امریکی عوام نے فیصلہ سنا دیا۔۔۔!
کان سے فون لگائے دوسرے ہاتھ سے دروازاہ کھولا تو سامنے مارتھا کھڑی تھی ۔باہر شدید برفانی ہوائیں چل رہی تھیں،نیویارک ایک اور طوفان سے دوچار ہے ۔مارتھا نے مجھے دیکھتے ہی انگلیوں سے وکٹری کا نشان بناتے ہوئے اوباما کی کامیابی کی مبارکباد دی۔میں نے اشارے سے اسے اندر آنے کو کہا کیوں کہ دوسری طرف فون پر وقت ٹی وی چینل والوں نے مجھے ہولڈ کرارکھا تھا۔میں نے مارتھا کو بتایا کہ پاکستان میں میڈیا سے بات کر رہی ہوں ،وہ پوچھ رہے ہیں کہ تم لوگوں نے اوباما کو کس بنیاد پر ووٹ دیا اور یہ کہ اوباما پاکستان پر ڈرون حملے کراتا ہے وغیرہ۔مارتھا نے کہا کہ اوباما نے ہمارے لئے روزگار کے مواقع فراہم کئے ،اور اپنے لوگوں سے کہو کہ خود کو مضبوط کرو۔
Don't blem Obama(اوباما کو موردالزام نہ ٹھہراﺅ)میں نے مارتھا کا پیغام وقت ٹی وی کے ذریعہ پاکستانی عوام تک پہنچا دیا جسے امریکی عوام کا پیغام سمجھا جائے۔پاکستان کے ٹی وی چینلز خاص طور پر وہ چینلز جنہوں نے امریکی انتخابات کی لائیو کوریج کا ریکارڈ قائم کیا ہے ، مارتھا کا پیغام کُوزے میں دریا کے مصداق ہے۔امریکہ کے اچھے برے تعلقات تمام ممالک کے ساتھ ہیں مگر پاکستانی چینلز پر امریکی الیکشن کی کوریج دیکھ کر پاکستان پر امریکہ کی 51ویں ریاست ہونے کاشبہ گزرتاہے۔چوبیس گھنٹے ایک ہی ایشو ڈسکس کیا جاتاہے کہ” امریکی الیکشن پاکستان کی خارجہ پالیسی پر کیا اثرات مرتب کریں گے ؟ حالانکہ یہ حقیقت روز روشن کی طرح واضح تھی کہ امریکہ کے الیکشن”اثرات مرتب“ کرنے کے لئے نہیں بلکہ امریکی معیشت کی بنیاد پر لڑے جا رہے ہیں۔اچھے برے اثرات اسی پر مرتب ہو تے ہیں جو اثرات کو ”ویلکم“ کرتا ہے۔ امریکی عوام بیروزگاری اور معاشی بحران کے ہاتھوں پریشان ہیں اور جو انہیں بہتر معاشی پالیسی دے گا،یہ لوگ اسے ووٹ دیں گے اور عوام نے اپنا فیصلہ منگل کی رات سنا دیا ۔ اوباماگزشتہ چار سالوں سے ملک کے داخلی امور پر گرفت رکھتے ہیں لہذا عوام انہیں مزید چار سال کا موقع فراہم کرکے منصوبے مکمل کرانا چاہتے ہیں۔2008کے الیکشن میں مسلمان ووٹرز کا ٹرن آﺅٹ 98 فیصد تھا جبکہ اس الیکشن میں90 فیصد رہا۔اوباما نے روزگار اور صحت کے لئے کام کیا ہے لہذا اگلے چار سالوں کے دوران ادھورے منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہنچا سکیں گے۔ اقلیتوں نے اس بار بھی اوباما کو ووٹ دیا۔خارجہ پالیسی کبھی اتنی خراب نہ تھی جس قدر بُش دور میں رہی اور ری پبلکن کا لگایا دہشت گردی کا بُوٹا تن آور درخت بن چکا ہے ۔وائٹ ہاﺅس میں کالا آئے یا سفید ،دہشت گردی کے اس درخت کو کاٹنے کی کسی میں طاقت نہیں۔وار آن ٹیرر کی پالیسی ری پبلکن کا تحفہ ہے ،رمنی کے آنے سے مزید خراب ہو جاتی جبکہ اوباما عراق کے بعد افغانستان سے بھی فوجیں واپس بلانے کے حق میں ہیں۔