ملکی اور غیر ملکی میڈیا کا شکریہ کہ اس نے نئے آئی ایس آئی چیف کے آبائی قصبے کوٹ رادھا کشن کے حوالے سے ہاتھ ہولا رکھا ہے اور اسی قصبے میں ایک حالیہ سانحے کے تناظر میں ان کی تقرری پر کوئی تبصرہ نہیں فرمایا۔
ہمارے بیشتر اخبارات نے بی بی سی کا ایک طویل تجزیہ شائع کیا ہے جس میں لکھا ہے کہ پاکستان میں ہر ادارے پر تنقید ہو سکتی ہے مگر آئی ایس آئی کے خلاف ایسی جسارت کوئی نہیںکر سکتا، مگر آئی ایس آئی پر جو بھی تنقید کی جا سکتی ہے، اسی بی بی سی کی تحریر کے حوالے سے ،وہ شائع کر دی گئی ہے۔
بلا شبہہ آئی ایس آئی وطن عزیز کا ایک باوقار اور قابل فخر ادارہ ہے۔اس کے کردار کو پسند کرنے والے بھی بہت ہیں اور تنقید کرنے والے بھی بہت۔لیکن بحیثیت مجموعی اس ادارے نے ملک و قوم کے تحفظ میںشاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے ۔
یہ بات درست ہے کہ افغان جہاد سے پہلے بہت کم لوگ اس کے وجود کے بارے میں باخبر تھے مگر جاننے والے جانتے تھے کہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی پیش رفت میں آئی ایس آئی نے تاریخ ساز کارنامہ انجام دیا اور عالمی رکاوٹوں کی آنکھوں میں آ نکھیں ڈال کر اس پروگرام کو پروان چڑھایا، اس لئے یہ تبصرہ سو فیصد درست نہیں کہ جنرل اختر سے پہلے کوئی اس ادارے کے بارے میں آگاہ نہیں تھا، جنرل اختر سے پہلے آئی ایس آئی کے سینکڑوںنہیں، ہزاروں کارکنوںنے جانیں ہتھیلی پر رکھ کر مادر وطن کی خدمات انجام دیں۔
جنرل اختر کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ افغان جہاد کی یا توا نہیں خبر تھی یا آرمی چیف جنرل ضیاالحق کو جو اس وقت ملک کے صدر بھی تھے۔ یہی راز داری اس جہاد کی کامیابی کی دلیل مانی جاتی ہے۔تو پھر جہاد کارگل کی منصوبہ بندی ،چند جرنیلوں تک محدود ہونے پر کیوں اعتراض کیا جاتا ہے۔تنقید اور توصیف کا کوئی ایک پیمانہ ہونا چاہئے۔
جنرل حمید گل پر آئی جے آئی کی تشکیل کا الزام عائد کیا جاتا ہے، جنرل اسلم بیگ اور جنرل درانی پر سیاستدانوں میں پیسہ بانٹنے کاالزام سامنے آیا۔جنرل اسلم بیگ اور جنرل درانی اور آئی ایس آئی کے دیگر افسروں کو کئی بار سپریم کورٹ طلب کیا گیا۔اس بات کا جواب سپریم کورٹ کے فاضل جج صاحبان کے ذمے ہے کہ انہوں نے اس مقدمے کا فیصلہ کیوںنہیں کیا۔جنرل احتشام ضمیر پر الزام ہے کہ انہوںنے ق لیگ کو کامیاب کروایا، ان کے خلاف کوئی متاثرہ فریق عدالت نہیں گیا۔
آئی ایس آئی کے سیاست میں ملوث ہونے کا موازنہ اگراس بات سے کیا جائے کہ کسی حکمران پارٹی کے جلسوں میں بندے ڈھونے کا کام کمشنر، ڈی سی، تحصیلدار ، پٹواری اور تھانیدار کے سپرد کیا جاتا ہے یا منہاج القرآن کے درجن بھر بے گناہ کارکنوں کو کسی پولیس افسر کے ہاتھوں قتل کروایا جاتا ہے یا کسی وزیر اعظم کے حکم پر ایف ایس ایف کے اہل کار احمد رضا قصوری کے والد کو قتل کر دیتے ہیں تو اس موازنے میں آپ اکیلی آئی ایس آئی کو مورد الزام کیسے ٹھہرا سکتے ہیں۔ بنیادی طور پران تمام امور اورمعاملات میں حکومت وقت کے احکامات کی بجا آوری میں ماتحت سرکاری ادارے یا اہل کار حرکت میں آتے ہیں۔یہ غلط ہے یا صحیح، مگر کام ایک جیسا ہے۔
