رائے ونڈ کو دہلن کی طرح سجا دیا گیا ....تبلیغ کا حکم مدینہ منور سے ملا
عاطف محمود سبزواری
اﷲ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے کہ اس دُنیا میں کتنے انسان پیدا ہوئے اور قیامت تک نہ جانے کتنے پیدا ہوںگے سب انسانوں کی دو قسمیں ہیں ایک تو وہ ہیں جو ہر طرح کامیاب رہے اور دو سری قسم ان کی جو ناکام اور خائب و خاسر رہے کامیاب انسان کون ہیں اور نا کام کون لوگ ہیں یہ ایک سیدھی سادھی اور ہمارے سامنے کی جانی بوجھی حقیقت ہے جسے ہم دیکھتے ہیں سنتے ہیں جانتے ہیں مگر اس پر توجہ کئے بغیر چپ چاپ آگے بڑھ جاتے ہیں یہ ہمارا سب سے بڑا ماتم ہے آئیے ذرااس حقیقت کا جائزہ لیں جس مکان میں آپ بیٹھے ہیں اسی پر نگاہ ڈالئے یہ مکان چاروں طرف کی دیواروں پر مشتمل ہے اس میں کمرے چھت کھڑکیاں اور دروازے ہیں اب کوئی یہ کہے کہ یہ مکان بغیر کسی کے بنائے اپنے آپ سج بن کر کھڑ ا ہوگیا تو یقینا یہ بات مذاق لگے گی کیونکہ مکان خود بخود نہیں بنا اسے ایک معمار نے بنایا ہے اور اگر معمار اسے نہیں بناتا تو اس کی ایک دیوار بھی کھڑی نہیں ہو سکتی تھی اس چھوٹی حقیقت میں کتنی بڑی حقیقت چھپی ہوئی ہے او رہم بلا تامل یہ کہہ سکتے ہیں کہ اگر ایک چھوٹا سامکان بغیر معمار نہیں بن سکتا تو یقینا ہمار اردگر اتنی بڑی دنیا بھی خود بخود نہیں بن گئی بلکہ اس کو بنانے والی ایک عظیم الشان اور زبر دست حکمت والی ہستی ہے اس دنیا میں فلک بوس پہاڑہیں، وسیع و عریض سمندر ہیں سر سبز وادیاں ہیں ، یہاں آبشاروں کا نغمہ بھی ہے، ہواﺅں کا فراٹا بھی ہے، صحراﺅں کا سناٹا بھی ہے یہاں صبح سورج چمکتا ہے اور جب رات آتی ہے تو چاند جگمگا تا ہے اور دور دور تک ستاروں کے ننھے ننھے دئیے جھلملاتے چلے جاتے ہیں پھر یہاں کبھی گرمی ہے کبھی سردی کبھی برسات ہے کبھی بہار ہے اور کبھی خزاں۔۔۔ الغر ض یہ سارا حیرت انگیز کارخانہ خود بخود نہیں بن گیا یقینا اسے زبر دست عقل و دانش اور بے مثال قدرت و طاقت اور عظمت والی ہستی نے بنایا ہے یقینا یہ وہی بے مثال ذات علی ہے جس کی خبر ہمیں پیغمبروں نے دی ہے اور جس کا اسم گرامی اﷲ تعا لیٰ ہےپیغمبروں نے ہمیں بتایا ہے کہ اﷲ تعالیٰ ہمارا اور ساری کائنات کا خالق رزاق اور مالک ہے سب سے آخر میں تمام پیغمبروں کے سردار خاتم الا نبیاء سید البشر حضرت محمد ﷺ نے ہمیں یہ بشازرت دی ہے اﷲ نے ہمیں اپنی بندگی کے لئے پیدا کیا ہے جو لوگ رب العزت کی بندگی کریں اور نیکی کی زندگی بسر کریں گے وہ اس دنیا میں اور آخرت میں ہمیشہ کامیاب اور سرخرو رہیں گے اور انہیں نہ صرف اس دنیا میں پاکیزہ زندگی عطا کی جائے گی بلکہ آخرت میں بھی ایسے انعامات سے نوازا جائے گا جن کا یہاں گمان بھی نہیں کیا جاسکتا
