ڈاکٹر بابر اعوان بے پناہ دوست ہے۔ وہ سیاست میں کبھی جس کے ساتھ رہا‘ اس کی عزت اور قدر و منزلت میں اضافہ ہوا حتیٰ کہ جناب آصف زرداری کو بھی ڈاکٹر بابر اعوان کی رفاقت کا فائدہ ہوا۔ وہ آج کل عمران خان کے ساتھ ہے۔ اس کی کمٹمنٹ اپنے دوست کے ساتھ ہر طرح قابل اعتبار ہوتی ہے۔
میرے جیسے آدمی کے ساتھ ان کی محبت لازوال ہے اور لاثانی بھی ہے۔ میں ان کے ساتھ تعلق کی کیفیت کے ساتھ کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا۔ ستارۂ امتیاز میں نے صدر زرداری کے ہاتھوں سے وصول کیا۔ اس کیلئے بھی بہت گہری دوستی کا اعزاز ہے اور وہ اعوان صاحب کی مرہون منت ہے۔ اور اب وہ وسیع حلقہ احباب میں گھرے ہوئے ہیں اور یہ گھیرائو ان کے اردگرد ایسا گھیرا ڈالتا ہے اور ایسا دائرہ بنتا ہے کہ جو اندر ہیں‘ وہ باہر نہیں آسکتے‘ جو باہر ہیں وہ اندر نہیں جا سکتے۔ جسے نکلنا ہوتا ہے وہ خود ہی زور لگا کر باہر آتا ہے۔ باہر والوں کو کسی نہ کسی طرح راستہ مل جاتاہے۔ بہرحال زرداری صاحب کی مہربانیاں بھی مجھ پر ہیں اور وہ بھی ڈاکٹر بابر اعوان کی محبتوں اور نشستوں کا نتیجہ ہیں۔
ڈاکٹر بابراعوان خوش قسمت ہیں کہ آج وہ عمران خان کے ساتھ ہیں اور یہ عمران خان کی بھی خوش قسمتی ہے۔ ڈاکٹر بابر اعوان کہتے ہیں کہ عمران کاروبار نہیں کرتا۔ وہ کاروبار حکومت بھی نہیں کرتا۔ حکومت اور حکمت کو ایک ساتھ رکھتا اور دوستوں سے مشاورت کو بھی ضروری سمجھتا ہے۔ اس کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ جو کچھ کرے لوگوں کیلئے کرے اور وہ اس میں پوری طرح کامیاب ہے۔
عمران جھوٹ نہیں بولتا ہے۔ وہ کبھی اپنے لوگوں کے ساتھ بھی جھوٹ نہیںبولے گا۔ سچ بڑی طاقت ہے جو اس کے پاس ہے۔ وہ خود کرپٹ نہیں ہے۔ وہ کرپشن کو پسند نہیں کرتا۔ اس کا پہلا مقصد ہی ملک میں کرپشن کا خاتمہ ہے۔ وہ اب تک بہت اچھا جا رہا ہے اور انشاء اللہ ہمیشہ اچھا ہی رہے گا۔ ڈاکٹر بابر اعوان عمران خان کے ساتھ ہے تو اس کیلئے طاقت ہے اور اس کیلئے عزت ہے۔ عمران احتساب کیلئے پورا زور لگا رہا ہے۔ اپوزیشن کچھ نہیں چاہتی نہ وہ لوگوں کیلئے کچھ مانگ رہی ہے۔ وہ صرف چاہتے ہیں کہ احتساب کی پالیسی ختم کر دی جائے اور ان کا احتساب کوئی نہ کرے۔ جب کوئی میٹنگ ہوتی ہے تو عمران ڈٹا ہوا ہوتا ہے۔ ان کے ساتھ ڈاکٹر بابر اعوان بھی ڈٹا ہوا ہوتا ہے اور مضبوطی کے ساتھ ان کے ساتھ کھڑا ہے۔ اعوان ہمت والا آدمی ہے۔ اس کی رفاقت ایک ہمت کی طرح ہے۔ میں ایک عام سا معمولی آدمی ہوں مگر میرے ساتھ بھی ڈاکٹر بابر اعوان نے دوستی کا حق ادا کر دیا ہے۔ میں حاضر ہوں۔ میں ان کیلئے کچھ بھی کر سکتا ہوں۔ میں حق‘ سچ اور دوستی کیلئے کھڑا ہونے والا آدمی ہوں۔ میں عمران خان کیلئے بھی حاضر ہوں۔ ڈاکٹر صاحب عمران کے ساتھ ہیں۔ میرے پاس لفظ ہیں اور میں انہیں ہیرے جواہرات بنا کے ڈاکٹر بابر اعوان کیلئے قربان کر سکتا ہوں۔
