غیبی آواز سن کر مسلمان ہو گیا
ساﺅتھ افریقہ کے ایک نو مسلم سے پوچھا گیا کہ بھئی بتاﺅ کیسے مسلمان ہوئے؟
اس نے بتایا کہ میں ساﺅتھ افریقہ کے جنرل پوسٹ آفس میں آفیسر تھا۔
میں ایک روز آفس جا رہا تھا ایک جگہ سے گزرا تو میرے کان میں ایک آواز آئی ”ساری کی ساری کامیابی اللہ کے ہاتھ میں ہے“ میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا کہ کون بول رہا ہے تو کہیں کوئی نظر نہ آیا، پھر میں چلا مجھے پھر آواز آئی ”سارے کے سارے خزانے اللہ رب العزت کے ہاتھ میں ہیں۔“ پھر میں نے ادھر ادھر دیکھا مگر مجھے بولنے والا نظر نہ آیا۔
پھر مجھے آواز آئی ”ساری چیزوں اور حالات کے مالک اللہ رب العزت ہیں۔“ اب وہ چلتے چلتے اپنے آفس پہنچا اور کام کے دوران بھی ان الفاظ کی تاثیر کو سوچتا رہا اور کام سے فارغ ہونے کے بعد گھر پہنچ کر میں نے اپنی بیوی کو آج کا واقعہ بتایا بیوی نے کہا یہ تو اسلام کی دعوت ہے اللہ ہمیں اسلام کی دعوت دے رہا ہے۔
پھر میں نے اپنے ایک مسلمان دوست کو یہ واقعہ بتایا وہ دوست ہمیں جنوبی افریقہ میں کیپ ٹاﺅن کے تبلیغی مرکز میں لے گیا وہاں کے مرکز والوں نے ہمیں اسلام قبول کرنے کی دعوت دی اور اس طرح میں نے اور میری بیوی نے اسلام قبول کر لیا میں کچھ وقت افریقہ میں تبلیغ میں لگا کر پاکستان کے تبلیغی مرکز رائے ونڈ پہنچا اور اسلام کا داعی بن گیا۔
آسٹریلیا کے نو مسلم کی رائے ونڈ
اجتماع میں درد بھری بات
آسٹریلیا کے ایک صاحب رائے ونڈ اجتماع میں شریک ہوئے وہاں کے لوگوں نے ان کو اپنے اسلام کے بارے میں تاثرات بیان کرنے کو کہا تو انہوں نے بات شروع کی اور پورے مسلمانوں کوخطاب کرتے وقت: ”یا ایھا الظالمون“ کہہ کر شروع کیا، مسلمانوں نے ان سے کہا ہم نے آپ کو محبت سے بلایا اسلام کی دعوت دی پھر ہمیں ظالم کہتے ہو۔
اس نے کہا:
”بے شک آپ نے مجھے اسلام کی دعوت دی مگر آپ اپنے ظلم پر غور کیجئے میرے باپ مجھ سے زیادہ شریف تھے اور اسلام کو پسند کرتے تھے اور بہت زیادہ قابل تھے کہ اسلام قبول کریں، مگر آپ نے اسلام کا تعارف ان سے نہیں کرایا وہ بے چارے محروم اس دنیا سے چلے گئے میرے وہ شریف اور محسن والدین جنہوں نے مجھے پالا پوسا اور کس کس طرح میری پرورش کی آج دوزخ میں جل رہے ہوں گے کیا آپ نے ٹھنڈے کلیجے سے سوچا کہ ان کو کس قدر تکلیف ہو گی صرف تمہاری کاہلی کی وجہ سے تمہاری اپنی ذمے داری کے ادا نہ کرنے کی وجہ سے۔“
افریقہ کے جنگلوں میں تبلیغ کا کام شروع
افریقہ کے جنگلوں میں 400 سال سے کوئی نہیں پہنچا دعوت وہ واحد سنت ہے جس کی برکت سے افریقہ کے صحراءاور جنگل کے رہنے والے ہزاروں لوگ 1400 سال کے بعد اسلام لائے ہیں ان کو پتہ ہی نہیں تھا کہ لباس کا پہننا بھی کوئی چیز ہے، نماز اور حج بھی کوئی عمل ہے۔