پس کامیاب انسانو ں کا طبقہ وہ ہے جنہوں نے اﷲ تعالیٰ کو اپنا حقیقی خالق رزاق اور مالک مان کر اس کے احکام کے مطابق زندگی بسر کی اور ناکام انسانوں کا گروہ وہ ہے جو اﷲ تعالیٰ کے احکام سے منہ موڑ کر اس دُنیا کو عیش و نشاط کا مرکز سمجھ بیٹھا من مانی زندگی بسر کرتا رہا اور نتیجتاً دونو ںجہانوں میں ہمیشہ کے لئے ذلیل ہو گیا اس حقیقت کی وضاحت کے بعد اب ہم سب کو اپنا اچھی طرح جائزہ لینا چاہیے اپنے ایمان اور اپنے عمل کو پرکھنا چاہیے اور ایک اٹل فیصلہ کر لینا چاہیے کہ ہمیں کس طبقے میں شامل ہونا ہے اس کامیاب طبقے میں جس نے اﷲ تعالیٰ کے احکام کی تعمیل میں زندگی بسرکی اور دونوں جہانوں کے انعامات حاصل کر کے رب العزت کے نزدیک سُرخرو اور کامیاب رہا یا اس گروہ میں جو اﷲ تعالیٰ کا باغی بن کر لہو ولعب میں ڈوبا رہا اور ذلت و ناکامی اور درد ناک عذاب کے سوا جسے کچھ ہاتھ نہ آیا آیئے ہم سب آج اور ابھی اﷲ کے اطاعت گزار کامیاب بندوں میں شامل ہونےکا مضبوط فیصلہ کر لیں کیونکہ اس دنیا کی زندگی مختصر ہے بچپن کھیل کود میں گزر جاتا ہے جوانی غفلت میں بیت جاتی ہے پھر بڑھاپا چھا جاتا ہے اور زندگی کے دروازے پر موت کا فرشتہ دستک دینے لگتاہے یوں یہ فنا پذیر زندگی دیکھتی آنکھوں دم توڑ دیتی ہے اور انسان موت کی گود میں سو جاتا ہے آئیے اب موقع ہے کہ ہم تیزی سے گزرتی ہوئی موجودہ زندگی کے لمحوں کو مضبوطی سے پکڑ لیں غفلت بے یقینی اور بدعملی سے توبہ کرلیں© اور اپنے دل کو اس خدائے بزرگ و بر تر کی جلوہ گاہ بنائیں جس نے ہمیں اس دُنیا میں بھی بے شمار نعمتیںدے رکھی ہیں جو آخرت میں بھی ایمان اور اعمال صالح کے صلے میں اپنی رحمت سے ایسے ایسے انعامات مرحمت فرمائے گا جن کی دلربائی کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا دونوں جہانوںمیں کامیابی کا آسان طریقہ حضورµنے عملی زندگی میں برت کر دکھلا دیا ہے او رصحابہ کرامؓ نے رسول مقبول کی مبارک زندگی کی پیروی میں اپنی ساری زندگی نثار کر دی پیروی کا یہی طریقہ ہمارے لئے مشعلِ راہ ہے رسالت مآب نے ہمیں اپنے مبارک قول اور عمل سے مکمل وضاحت کے ساتھ بتا دیا ہے کہ اﷲتعالیٰ پر ایمان اور اعمال صالح کی زندگی خو د اختیار کرنا او رسارے عالم کے انسانوں کو اسی مبارک زندگی پر لانے کی جدو جہد کرنا ہی مسلمانوں کا اصل مقصد زندگی ہے تاریخ کے اوراق بتاتے ہیں کہ جب تک