امریکی صدر کے انتخاب کی بات ہوتی ہے تو ہمارے لوگ ”لیس اِیول“(چھوٹے شیطان) کو ووٹ دینے پر یقین رکھتے ہیں حالانکہ شیطان چھوٹا ہو یا بڑا، شیطان ہے۔ اور یہ شیطان واشنگٹن میں ہو یا اسلام آباد میں، پورے تالاب کو ناپاک کرنے کے لئے نجس کا ایک قطرہ کافی ہوتا ہے ۔باراک اوباما پہلی بار صدر منتخب ہوئے تو انہوں نے کہا ”یس وی کین“ ہاں ہم کر سکتے ہیں اور دوسری بار صدر بنے تو کہا ”ہمیں ابھی بہت کام کرنا ہے“۔امریکہ کے معاشی بحران میں کسی صدر کا دوسری ٹرم کے لئے جیت جانا اس کی مقبولیت کی ضمانت ہے۔ شروع میں مقابلہ سخت تھا مگر اوباما مہم آخری وقت تک متحرک رہی اور لوگوں کو گھروں سے نکلنے پر مجبور کر دیا ،یہی وجہ ہے کہ پولنگ سٹیشن بند ہونے سے پہلے ہی انتخابات کے نتائج اوباما کے حق میں آنے شروع ہو گئے۔عوام نے صدر اوباما کو وائٹ ہاﺅس میں مزید چار سال کے لئے بٹھادیا ہے تا کہ صحت کے قانون کو نافذ کرا سکیں اور ٹیکسوں میں اضافے اور امیگریشن کے قوانین میں اصلاح کے وعدوں کو پورا کر سکیں جو لوگ بیروزگاری کو ملک کا سب سے بڑا مسئلہ سمجھتے تھے انہوں نے اوباما کو ووٹ دیا اور جن لوگوں کو ٹیکسوں کے بارے میں تشویش تھی، انہوں نے مسٹر رمنی کو ووٹ دیا۔ اوباما اگر اگلے چار سال میں ملک کے معاشی بحران کو کاندھا دینے میں کامیاب ہو گئے تو اس سے اگلا الیکشن بھی ڈیمو کریٹس کا ہو گا ۔امریکی عوام جنگوں سے بیزار ہو چکے ہیں لہذا اب کوئی امیدوار کسی اسامہ کی بنیاد پر الیکشن نہیں جیت سکے گا۔اوباما نے حالیہ الیکشن اسامہ کی ہلاکت کی بنیاد پر نہیں ،معاشی بحران کے خاتمہ کے وعدے پر جیتا ہے گو کہ سینڈی طوفان کے دوران اوباما کی عوام کے لئے خدمات کو بھی بے حد سراہا گیا۔نیویارک اور اس کے نواح میں ایک اور طوفان داخل ہوچکا ہے ۔شدید سردی،بارش اور برفباری شروع ہے۔خوفناک موسم ہے جبکہ کئی علاقے ابھی تک بجلی سے محروم ہیں۔کئی دوستوں کو فون کیا مگر کئی علاقوں میں فون کا نظام ابھی تک بحال نہیں ہو سکا۔کچھ دوست حج کرکے لوٹے ہیں اور ملک واپسی پر سینڈی طوفان، برفانی طوفان اور اندھیروں نے ان کا استقبال کیا۔تاریک گھروں میں”کینڈل ڈنر “ ہو رہے ہیں ،شام ڈھلتے ہی موم بتیاں جلا دی جاتی ہیں۔امریکہ کے لوگ بنیادی سہولیات کے عادی ہو چکے ہیں لہذا دس روز سے بنیادی سہولیات کے بغیر زندگی گزارنا انتہائی دشوار ہے مگر برداشت اور نظم و ضبط برقرار ہے۔ صدر اوباما کی زندگی بھی جہد مسلسل اور برداشت سے بھری ہے۔سیاہ فام اوباما کاپہلی بار صدر بننا بھی تاریخ تھا لیکن معاشی بحران کے باوجود دوسری بارصدر بننا اس سے بھی بڑی تاریخ ہے۔ 1940میں صدر فرینکلن رو زویلٹ کے بعد بیروزگاری کی شرح 7.9ہونے کے باوجود کسی برسر اقتدار صدر کو دوسری بار منتخب ہونے کا شرف باراک اوباما کو حاصل ہوا ہے۔