پاکستان سے جماعتیں گئیں مالی، مالی میں ہزاروں لوگ تبلیغ کی محنت میں لگے اور رائیونڈ آ کر انہوں نے اس محنت کو سیکھا بعد میں مالی والوں نے جماعت بھیجی کانگو کے جنگلوں میں جہاں بونے رہتے ہیں چھوٹے چھوٹے قد کے انسان۔
جو کہ بغیر کپڑوں کے زندگی گزارتے ہیں جنگل میں جانوروں کا شکار کر کے زندگی بسر کرتے ہیں ایک سال پہلے مالی سے کانگو جماعت گئی ان بونوں کا قد تین فٹ ہے لمبے سے لمبا آدمی ساڑھے تین فٹ ہے اور طاقتور اتنے ہیں کہ ایک ایک آدمی کی چھ چھ بیویاں ہیں۔ وہاں بیان ہوا عربی میں پھر عربی سے ترجمہ ہوا فرانسیسی میں پھر فرانسیسی میں ترجمہ ہوا مالی میں، مالی کی زبان سے ترجمہ ہوا جنگلی زبان میں، چار واسطوں سے ان کو بات پہنچی پہلے ہی بیان میں ہزاروں آدمی اللہ کے راستے میں نکلے اتنے لوگ وہاں پیاسے تھے۔ جو آدمی اس جماعت میں نکلا ہوا تھا اس کا نام حسن تھا۔ وہ مجھے حج میں ملا وہ مالی میں رہتا ہے۔ بڑا عالم ہے کہنے لگا کہ میں جدہ گیا تو وہاں کے علماءملنے کے لئے آئے وہ کہنے لگے ہمیں تبلیغ پر بڑے اعتراضات ہیں حسن نے کہا پہلے یہ کارگزاری سن لو پھر اعتراضات کرنا۔ جب ان کو کارگزاری سنائی کہ کانگو میں جو مالی کی جماعت گئی اس کی محنت کی برکت سے تین ہزار آدمی مسلمان ہوئے اور انہوں نے کپڑے بھی پہن لئے ہیں جب ان کو پہلی مرتبہ کپڑے پہنائے تو وہ پریشان ہو گئے کہ یہ تم نے کیا پہنا دیا پچھلے سال ان بونوں میں سے ایک آدمی حج پہ آیا تو شیخ حسن نے اس کا خوب اکرام کیا۔
مالی کے صحرا میں انقلاب آ گیا
مالی میں پاکستان کی جماعت چلی صحراءمیں لوگوں نے کہا ادھر مت جاﺅ تمہیں قتل کر دیں گے۔ یہاں سے تو آج تک کوئی زندہ نہیں گزر سکا وہ ساتھی کہنے لگے اللہ کے دین کے لئے جان قربان ہو جائے تو اس سے بڑھ کر کیا سعادت ہے۔
صحراءمیں چلے وہاں کے لوگوں کو دعوت دی مشقت بھی ہوئی خیر وہ مانوس ہوئے۔ پھر دوسری جماعت موریطانیہ سے مالی گئی کہ وہاں صحراءمیں ہمارا بس نہیں چلتا تم قریب کے لوگ ہو تم وہاں محنت کرو لہذا موریطانیہ سے مالی جماعت گئی۔
موریطانیہ کے صحراءکے رہنے والے تبلیغی احباب کی جماعتیں مالی کے صحراءمیں گئیں وہاں دین کی محنت کی جماعتیں آتی رہیں ایک سال کے اندر اندر سترہ ہزار آدمیوں کا اللہ کے راستے میں وقت لگ گیا ایک سال کے اندر وہ سب تبلیغ میں آ گئے۔
امریکی نوجوان کا عربی میں فی البدیہہ خطبہ
میں 1998ءمیں امریکہ گیا تو ایک نوجوان وہاں ایم بی اے کر رہا تھا اور تجارت بھی کر رہا تھا سارا خاندان وہاں آباد ہے دس دن میرے ساتھ لگائے اور مجھ سے کہنے لگا کہ میرا جی چاہتا ہے میں علم حاصل کروں۔میں نے کہا پہلے چار مہینے لگا لو پھر دیکھ لیں گے۔ دس دن میں جذبہ بنا ہے پھر ختم ہو جائے گا جب ہم نیویارک پہنچے واپس آ نے کے لئے تو وہ مجھ سے پہلے پاسپورٹ اور ٹکٹ لے کر پہنچا ہوا تھا۔
