اقبال کو اگر محسن کشمیر کہا جاتا ہے تو محض اس لئے نہیں کہ انہوں نے برصغیر ہند میں ایک آزاد ریاست کی تخلیق کا تصور پیش کیا ہے جسے بعد میں مسلمانان کشمیر نے بھی اپنی جدوجہد کی منزل قرار دیا بلکہ اس لئے کہ انہوں نے زور کلام سے اپنے محکوم اور غلامی کے بندھنوں میں جکڑے ہوئے مگر احساس زیاں سے عاری اہل وطن (اہل کشمیر) کے دل میں سیاسی شعور بھی پیدا کیا اور ان کے جمہوری حقوق کی جدوجہد میں عملی کردار بھی ادا کیا۔علامہ کشمیر کے آبائوداجداد سپرو خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ (جو کشمیر کے برہمن ذات کے ہندوئوں کی ایک گوت ہے) اور ان کے آبائواجداد کشمیر سے ہجرت کرکے سیالکوٹ میں آباد ہو گئے تھے۔ اگرچہ محققین و مورخین ہنوز اس خاندان کے قبول اسلام اور ترک وطن کی تاریخ کے بارے میں کسی حتمی نتیجے پر نہیں پہنچے‘ تاہم علامہ کے اپنے ہی ایک شعر سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کا خمیر سرزمین کشمیر سے اٹھا ہے جس پر انہیںفخر تھا۔ فرماتے ہیں …؎
تنم گلے نہ خیابان جنت کشمیر
من از حریم حجاز و نواز شیرازست
ایک اور جگہ انہوں نے ایک شعر میں جس کا یہ مصرعہ درج ذیل ہے‘ اپنی اسی نسبت کی طرف اشارہ کیا ہے۔ فرماتے ہیں۔
برہمن زادۂ رمز آشنائے روم و تبریز است
علامہ انسانوں کی تجارت کو نوع انسان کی تذلیل گردانتے تھے لہٰذا 1846ء میں رسوائے عالم بیع نامۂ امرتسر کے تحت انگریزوںکا اہل کشمیر کو جموں کے ڈوگرہ راجہ میاں گلاب سنگھ کے ہاتھ اس کے بفلک کہساروں‘ لہلہاتے مرغزاروں‘ سیمابی جھرنوں اور پُرپیچ و خم ندیوں بشمول اس کے باسیوں کے 75 لاکھ نانک شاہی سکوں کے عوض بیچنے کی ان الفاظ میں پرزو مذمت کرتے ہیں …؎
بادصبا اگر بہ جنیوا گزر کنی
حرفے زمابہ مجلس اقوام بازگوئی
دہقان وجوئ۔ وکوہ و خیاباں فروختند
قومے فروختند وچہ ارزاں فروختند
انہوں نے1873ء سے 1938ء تک یعنی مہد سے لہد تک نہایت شدت سے کشمیرکی غلامی‘ مظلومیت اور بدحالی کا کرب محسوس کیا اور وہ ہر کروٹ اس پر آنسو بہاتے رہے اور انہیں اس شکنجے سے نجات دلانے کی تدبیریں سوچتے رہے۔ یہ وہی زمانہ ہے کہ کشمیر کو مہاراجہ گلاب سنگھ والی جموں کی دسترس میں آئے ہوئے صرف 31 برس ہوئے تھے اور یہ سرزمین ایک نئے سوداگر کی دست برد اور حرض و آز کا تختہ مشق بنی ہوئی تھی۔ اس نے اس سرزمین کو اپنا مطیع بنانے کیلئے انگریزوں کی اعانت سے اہالیان کشمیر کی ہر مزاحمت کوانتہائی ظلم و بربریت سے دبایا۔
علامہ اقبال نے اپنی تعلیم کیساتھ ساتھ جو وہ سیالکوٹ سے لاہور منتقل ہوکر حاصل کر رہے تھے‘ کشمیری تارکین وطن کی فلاح و بہبود کی خاطر یکے بعد دیگرے کئی انجمنیں قائم کیں جیسے ’’کشمیری مسلمانان لاہور‘‘ اور ’’آل انڈیا مسلم کشمیر کانفرنس‘‘ وغیرہ جن کے علاوہ اپنے سابقہ وطن کے مصائب پر بھی غور و غوض کرنا شروع کیا۔
آپ 1918ء میں انگلستان سے واپس آئے اور اب پہلے سے کہیں توجہ اور سنجیدگی کے ساتھ اپنے ہم وطنوں کے دکھوں میں شرکت کرنے لگے۔ مشہور مورخ منشی محمد دین فوق خود بھی کشمیری نژاد اور اقبال کی طرح سیالکوٹ ہی میں سکونت پذیر تھے۔ علامہ سے قریبی راہ و رسم رکھتے تھے۔ جسٹس شیخ عبدالقادر کے رسالہ ’’مخزن‘‘ کے علاوہ فوق صاحب علامہ کے کلام کو بڑے اہتمام سے اپنے اخبارات میں شائع کرتے تھے۔