مسلمانوں نے اپنے مقصد زندگی کو پیش نظر رکھا او راس کے لئے اپنا مال اور اپنی زندگی کھپائی وہ بلندیوں کے زینے طے کرتے رہے او رجب اُن کا اصل مقصد زندگی سے دھیان ہٹ گیا وہ مصائب و مکروہات کا شکار ہو گئےاﷲ تعالیٰ کے حامی دین کو فروغ دینے لئے اپنا جان و مال کھپانا اور غفلت زدہ انسانوں کے سر رب العزت کی چو کھٹ پر جھکانے کے لئے نگر نگر ، ملک ملک او ردربدر پھرنا رسول مقبول اور صحابہ کرامؓ کا خاس شیوہ تھا رسول کریم کے بعد صحابہ کرام عشق خداوندی سے لبریز قلوب کے ساتھ دُنیا بھر کے بے خبر انسانوں کو ایمان کی حرارت عطا کرتے رہے اُن کے عشق ، ان کی للہیت ، اُن کی شب بیداریوں ، انکے ایمان و یقین او راُن کے سوزوگداز سے ساری دُنیا میں توحید کی اذان گونج اُٹھی اور باطل کے بت ٹوٹ گئے افسوس ملوکیت کی لائی ہوئی خرابیوں نے سب سے زیادہ ہلاکت آفریں قباحت یہ پیدا کی کہ در بدر پھر کر بے طلبوں کو دعوت الی اﷲ دینے کا وہ واحد اور انقلابی طریقہ نا بود ہو گیا جو رسالت مآب نے سکھلایا تھا بلا شبہ ہر دور میں بزرگان دین نے اپنے اپنے انداز میں رجو ع الی اﷲ کی دعوت جا ری رکھی اور اپنے سوز ایمانی اور اپنی پاکیزہ سیرت سے لوگوں کے دلوںایمان کی شمع فروزاں کر تے رہے لیکن اس کے باوجود ساری امت اس جو ہر دعوت سے محروم ہوتی گئی جس کیلئے یہ پیدا کی گئی ہے یعنی کلمہ حق کی دعوت عام کرنے کے لئے امت کی اجتماعی نقل و حرکت ماند پڑ گئی اور اس امت کی وہ امتیازی شان باقی نہ رہی جب اس امت کا ہر فرد اﷲ تعالیٰ کی بندگی کا پیغام لے کر دور دور تک دیوانہ وار پھرتا اور اپنی زندگی کے اصل مقصد کے لئے اپنی جان تک قربان کر تا نظر آتا تھا آج ہم جن آفتوں او رنحوستوں کی زد میں ہیں وہ تبلیغ دین کیلئے اجتماعی نقل و حرکت کے چھوٹ جانے کا نتیجہ ہے جب نہریں سوکھ جاتی ہیںفصل خشک ہو جاتی ہیں او رزمین پیاسی ہوجاتی ہےتو اﷲ تعالیٰ مردہ زمین کی سیرابی کے لئے بادلوںکے قافلے بھیج دیتاہے اور پیاس کی ماری زمین کو بارش بر سا کر جل تھل کر دیتاہے دعوت الی اﷲ کے آب حیات سے محروم ہو جانے کے نتیجے میں امت مسلمہ ذلت و زوال کے اس درجے کو پہنچ گئی تھی کہ ہمارے اکثر دردمند بزرگ امت کی گمراہی اور اس کے رُوح فر سا دکھوں پر رویا کر تے تھے مگر اُنہیں اُمت کو دوبار ہ دین کی زندگی پر لانے او ر اس کے دکھوں کا مداوا کرنے کی کوئی تدبیر سمجھائی نہیں دیتی تھی اُمت کی اس حالت پر ربّ ذوالجلا ل کو رحم آیا اور اس نے اپنے فضل خاص سے دعوت الی اﷲ کی نقل و حرکت کو زندہ کرنے کیلئے حضر ت مولانا