے بھی صاحبِ نظر کی نظر سے دیکھا تو برصغیر کا سارا منظر دھندلا سا لگا۔ اہلِ نظر کو دھندلاہٹ نظر آ جایا کرتی ہے اور وہ اس کا سدباب کرتے اور نجات بھی دلاتے ہیں۔ دھندلا پن ان کی آنکھوں کو چبھتا ہے مگر وہ اسے نور کا تڑکا لگاتے ہیں جس سے تاریکی کا قلع قمع ہو تا ہے اور اجالے کے بادل برستے ہیں۔ بارانِ رحمت کی بوند اور خونِ جگر سے مزین آنسوکے امتزاج سے جبراور غلامی کا مطلع صاف ہو جاتا ہے اور طلوع صبح کی طرح دنیا کے نقشے پر پاکستان نمودار ہوتا ہے۔ آج کوئی اقبالؒ کی نظر سے دیکھے، سینے میں امت محمدی کا درد تو پالے۔ صاحبِ نظر اقبالؒ نے بھی یہی درد پالا تھا۔ انہوں نے پاکستان کا خواب دیکھا تھا، جو برسوں بعدمگر شرمندہ تعبیر ضرور ہوا۔ انہوں نے قومِ رسولِ ہاشمی کے لئے ’’نظر‘‘ کو ہی تجویز کیا تھا:
؎خرد کے پاس خبر کے سوا کچھ اور نہیں
ترا علاج نظر کے سوا کچھ اور نہیں