علامہ کی بڑی خواہش تھی کہ کشمیری تارکان وطن میں‘ جو ہندوستان کے مختلف صوبوں میں سکونت پذیر ہیں‘ باہمی اتحاد و یگانگت پیدا ہو۔ چنانچہ اس مقصد کیلئے انہوں نے فوق صاحب کو مشورہ دیا کہ وہ اپنے اثر و رسوخ کو کام میں لاتے ہوئے ہندوستان کے مختلف شہروں میں کشمیری مجالس قائم کریں۔ علامہ کی دلچسپی فقط سیاسیات تک ہی محدود نہ تھی بلکہ انہیں تاریخ و لٹریچر کے تحفظ سے بھی گہری وابستگی تھی حتیٰ کہ وہ جس کسی کو بھی اس سلسلے میں دلچسپی لیتا ہوا دیکھتے تو اس کی حوصلہ افزائی کرتے۔ اسی طرح ان کی یہ بھی تمنا تھی کہ کشمیری شعراء کا تذکرہ لکھنے کا بیڑہ اٹھایا جائے۔ چنانچہ اس سلسلہ میں ان کی نگاہ انتخاب پیرزادہ غلام احمد مہجور پر پڑی جن کو اس کا بیڑہ اٹھانے کی ترغیب دی مگر افسوس کہ کسی نے بھی اس اہم کام کی طرف توجہ نہ دی حتیٰ کہ سکھوں کے بعد مہاراجہ پرتاپ سنگھ کے دور میں کشمیر کا لٹریچر تباہ ہو گیا۔
اگرچہ علامہ کے دل میں اپنے وطن کو دیکھنے کی بڑی چاہت تھی اور 1910ء میں مہاراجہ پرتاپ سنگھ نے جن سے وہ کشمیر کے مسلمانوں کے مسائل کے سلسلہ میں ایک وفد لیکر لاہور میں ملے تھے‘ خود بھی انہیں اس کی دعوت دی تھی مگر دل میں بسیار خواہش کے باوجود وہ بوجہ ایسا نہ کر سکے‘ تاہم انہوں نے 1921ء میں براستہ کوہالہ سرینگر تشریف لاکر اس دیرینہ آرزو کی تکمیل کر ہی لی۔ اس سفر کی روداد بیان کرتے ہوئے صاحب زادہ محمد عمر (پروفیسر صاحبزادہ محمود احمد و صاحبزادہ پروفیسر حسن شاہ سابق رجسٹرار قائداعظم یونیورسٹی کے والد محترم) تحریر فرماتے ہیں کہ ’’علامہ منشی سراج الدین‘ میر منشی ریذیڈنسی کشمیر اور چند دیگر احباب کے ہمراہ شکارے میں بیٹھ کر ڈل کی سیر کیلئے نکلے۔ دن نشاط باغ اور شالامار باغ میں گزرا۔ دونوں وقت مل رہے تھے کہ شکارا اس انجمن کو لیکر ڈل پہنچ گیا۔ طبیعت میں آمد ہوئی اور موقع پر ہی چند اشعار ہو گئے۔ بعد میں اسی نشاط باغ میں علامہ نے چند اشعار ارشاد فرمائے جو ’’ساقی نامہ‘‘ کے عنوان سے شائع ہوئے۔ ان میں انہوں نے اہل وطن کوخودی اورحریت کاپیغام دیا۔ اس نظم کے دو شعر نذرقارئین کئے جاتے ہیں۔
بریشیم قبا خواجہ از محنت او
نصیب تنش جامۂ تار تارے
ازان می فشاں قطرۂ برکثیری
کہ خاکسترش آفریند شرارے
ان اشعار میں علامہ نے اہل وطن کی ذہنی و عملی وارفتگی کا ذکر کرتے ہوئے تحریر کیا ہے کہ جو کشمیری آقا کواپنے عرق جبیں سے ریشمی قبا پہنچاتا ہے اس کے اپنے جسم پر پھٹا پراناچیتھڑا ہے۔ وہ دعا کرتے ہیں کہ اے خدا کشمیر کی شور زمین پر ایسے قطرے چھڑک کہ اس کی خاکستر سے شرارے پھوٹ پڑیں جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا ہے۔ یہ ’’ساقی نامہ‘‘ جو 1921ء میں تحریر کیا گیا‘ اس نے 1924ء میں اپنا اثر دکھا دیا۔ وہ اس طرح کہ ریشم خانہ سرینگر کے آٹھ ہزار مزدور اپنی انتظامیہ کے خلاف مجسم احتجاج بن گئے۔ اگرچہ ان پر راجہ ہری سنگھ نے جو ان دنوں ریاستی افواج کا کمانڈ ران چیف تھا‘ خود اپنی کمان میں رسالہ فوج دوڑائی جس سے بہت سے بے گناہ محنت کش مسلمان شہید اور بہت سے زخمی ہو گئے مگر اس کا یہ فائدہ ضرور ہوا کہ ڈوگرہ استبداد کے خلاف پہلی بار ایسی صدا بلند ہوئی جو موجودہ تحریک کا آغاز ثابت ہوئی۔
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024