سیاستدانوں کے طبقے میں ایک گھرانا چودھریوں کا ہے جس سے دوستانہ رابطہ کیا جا سکتا ہے۔ اب لگتا ہے کہ وہ حکمران بنتے جا رہے ہیں۔ اقتدار تو اقتدار ہوتا ہے اور میں صرف اقدار کا آدمی ہوں۔
چودھری صاحب کا ایک فوٹوگرافر ہے اقبال چودھری۔ اسے اپنے نام کے ساتھ چودھری کا لفظ بڑی طاقت کا باعث لگتا ہے۔ اس کا انداز بھی دوستانہ تھا۔ مگر اس کا انداز بھی چودھری صاحب کی وجہ سے شاید بدلتا جا رہا ہے۔ اب اسے معلوم ہو گا کہ چودھری کا مطلب کیا ہے۔ یہ بھی بڑی حیثیت ہے کہ وہ چودھری صاحبان کا فوٹوگرافر تھا۔ وہ بھی بڑی محبت سے پیش آتا تھا… مگر اب؟
اب اقبال چودھری کا انداز کچھ غیر دوستانہ سا ہو گیا ہے۔ چودھری پرویز الٰہی سے رابطہ بھی مشکل سا ہو گیا ہے ورنہ کبھی کبھی وہ خود بھی فون کر لیتے ہیں۔ ہمیں بھی کچھ خیال کرنا چاہئے کہ آخر وہ اقتدار میں ہیں اور دوست بھی ہیں۔ سپیکر اسمبلی بھی حکمران ہی ہوتا ہے۔ حمزہ شہباز بھی انہیں مسٹر سپیکر سر کہنے پر اسمبلی میں مجبور ہوتے ہیں۔ حمزہ جب نجی محفل میں اور کسی پریس کانفرنس میں سپیکر چودھری پرویز الٰہی کو جعلی سپیکر کہتے ہیں تو مجھے اچھا نہیں لگتا۔ کسی صورت میں یہ بات چودھری صاحب جیسے اعلیٰ انسان کے لئے مناسب نہیں ہے۔ میں نے ایسی کوئی بات ان کے منہ سے نہیں سنی۔ وہ کسی عام آدمی کے ساتھ غیر دوستانہ انداز میں بات نہیں کرتے۔
اب ان کا ایک فوٹوگرافر غیر دوستانہ انداز میں بات کرتا ہے اور فون بڑی غیر ذمہ داری سے بند کر دیتا ہے اور کہتا ہے کہ میں چودھری پرویز الٰہی کے ساتھ ایک ضروری میٹنگ میں ہوں اور فون حاکمانہ حوالے سے بند ہو گیا۔ چودھری صاحب حکمران ہو گئے ہیں تو ان کا فوٹوگرافر بھی حکمران ہو گیا ہو گا۔ ہمیں خیال رکھنا چاہئے؟
ہم چودھری پرویز الٰہی کو دوست سمجھتے تھے تو اس میں ان کی مہربانی بھی تھی۔ مہربان تو وہ اب بھی ہونگے مگر وہ حکمران بھی ہو گئے ہیں۔ محکوم لوگوں کو اپنی اوقات میں رہنا چاہئے۔
برادرم تنویر ظہور کا اہم رسالہ ’’سانجھاں‘‘ شائع ہو گیا ہے۔ تنویر اتنا دوست ہے کہ خود گھر آ کے رسالہ دیتا ہے جب میں باہر نکلتا ہوں تو جا چکا ہوتا ہے۔ تازہ شمارے میں ہمارے ایڈیٹر ایڈیٹوریل شاعر ادیب اور کالم نگار جناب سعید آسی کے لئے خود تنویر ظہور نے ایک بہت اہم تحریر بہت محبت سے لکھی ہے۔ آسی صاحب کے بہت زبردست کالموں کا مجموعہ ’’تیری بکل دے وچ چور‘‘ ان کے لئے تنویر نے اپنے رسالے کا ایک حصہ مخصوص کیا ہے۔ تنویر ظہور بہت سچا سادا اور پکا دوست ہے اس کا آسی صاحب سے بڑا پرانا اور محبت والا تعلق ہے۔ وہ پرانے تعلق کو نئی نعمت کی طرح سنبھال کر رکھتا ہے۔ میرا اعزاز ہے کہ وہ میرا بھی دوست ہے اور کالج کے زمانے کی یادوں کو بھی اپنے دل میں تازہ رکھتا ہے۔
معروف شاعر اور دانشور خالد جاوید جان کر بھی بہت دوست رکھتا ہے اور ہر رسالے میں اسے بہت شان سے شائع کرتا ہے۔ تازہ شمارے میں ایک غزل آناتھ کنول کی بھی ہے
دل اختیار میں بے اختیار کتنا تھا
تیری وفا پہ ہمیں اعتبار کتنا تھا
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024