محمد اکرم چودھری
آج کے پاکستان کے بارے میں کچھ لکھنے سے قبل اگر اقبال کے ’’خواب‘‘ پر روشنی ڈال لوں تو ہمیں فرق جانچنے کی آسانی ہوجائے گی۔
علامہؒخطبہ الٰہ آباد میں فرماتے ہیں :’’اگر ہم چاہتے ہیں کہ اسلام فقط ایک مذہب اور روایت کے طور پر نہیں بلکہ ایک قوت کے طور پر زندہ رہے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ اسلام ایک مخصوص علاقے میں اپنی مرکزیت قائم کرے۔‘‘ پھر علامہ محمد اقبال نے1937ء میں قائد اعظم کو لکھے گئے ایک خط میں تحریر کیا: ’’اگر ہندوستان کے مسلمانوں کا مقصد سیاسی جدوجہد سے محض آزادی اور اقتصادی بہبود ہے اور حفاظت اسلام اس جدو جہد کا مقصد نہیں تو مسلمان اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکتے۔‘‘
علامہ اقبال نے چونکہ ہندوستان میں مسلمانوں کے زوال کے دور میں آنکھ کھولی، مسلم امہ کی پستی کو دیکھا مگر مایوس کن حالات کے باوجود ’’اپنی کشتِ ویراں سے ‘‘مایوس نہیں ہوئی آ پ کی جاگتی آنکھیں امت کی نشاۃ ثانیہ کا خواب دیکھتی تھیں۔علامہ اقبال نے جس پاکستان کا خواب دیکھا تھا درحقیقت ایک اسلامی ریاست تھی جس کے لئے رول ماڈل مدینہ کی اسلامی ریاست تھی اور وہ چاہتے تھے کہ اس ریاست میں اسلامی قانون کی بالادستی قائم رہے۔آج وزیر اعظم عمران خان بھی اسی ریاست مدینہ کا ذکر کرتے اور پاکستان میں قانون اور اداروں کی بالادستی چاہتے ہیں۔ مگر پاکستان کے قیام کے بعد بہت سی پارٹیوں نے اپنے منشور کی پہلی شقوں میں اسلامی شریعت و قانون کی بالادستی کو قرار دیا مگر وہ اپنے منشور سے پھر گئے اور شریعت پر عمل نہ ہو سکا، اسلامی قانون کے نفاذ کے لئے اسلامی نظریاتی کونسل قائم کی گئی جس نے سفارشات مرتب کرکے حکو مت پاکستان کو بھیج دیں مگر ان پر بھی عمل نہ ہو سکا ،دور حاضر کی ضرورت ہے کہ علامہ کے خواب کو تکمیل تک پہنچا نے کے لئے پاکستان میں اسلامی قوانین کا نفاذ کیا جائے۔
ہمیں ناز اس بات پر ہے کہ پاکستان کا خواب اقبالؒ نے دیکھا اور قائد اعظم نے اس کی تعبیرکی۔ اس کے ساتھ ہی خیال آتا ہے کہ کیا آج کا پاکستان وہی پاکستان ہے جس کا خواب اقبال نے دیکھا تھا اور کیا اگران کاخواب ‘‘آج’’ کا پاکستان ہوتا تو قائد اعظم واقعی اس کی ‘‘تعبیر’’ کیلئے کوشاں ہوتے؟ فرقہ واریت کے جن کو اقبال نے ’’ ہنگامہ محشر ’’ کی وجہ قرار دیا تھا۔ آج یہی جن بوتل سے باہر نکل آیا ہے۔ آج ہم کیوں اپنی قوتیں ، اپنے امکانات اس بوتل کے جن کو بند کرنے کیلئے استعمال کر نہیں پا رہے۔مجھے اقبال کی نظم ’’صدائے درد‘‘ یاد آرہی ہے۔ یہ نظم اس دور کی تخلیق ہے جب نہ تو پاکستان کا تصور تھا اور شائد اس وقت اقبال نے یہ خواب دیکھا بھی نہ ہو۔ لیکن آج کے پاکستان میں ،جسکی زمین تشدّد کے نتیجے میں بہنے والے خون سے سرخ ہو رہی ہے، فرقہ واریت کا سانپ ہمیں ڈس رہا ہے، بنیاد پرستی کے نتیجے میں تعصب کی ہوا چل رہی ہے، یہ نظم آج کے پاکستان پر حرف بحرف صادق آتی ہے۔
جل رہا ہوں کل نہیں پڑتی کسی پہلو مجھے
ہاں ڈبو دے اے محیط آب گنگا تو مجھے
سرزمیں اپنی قیامت کی نفاق انگیز ہے
وصل کیسا ، یاں تو اک قرب فراق انگیز ہے
بدلے یک رنگی کے یہ نا آشنائی ہے غضب
ایک ہی خرمن کے دانوں میں جدائی ہے غضب
کب زباں کھولی ہماری لذت گفتار نے!