محمد الیاس ؒ سے کام لے کر امت کی شادالی کا اہتمام فرمادیا حضرت مولانا محمد الیاس بڑے نجیب الطرفین بزرگ تھے آپ1886 میں پیداہوئے آپ کا سارا خاندان نہایت بلندپایہ دینی خاندان تھا یہ آپ کی دینی تعلیم و تربیت کا ہی فیض تھا کہ آپ ہر وقت دین کے فروغ کی جد وجہد میں مصروف رہتے تھے شر وع شروع میں آپ نے اپنے والد گرامی حضرت مولانا محمد اسماعیل ؒ کی طرز پر دینی مدرسے قائم کئے او راس سلسلہ میں میوات میں انتھک کام کیا مگر آپ دینی مدرسوں کے نتائج کی طرف سے مطمئن نہیں تھے چنانچہ آپ نے دین کے فروغ کی تحریک کو تیز کرنے کیلئے 1926ءمیں تبلیغی گشتوں کا ہتمام شروع کر دیا تبلیغی نقل و حرکت کا یہ ایمان افروز سلسلہ کس طرح از سر نو زندہ ہوا یہ بڑا عجیب اور عظیم واقعہ ہے 1344ھ میں آپ اپنے استاد حضرت مولانا خلیل احمد سہارنپوری کے ساتھ دوسرے حج کے لئے گئے حج کے اختتام پر جب مدینہ منورہ سے رخصت ہونے کا موقع آیا تو حضرت مولانا محمد الیاس ؒ کے رفقائے کرام کو چ کی تیاری کرنے لگے تو انہیں دیکھ کر بڑی حیرت ہوئی کہ حضرت مولانا الیاس ؒ شد ید بے چینی اور اضطراب کی حالت میں ہیں© اور مدینہ منورہ سے رخصت ہونے کیلئے تیار نہیں ہیں© رفقانے مولانا کی اس حالت کا ذکر مولانا خلیل احمد سہارنپوری سے کیا تو انہوں نے کہا تم اُن سے چلنے کا اصرار نہ کرو ان پر اس وقت ایک خاص کیفیت طاری ہے یا تو تم اتنا انتظار کرو کہ وہ خود تمہارے ساتھ چلے جائیں© ورنہ تم خود چلے جاﺅ یہ بعد میں آ جائیں گے اپنی اس مخصوص کیفیت کے بارے میں حضرت مولانا محمد الیاس ؒ نے فرمایا کہ مجھے مدینہ طیبہ میں قیام کے دوران تبلیغی کام کا حکم ملا اور ارشاد ہوا کہ ” ہم تم سے کام لیں گے“ مولانا نے فرمایا کہ میں اس ارشاد مبارک کے باعث بے چین ہو گیا میں سو چتا تھا کہ میں بہت کمزور ہوں کوئی کام کیسے کر سکوں گا آپ نے اس بے قراری کا ذکر ایک بزرگ عارف سے کیا تو انہوں نے فرما یا کہ اس میں پریشانی کی کیا بات ہے یہ تو نہیں کہا گیا کہ تم کام کروگے بلکہ یہ فرما یا گیا ہے کہ ہم تم سے کام لیں گے بس کام لینے والے خود تم سے کام لے لیں گے چنا نچہ مولانا محمد الیاسؒ 1345 ھ 13ربیع الاول کو واپس ہندو ستان پہنچے تو پوری قوت و تندہی سے تبلیغ کا کام شروع کر دیا جن بزرگو ں نے مولانا الیاس ؒ کو دیکھا ہے اور ان کے ساتھ دین کی تبلیغ کیلئے مارے مارے پھر ے ہیں وہ بتاتے ہیں کہ مولانا اپنے فکرو عمل کے اعتبار سے قرونِ اولیٰ کے مسلمانوں کی تصویر تھے وہ اپنے مقدس رب کا ذکر اس ذوق و شوق او ر محویت کے عالم میں کر تے تھے کہ ان کے پاس بیٹھنے والوں کو بھی رب ذوالجلا ل کے پاک نام کے ورد سننے کا ایسا مزہ آتا تھا جیسے کسی نے کانوں میں شہد ٹپکا دیا ہو۔ مولانا کے مکاتیب اور ملفو ظات سے امت کیلئے ان کی درد مندی ، یقین و اعتماد ، قوتِ ایمانی ، جمیعت اسلامی، دین کے فروغ کی فکر مندی ، دین کے صحیح فہم ، تعلق مع اﷲ او ردینی روح کے ادراک کا اندازہ ہوتاہے مولانا علیہ الرحمہ امت کے ہر فرد کو دین کے فروغ کیلئے جدوجہد کے میدان میں نکلنے کی دعوت دیتے تھے ان کے شام و سحر اسی بے قراری میں کٹتے تھے کہ کسی طرح دین دُنیا کے کونے کونے میں عام ہو جائے فرماتے تھے ” اپنی نمازیںپڑھنا، روزے رکھنا، اگرچہ اعلیٰ درجے کی عبادتیں ہیں لیکن یہ دین کی نصرت کے کام نہیں ہیں دین کی نصرت تو وہی ہے جس کو قرآن پاک اور اﷲ کے رسول ﷺ نے
نصرت بتلایا ہے ۔ او ر اسکا اصلی اور مقبول ترین طریقہ بھی یہی ہے جس کو آنحضرت نے رواج دیا اس وقت اس طریقے اور اس رواج کو تازہ کرنا ہی دین کی سب سے بڑی نصرت ہے اﷲ پاک ہم سب کو اس کی توفیق دے اﷲ تعالیٰ نے مولانا کی قربانیاں ایسی قبول فرمائیں کہ آج دنیا بھر میں تبلیغی جماعتوں کی نقل و حرکت جاری ہے ا س مبارک چلت پھرت کی وجہ سے دین کے باغ پر پھر بہار نو آ رہی ہے رائے ونڈ کا سالانہ تبلیغی اجتماع اسی بہار کا نظارہ ہے جو 1949ءسے ہر سال یہاں دیکھنے کو ملتا ہے، رائے ونڈ میں رب کریم کا باب کرم کھلا ہو ا ہے اور اس دست بخشش ہمارے دلوں کے کشکولوں کی راہ تک رہاہے آخری روز اجتماعی دعا مولانا زبیر الحسن کروائیں گے جس کے بعد حسب معمول اجتماعی نکاح بھی کروائے جائیں گے۔اس کے بعد مبلغین کی جماعتیں دین حق کیلئے کمر بستہ ہو کر دنیا کے کونے کونے میں نکل جائیں گی۔اور یہ سلسلہ ہمیشہ یونہی جاری و ساری رہے گا۔ اتنے زبردست جم غیر کے معمولات کو سنبھالنے کیلئے جہاں تبلیغی جماعت کے ہزاروں خادمین اپنی اپنی جگہ ڈیوٹی دے رہے ہیں وہاں سرکاری محکمہ جات بھی حسب سابق انتظامات کئے ہوئے ہیں۔ تبلیغی اجتماع میں محکمہ صحت کی طرف سے یہاں چھ فری ڈسپنسریوں، آٹھ بیڈ کا ایک منی ہسپتال،10ایمبولینس گاڑیاں اور 10سپیشل گاڑیوں کا انتظام کیا ہے جہاں 45ڈاکٹر ز اور 150پیرامیڈیکل سٹاف دن رات خدمات دیں گے، دفعہ عطائیوں کے خلاف بھر پور آپریشن کیے جائیں گے، یہاں ٹریفک اورسول پولیس کی بھاری نفری بھی موجود ہے، تبلیغی اجتماع پر مانگا ، چوہنگ، ستوکتلہ او رائے ونڈ کے علاوہ سپیشل ریزروفورسز کا انتظام بھی کیا گیا ہے، کسی بھی مذہبی جماعت کو اس دفعہ کوئی متنازعہ لٹریچر تقسیم نہیں کرنے دیا جائے گا، اعلیٰ پولیس افسران تینوں روز ہمہ وقت یہاں موجود ہوں گے، پاکستان ریلوے نے امسال تبلیغی بھائیوں کی سہولت کے پیش نظر خصوصی انتظامات ترتیب دئیے ہیں جن میں مسافروں کی سہولت کیلئے 14نئے ٹکٹ گھر قائم کئے جائیں گے، جن میں 60افراد پر مشتمل اضافی عملہ 24گھنٹے ڈیوٹی پر موجود ہو گا۔ پاکستان ریلوے نے سپیشل ٹرینیں تبلیغی مندوبین کے سفر کو آسان بنانے کیلئے مخصوص کی ہیں ان دنوں تمام ٹرینوں کا رائے ونڈ اسٹیشن پر سٹاپ ہو گا۔جبکہ اسٹیشن پر صفائی سمیت دیگر انتظامات بھی بہتر بنادئیے گئے ہیں، اور اجتماع ختم ہونے کے بعد تین دن تک ٹرینیں تبلیغی مندوبین کو واپس ان کے مقامات تک پہنچاتی رہیں گی۔لیسکو واپڈا نے ہر سال کی طرح اس بار بھی تبلیغی اجتماع کے موقع پر فول پروف انتظامات تشکیل دئیے ہیں جن میں اجتماع کے موقع پر دو گریڈوں سے سپلائی فراہم کی جائے گی جبکہ دو فیڈر سٹینڈ بائی رہیں گے ہنگامی صورتحال سے نپٹنے کیلئے ہیوی جنریٹر کی سہولت بھی میسر ہو گی۔ لیسکو واپڈا رائے ونڈ نے اجتماع گاہ کو جانے والے تمام راستوں پر سٹریٹ لائٹس بھی نصب کر دی ہیں، واپڈا کے کیمپ میں 20افراد کا عملہ 24گھنٹے موجود رہے گا اور توقع کی جاتی ہے کہ اجتماع کے دوران ایک لمحہ بھی بجلی بند نہیں ہو گی،محکمہ ٹی اینڈ ٹی کی جانب سے تبلیغی اجتماع کے موقع پر دو گورنمنٹ پی سی اور 40اضافی لائنوں کے علاوہ پرائیویٹ پے کارڈ کمپنیوں کیلئے 200لائنیں مخصوص کی ہیں،گورنمنٹ پبلک کال آفس پر 14انٹر نیشنل لائنیں ، 2انٹرنیشنل فیکس ، 24نیشنل ٹیلیفون بوتھ اور ٹیلی پرنٹر کی سہولت بھی فراہم کی گئی ہے۔ 70افراد پر مشتمل عملہ ہر وقت اپنی ڈیوٹی انجام دے گا، جنرل منیجر سنٹر ل ٹیلی کام ریجن کی ہدایت پر محکمہ امسال گزشتہ سال کی نسبت دوگنا سٹاف اور دوگنی سہولیات فراہم کر رہا ہے تاکہ تبلیغی بھائیوں کو اجتماع کے دوران کسی قسم کی مواصلاتی شکایت کا موقع نہ ملے،ضلعی انتظامیہ کے کیمپ میں پٹواری تحصیلداروں کے علاوہ ڈی سی او،اقبال ٹاﺅن اور سی او یونٹ رائیونڈ کا عملہ ہمہ وقت موجود ہوگا، اجتماع کے دنوں میں صفائی کے بھر پور انتظامات کئے جارہے ہیں اور شہر کو دلہن کی طرح سجادیا گیا ہے، اجتماع گاہ کو جانے والے تمام راستوں اور سڑکوں کی مرمت قبل ازیں کر دی گئی تھی،ممبران اسمبلی تبلیغی اجتماع کے دوران تبلیغی مندوبین کو تمام تر سہولیات کی فراہمی یقینی بنانے کیلئے تینوں دن اپنے عملہ کے ہمراہ یہاں موجود رہ کر انتظامی معاملات کی نگرانی کرتے رہیں گے۔
تمت بالخیر