ہم ایک ہی جہاز میں رائیونڈ اکٹھے آئے اس نے چار مہینے لگائے اب چوتھا سال ہے میرے پاس پڑھ رہا ہے اور وہ اپنی جماعت کا سب سے قابل بچہ ہے، عربی ایسے بولتا ہے جیسے عرب بولتے ہیں، فی البدیہہ خطبہ دیتا ہے عربی میں، آپ دنگ ہو جائیں حیران ہو جائیں۔
اٹلی میں عرب نوجوان کی محنت
اس دفعہ میں حج پر گیا تو اٹلی سے ایک نوجوان آیا ہوا تھا عرب ۔ حضرت حسنؓ کی اولاد میں سے تھا مراکش کا رہنے والا تھا مجبوری کی وجہ سے اسے اٹلی میں رہنا پڑ گیا، بائیس سال کی عمر تھی، اس اکیلے لڑکے نے اٹلی میں پورے مسلمانوں کو حرکت دے دی۔
وہاں تین سو مسجدیں بن گئیں جبکہ ایک مسجد بھی نہیں تھی اور حج پر ستر نوجوانوں کو لے کر آیا ہوا تھا اتنی طاقت اللہ نے مسلمانوں میں رکھی ہے وہ عالم نہیں ہے کوئی دنیاوی ڈگری تھی اکنامکس یا فزکس، کی مجھے اچھی طرح یاد نہیں لیکن اس نے وہاں جو محنت کو زندہ کیا تو پورے اٹلی میں تین سو مسجدوں کا ذریعہ بن گیا اور ہزاروں نوجوانوں کی توبہ کا ذریعہ بن گیا۔
برازیل کا پورا قبیلہ مسلمان ہو گیا
پچھلے سال ہم امریکہ گئے تو شکاگو سے ایک ایک جماعت ٹیکسی ڈرائیوروں کی ایک چلے کے لئے برازیل گئی۔ 800 آدمی ان کے ہاتھ پر مسلمان ہوئے
نیپال میں عورتوں کی جماعت
نیپال میں ایک جماعت عورتوں کی گئی اور ستر آدمی لے کر آئے میں نے پوچھا بھئی اتنے آدمی کیسے آ گئے؟ انہوں نے کہا کہ پہلے مردوں کی جماعت بھیجتے تھے تو ہم گھروں میں چھپ جاتے تھے تم نے عورتوں کی جماعت بھیجی انہوں نے ہماری عورتوں کا ذہن بنایا اب گھر میں گئے تو روٹی بند ہم نے کہا بھائی مارے گئے باہر نکلے تو جماعت پکڑتی ہے اندر جائیں تو عورتیں نہیں بیٹھنے دیتیں اب تو نکلنا پڑے گا۔
....................
دس ہزار عرب دوبارہ مسلمان ہو گئے
ایک جزیرہ تھا آسٹریلیا میں وہاں پاکستان کی نہیں جنوبی افریقہ کی ایک جماعت گئی۔ وہاں دس ہزار عرب آبادی تھی لیکن وہ سب عیسائی ہو چکے تھے۔ انہوں نے ایک جگہ اذان دے کر نماز پڑھی۔ جب سلام پھیرا تو ایک بوڑھی عورت نے ان سے بات کی کہ یہ جو تم نے کام کیا ہے میرے باپ دادا کیا کرتے تھے۔ ہم عرب ہیں لیکن سب کچھ بھول چکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ تم ہمارے پاس آ¶ ہم اس لئے آئے ہیں کہ اپنے بھائیوں کو بھولا سبق یاد دلائیں تو بوڑھی عورت گئی اور مکانوں سے نکال کر نوجوان لڑکوں، لڑکیوں، بڑے، چھوٹے سب کو لے آئی اور سارا گرا¶نڈ بھر دیا۔ انہوں نے ان کو دعوت دے کر سب کو کلمہ دوبارہ پڑھایا۔ اللہ فرماتے ہیں جو لوگوں کے دلوں میں میری محبت بٹھائے گا وہ میرے محبوب ہیں تو ہم لوگوں سے توبہ کروائیں تو اللہ کے محبوب بن جائیں گے۔
....................................