ہمارے ہاں فیشن ہے کہ فوج پر تنقید کرنا یا آئی ایس آئی میںکیڑے نکالنا آزادی اظہار اور آزادی صحافت کے تحت جائز اور بر حق ہے۔پاک فوج اور آئی ایس آئی پر ضرور طبع آزمائی فرمائی جائے مگر یہ شوق پالنے والے کبھی زندگی میں ایک بار ہی بھارتی فوج کے کشمیریوں پر جبر اور مظالم پر بھی تنقید کر سکتے یا بھارتی خفیہ ادارے را کی دہشت گردی کا راز فاش کرتے جس نے سمجھوتہ ایکسپریس میں پاکستانی مسافروں کو خاکستر کر کے اس کا الزام آئی ایس آئی پر دھر دیا۔ گجرات میں ہزاروں مسلمانوں کو کس نے زندہ جلایا اور مالی گائوں میں بم دھماکے سے کس نے بے گناہوں کا خون کیا، کبھی آزادی اظہار اور آزادی صحافت کے علم بردار اس پر بھی لب کشائی فرمائیں۔
نئے آئی ایس آئی چیف کے سامنے ویسے ہی سنگین اورگھمبیرمسائل کا پہاڑ ہے جن سے سابق سربراہوں کو واسطہ پڑا۔ یہ تصور غلط ہے کہ آئی ایس آئی قومی دفاعی، حکومتی، سیاسی یا خارجہ پالیسی کی اجارہ دار ہے، یہ ادارہ ہر لحاظ سے جی ایچ کیو میں بیٹھے ہوئے جرنیل کی ہدایات کا پابند ہے۔دونوں اداروں کی ایک دوسرے سے کوئی مسابقت نہیں ، نہ ان میں کوئی بعد ہے، پچھلے چند ماہ میں جی ایچ کیو اور آئی ایس آئی کے درمیان دراڑ ڈالنے کی ہر کوشش ناکامی سے دوچار ہوئی۔
دہشت گردی کی جنگ، افغانستان سے امریکی انخلا ،مشرقی سرحد اور کشمیر کی کنٹرول لائن پر خطرات، ایٹمی اسلحے کے خلاف عالمی سازشیں۔۔ یہ چند ایک بڑے مسائل ہیں جن پر آئی ایس آئی چیف کو نظر رکھنی ہے اور پاکستان کے مفادات کا تحفظ کرنا ہے۔
آئی ایس آئی کے بارے میں یہ سوچ لینا صحیح نہیں ہو گاکہ ا س نے ہمیں کشمیر لے کردینا ہے یا دہشت گردوں کو پھونک مار کر غائب کر دینا ہے یا کسی بھی بیرونی جارحیت کی صورت میں صرف اسی نے ہمارے دفاع کو یقینی بنانا ہے۔یہ سارے کام قوم نے مل جل کر کرنے ہیں، اگر ہم کشمیر کو پس پشت دھکیلنے پر تلے ہوئے ہوں،دہشت گردوں کے قصیدے بیان کر رہے ہوں اور انہیں اپنے بچے کہہ رہے ہوں اور پاکستان کے ازلی دشمنوں کے ساتھ امن کی پینگ جھولنا چاہتے ہوں تو ظاہر ہے آئی ایس آئی ا س قو می سوچ اور رویئے کی صورت میں کیا خاک کر پائے گی۔ مگر میرا ذاتی خیال پھر بھی یہی ہے کہ یہ ادارہ کسی صورت بھی سرنڈر نہیں کرے گا اور آخری سانس تک دشمن کا راستہ روکنے کی کوشش کرے گا۔مجھے اس ادارے کے ماٹو کا علم نہیں لیکن میری قوم سلطان میسور کے اس ماٹو کو جانتی ہے کہ شیر کی ایک دن کی زندگی، گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے۔
قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ضمنی انتخابات
Apr 22, 2024