پھونک ڈالا جب چمن کو آتش پیکار نے
اگر آج علامہ اقبال زندہ ہوتے تو شائد ان کا زیادہ وقت اپنے کلام کی وضاحتیں کرنے میں ہی گزر جاتا۔ ایسی وضاحتیں جو شائد بہت سے سیاست دانوں اور مذہبی جماعتوں کے لیے بھی قابل قبول نہ ہوتی۔ ان حالات میں نجانے اپنے خواب کی تعبیر مملکت خداداد پاکستان میں بھی رہ پاتے یا نہیں ؟ آج پاکستان کے سیاسی و مذہبی حالات ہر درد مند محب وطن پاکستانی کیلئے لمحہ فکریہ ہیں۔ اسکی بنیادی وجہ کتاب و سنت کے نور سے آراستہ فکر ِاقبال سے دوری ہے۔ ہم نے اقبالؒ کے نظریات کو بھلا کر ایک ایسی ڈگر کو اپنا لیا جسکی وجہ سے ہم اپنے مقصد سے دور ہوگئے۔ ہم نے دین اور سیاست کو جدا جدا کر دیا اور مذہب و سیاست کو ایک دوسرے کیلئے حرام قرار دیا۔ ایسے لوگوں کی آنکھیں کھولنے کے لئے قلندر لاہوری فرماتے ہیں:
ستم بلائے ستم یہ ہے کہ بعض مذہبی رہنماؤں نے رسم شبیری ادا کرنے کی بجائے سیاست کو اپنے سے دور کر کے قوم کی مہار، وڈیروں اور جاہلوں کے ہاتھ میں تھما دی۔ اور جنہوں نے اسلامی قو م کی قیادت کی ذمہ داری سنبھالی انہوں نے پیسوں کے عوض دین فروخت کرنا شروع کر دیا۔ اور آج ہم اس حالت کو پہنچ چکے ہیں کہ بے یارو مددگار ہیں۔ اسلامی دنیا سے بھی کٹ کر رہ چکے ہیں اور مغربی دنیا سے بھی۔ آج مسلمانوں بالعموم اور بالخصوص پاکستانیوں کو دہشت گردی کی علامت اور فسادی سمجھا جاتاہے اور امت مسلمہ کا تشخص اور اسلامی ریاست کا تشخص بری طرح تباہ ہو چکا ہے۔
افسوس تو یہ ہے کہ اقبالؒ نے جس پاکستان کا تصور پیش کیا تھا وہ پاکستان رات کی تاریکی میں کہیں گم ہوگیا ہے اور اب ہمیں اقبالؒ جیسے رہنمائوں کی ضرورت ہے جو ہمیں رات کی تاریکی سے نکال کر روشنی میں لے آئے لیکن یہ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک پاکستانی قوم اور حکمران اپنے آپ کو علامہ اقبال کے نظریات و تصورات کے مطابق نہ ڈھال دیں۔ اگر ہم نے حالات پر غور و خوض نہ کیا اور اپنے حالات کو سدھارنے اور اسلام کے اصولوں کے مطابق ڈھالنے کی جدوجہد نہ کی اور انقلاب بپا نہ کیا توملکی حالات مستقبل قریب میں اس سے بھی زیادہ خطر ناک حد تک پہنچ سکتے ہیں اور پھر کوئی بھی کچھ نہ کر سکے گا، یہ سب کچھ اپنی جگہ خوفناک ضرور ہے مگر مایوسی بندہ مومن کا شیوہ نہیں ہے۔
اس لیے آج ہمیں اقبالؒ کے فلسفوں کو پرکھنے کی ضرورت ہے،اقبالؒ و قائدؒ کے پاکستان کو وڈیروں اور لٹیروں کے پنجے سے چھڑانے کی ضرورت ہے۔ فکر اقبال کی دھجیاں اڑانے والوں کو محسن قوم و ملت علامہ اقبالؒ کی یاد دلانے کی ضرورت ہے۔پاکستان اگر قائداعظمؒ اور علامہ اقبالؒ کے تصورات کے مطابق تعمیر کیا جاتا تو نہ تو یہ دولخت ہوتا اور نہ ہی آج بھانت بھانت کی بولیاں سننے کو ملتیں۔ پاکستان کی خوش قسمتی ہے کہ اسے 1973ء میں ایک متفقہ دستور مل گیا۔ اس کے بعد بھی یہ کئی سانحات سے گزرا لیکن اللہ کا شکر ہے کہ یہ دستور ان صدموں کو برداشت کرگیا اور اب تک موجود ہے۔ اس دستور کے خلاف سازشیں ہورہی ہیں۔ قائداعظم نے انہی سازشیوں کے بارے میں بہت جگہوں پر فرمایا تھا کہ
اقبال! یہاں نام نہ لے علم خود ی کا
موزوں نہیں مکتب کے لیے ایسے مقالات
بہتر ہے کہ بیچارے ممولوں کی نظر سے
پوشیدہ رہیں باز کے احوال و مقامات
اقبال کی نگاہیں دور رس تھیں۔ آج کے حالات میں بھی ہمیں افکار اقبال پر عمل پیرا ہونا ہوگا۔ورنہ ہم آج بھی گھیرائو، جلائو، قتل، غارت، چوری، ڈکیتی اور ایک دوسرے کو نوچنے کی سیاست کرتے رہیں گے۔ اللہ ربّ العزت کی بارگاہ بے کس پناہ میں دعاء ہے کہ اس پاکستان کو پھر سے امن کا گہوارہ بنا جس کے لئے مسلمانوں نے اپنے مال ،جانوں اور عزتوں کی قربانیاں دیں ،وہ لٹے اور پسے ہوئے مسلمان انگریز اور ہندو سے جان چھڑا کر یہاں آئے تھے مگر یہاں نام نہاد مسلمان وڈیروں اور لٹیروں کے ہتھے چڑھ گئے ،اے اللہ ریاست مدینہ کے والی کا صدقہ ملک پاکستان کو امن و عافیت کا گہوارہ بنا۔ اور ہمیں علامہ اقبال کے نظریات وتصورات پر چلنے کی توفیق عطا فرما(آمین)
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024