دو مساجد سے پندرہ سو مساجد تک
انگلینڈ میں 1952ءمیں پہلی جماعت گئی اس وقت وہاں صرف دو مسجدیں تھیں اور جب دین کی محنت شروع ہوئی تو اس کی برکت سے الحمد اللہ اس وقت پندرہ سو سے زائد مساجد ہیں انگلینڈ والوں نے کہا کہ ہم نے سو گرجا گھروں کو خرید کر مسجدیں بنائی ہیں۔ انگلستان میں اس دین کی محنت کی برکت سے کئی گرجا گھر مسجد میں بدل گئے۔ انگلینڈ کے گرجا گھروں کا یہ حال ہے کہ پورا ہفتہ بند پڑا رہتا ہے صرف اتوار کے دن کھلتا ہے ایک گرجا گھر فروخت ہو رہا تھا اسے مسلمان خریدنا چاہتے تھے اور ہندو بھی مندر بنانے کےلئے خریدنا چاہتے تھے پھر اللہ کا کرنا ایسا ہوا مسلمانوں نے اس کو خریدنے میں خوب بڑھ چڑھ کر حصہ لیا حتیٰ کہ بہت سی عورتوں نے اپنے زیوروں کو بھی بیچ دیا اس طرح قربانی دے کر اس کو خریدا گیا۔
پھر انگلستان میں حکومت نے گرجا گھروں کی مسلمانوں کے ہاتھوں کثرت سے خریداری کی وجہ سے پابندی لگا دی لیکن الحمد اللہ دین کی محنت کی کثرت کی وجہ سے مساجد کم پڑ رہی ہیں اس وجہ سے مسلمانوں نے سینما گھروں کو اور مختلف جگہوں کو خرید کر مسجد بنایا۔
یوگوسلاویہ میں پہلی جماعت گئی تو وہ ہوٹل میں ٹھہری کیونکہ مسجدیں بہت کم تھیں اور دور دور تھیں اب الحمد اللہ دعوت و تبلیغ کی محنت کی برکت سے (3500) ساڑھے تین ہزار مساجد ہیں ہالینڈ کا تبلیغ کا مرکز پہلے پادریوں کا مدرسہ تھا جہاں پادریوں کو دینی تعلیم دی جاتی تھی آج وہ تبلیغ کا مرکز ہے۔ لندن میں جو تبلیغ کا مرکز ہے وہ پہلے عیسائیوں کا گرجا گھر تھا آج وہ تبلیغ کا مرکز ہے۔
کینیڈا میں پادریوں کا ایک بہت بڑا مدرسہ تھا آج وہاں بخاری و مسلم پڑھائی جاتی ہے۔
....................
چھ انگریز اذان سن کر مسلمان ہو گئے
لندن کے مرکز ”ڈیوز بری“ میں جماعت کے ایک ساتھی کی چھ انگریز نوجوانوں سے ملاقات ہوئی ان سے پوچھا تم لوگ کیسے مسلمان ہوئے۔ کہنے لگے ہم نے ایک جماعت والوں کو اذان دیتے ہوئے دیکھا اس اذان کو سن کر ایسی عجیب کیفیت ہوئی اور ہم پر اذان کا ایسا اثر ہوا کہ ہم ان کے پاس گئے انہوں نے ہمیں اسلام کی دعوت دی اس پر ہم مسلمان ہو گئے جب ان کے نام پوچھے تو سبحان اللہ ان کے نام بھی اللہ والوں کے تھے ایک کا نام عبداللہ دوسرے کا نام طلحہ تیسرے کا نام اسماعیل چوتھے کا نام ابراہیم تھا۔
....................
مڈگاسکر میں مرتد قبیلہ مسلمان ہو گیا
مڈگاسکر ایک جزیرہ ہے جہاں ایک جماعت گئی۔ جماعت کے ساتھیوں کی وہاں ایک قبیلے کے سردار سے بات ہوئی تو پتہ چلا کہ یہ لوگ پہلے مسلمان تھے پھر مرتد ہو گئے۔ اس قبیلے کے سردار کو اسلام کی دعوت دی اور وہ مسلمان ہو گیا اس کا نام ابراہیم رکھا گیا۔ اس سردار کی برکت سے سارے قبیلے والے جو کہ مرتد ہو چکے تھے سب کے سب مسلمان ہو گئے۔
........................
ایک عرب نے 25 سال بعد اذان کی آواز سنی
ارجنٹائن میں ایک سال کی پیدل جماعت گئی ایک عرب کی فیکٹری میں پہنچی۔ اس سے ملاقات ہوئی نماز کا وقت ہوا تو اس کی فیکٹری میں اذان دی تو وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا اور کہا کہ آج میں نے 25 سال بعد اذان کی آواز سنی ہے۔
امریکی نماز پڑھتے دیکھ کر ایمان لے آیا
ہم دو سال پہلے کینیڈا گئے ہمارے ساتھ ایک واقعہ پیش آیا۔ وہاں پوری دنیا کی سب سے بڑی آبشار گرتی ہے جس کو نیاگرا آبشار کہتے ہیں لاکھوں انسان وہاں پر دیکھنے کے لئے آئے ہوئے تھے ہم اس کے قریب سے گزر رہے تھے تو نماز کا وقت ہو گیا ہم نے یہیں نماز پڑھنے کا ارادہ کر لیا۔
ہم نے ایک طرف ہو کر اذان دی اور چادریں بچھائیں، ایک امریکن کرسی پر بیٹھ کر دیکھتا رہا، ہم نے اسی آبشار کی نہر سے وضو کیا اور نماز کی تیاری کرنے لگے تو وہ کہنے لگا کہ آپ مسلمان ہیں؟
ہم نے کہا ہاں ہم مسلمان ہیں۔
اس نے کہا کہ میرے بھی کچھ دوست مسلمان ہیں، جب ہم نماز سے فارغ ہوگئے تو وہ ہمارے قریب ہو گیا کچھ ساتھیوں نے کہا کہ آپ مسلمان کیوں نہیں ہو جاتے؟
تو کہنے لگا: میرا دل چاہتا ہے شاید میری بیوی نہ مانے۔
تو میں نے کہا: کوئی اور بیوی اللہ تعالیٰ دے دے گا اس کی کیا بات ہے؟ تو وہ کلمہ پڑھ کر مسلمان ہو گیا ہم نے اس کو ایک اسلامک سینٹر کا پتہ دے دیا کہ آپ وہاں تشریف لے جائیں انشاءاللہ مزید رہنمائی مل جائے گی۔
....................
پادری کی رائے ونڈ آمد اور دو چیزوں کی وصیت
1978ءمیں ایک پادری آیا تھا عبدالمجید اس کا نام تھا فرانس میں رہتا تھا وہ مسلمان ہوا تیونس کی ایک جماعت کو دیکھ کر۔ اس جماعت کے امیر کا نام بھی عبدالمجید تھا تو اس نے اپنا نام بھی عبدالمجید رکھا جب وہ رائے ونڈ آیا تو وہ 75 برس کے اوپر تھا یا 80 کے درمیان تھا لمبا سا، اس نے کہا کہ میں 30 برس سے قرآن پڑھتا تھا لیکن قرآن کے مطابق کسی کو دیکھتا نہیں تھا یہ ٹھیک تھا کہ قرآن حق ہے لیکن کوئی نظر نہیں آتا تھا تو یہ جماعت اسے مل گئی کہنے لگا ہ مجھے کچھ خوشبو آئی اس کو اپنے گرجے میں ٹھہرایا اور میں خود بھی مسلمان ہو گیا۔ پھر وہ کہنے لگا کہ میں آپ کو دو باتوں کی وصیت کرتا ہوں ایک تو یہ کہ آپ کا جو لباس ہے پگڑی، داڑھی، کُرتا، شلوار اس کو نہ چھوڑیں چاہے آپ جہاں ہیں اس میں جو طاقت ہے وہ کسی چیز میں نہیں جو آپ کا ظاہری حلیہ ہے۔ دوسری چیز کیا ہے کہ جب آپ یورپ میں پھریں تو اذان دے کر باجماعت نماز پڑھیں یہ دو باتیں خنجر کی طرح سینے میں لگتی ہیں۔ 75 سال جو پادری رہا یہ اس کا نچوڑ بتا رہا ہے پھر دعا کرتا تھا کہ یااللہ میری فرانس میں موت نہ آئے کسی مسلمان ملک میں موت آئے تو چلے میں گیا ہوا تھا تیونس۔ وہیں اس کا انتقال ہوا اور وہی دفن ہوا۔
........................
انگلینڈ میں دو ہزار مسجدیں بن گئیں
پچھلے سال آسٹریلیا ہماری جماعت گئی۔ آسٹریلیا کے پاس بیس جزیرے تھے جو سارے کسی زمانے میں مسلمان تھے اور اب وہ عیسائی ہو چکے ہیں اور اس کے برعکس یہ ہے کہ جب سے یہ جماعتیں یورپ میں پیدل چلنا شروع ہوئی ہیں اس وقت سے صرف فرانس میں ڈیڑھ ہزار مسجدیں بن گئی ہیں۔ انگلینڈ میں کوئی دو ہزار کے قریب مسجدیں بن گئی ہیں۔