سانحہ نو مئی کی دوسری برسی

May 09, 2025

اصغر علی شاد

امر اجالا
اصغر علی شاد
    یہ امر قابل ذکر ہے کہ دو برس قبل 9 مئی 2023 کو پاکستان کی تاریخ میں ایک ایسا دن رقم ہوا جس نے ریاستی اداروں، قومی یکجہتی اور سیاسی اقدار کو گہرے زخم دیے۔ اس روز پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے کارکنان کی جانب سے جو پرتشدد مظاہرے، املاک کی توڑ پھوڑ، اور حساس تنصیبات پر حملے کیے گئے، وہ کسی بھی جمہوری ملک میں ناقابل قبول اور ناقابلِ برداشت سمجھے جاتے ہیں۔ اب جبکہ ان واقعات کو دو سال مکمل ہو چکے ہیں، یہ ضروری ہے کہ ہم نہ صرف ان پر غور کریں بلکہ ان اسباب کا بھی تجزیہ کریں جنہوں نے اس غیر معمولی صورتحال کو جنم دیا۔یاد رہے کہ 9 مئی 2023 کو سابق وزیر اعظم عمران خان کی گرفتاری نے ملک بھر میں پی ٹی آئی کے کارکنوں کو سڑکوں پر لا کھڑا کیالیکن احتجاج صرف نعرہ بازی یا دھرنوں تک محدود نہیں رہا؛ اس دن جو کچھ ہوا، وہ ایک منظم توڑ پھوڑکی شکل اختیار کر گیا۔
    وا ضح ہو کہ لاہور میں کور کمانڈر ہاؤس (جناح ہاؤس) کو نذر آتش کیا گیا، راولپنڈی میں جی ایچ کیو کے دروازے پر ہجوم نے دھاوا بولا، اور مختلف شہروں میں فوجی یادگاروں، گاڑیوں اور سرکاری املاک کو نقصان پہنچایا گیا۔مبصرین کے مطابق  ان حملوں نے نہ صرف ریاستی رٹ کو چیلنج کیا بلکہ عالمی سطح پر پاکستان کی ساکھ کو بھی متاثر کیا۔9 مئی کے دن جو کچھ ہوا، وہ ایک سیاسی احتجاج سے زیادہ ایک منظم تخریبی مہم کی صورت میں نظر آیا۔ مبصرین کے مطابق  ریاستی ادارے، خصوصاً فوج، کو براہ راست نشانہ بنانا اس بات کا اشارہ تھا کہ یہ احتجاج محض جذباتی ردعمل نہیں تھا بلکہ بڑی حد تک ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کیا گیا۔ بعد ازاں حکومت نے ان واقعات کی تحقیقات کے لیے خصوصی کمیشن بنائے، سینکڑوں کارکنوں کو گرفتار کیا گیا، اور کئی رہنماؤں نے پارٹی سے علیحدگی اختیار کی۔یہ امر توجہ طلب ہے کہ عدالتوں نے بھی ان مقدمات کو سنجیدگی سے لیا، لیکن سیاسی تقسیم اور عدالتی فیصلوں میں تضاد نے اس معاملے کو مزید الجھا دیا۔ کچھ حلقوں نے ان گرفتاریوں کو سیاسی انتقام قرار دیا جبکہ دیگر نے اسے قانون کی بالادستی کا تقاضا سمجھا۔اس ضمن میں پی ٹی آئی نے ان واقعات کی ذمہ داری قبول کرنے کے بجائے خود کو ایک سیاسی مظلوم کے طور پر پیش کیا۔ عمران خان نے بارہا اس بات پر زور دیا کہ یہ سب کچھ ان کی گرفتاری کے خلاف عوامی ردعمل تھا اور پارٹی کی مرکزی قیادت کا اس میں کوئی ہاتھ نہیں۔ تاہم، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جو ویڈیوز، شواہد اور گرفتار شدگان کے بیانات سامنے آئے، ان سے یہ تاثر تقویت پاتا گیا کہ ہر سطح پر پارٹی کے اندر سے اس توڑ پھوڑ کو ہوا دی گئی۔سنجیدہ حلقوں کے مطابق اس تمام صورتحال میں میڈیا، خصوصاً سوشل میڈیا، نے ایک دو دھاری تلوار کا کردار ادا کیا۔ ایک طرف سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیوز نے عوامی شعور کو بیدار کیا اور لوگوں نے ان واقعات کی مذمت کی، تو دوسری طرف جعلی خبریں، غلط معلومات اور پروپیگنڈا نے صورتحال کو مزید ابتر بنایا۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر پی ٹی آئی کے حامیوں نے ان واقعات کو ''ریاستی سازش'' قرار دیا جبکہ مخالفین نے اسے ''غداری'' سے تعبیر کیا۔اب جبکہ 9 مئی 2025 کو ان واقعات کی دوسری برسی ہے، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم نے بطور قوم اس دن سے کوئی سبق سیکھا؟ کیا ان واقعات میں ملوث عناصر کو کٹہرے میں لایا گیا؟ کیا سیاسی جماعتوں نے آئندہ کے لیے کسی ضابطہ اخلاق پر اتفاق کیا؟بدقسمتی سے، ان سوالات کا جواب مکمل طور پر تسلی بخش نہیں۔اس ضمن میں حکومت نے کچھ اقدامات ضرور کیے، لیکن سیاسی مفاہمت کی عدم موجودگی اور عدالتی پیچیدگیوں نے انصاف کے عمل کو سست کر دیا۔ دوسری جانب پی ٹی آئی آج بھی خود کو مظلوم کہتی ہے، اور ایک بڑی تعداد ایسی بھی ہے جو ان واقعات کو ''ریاست کے خلاف سازش'' کے بجائے ''سیاسی ردعمل'' سمجھتی ہے۔صورتحال کا جائزہ لیتے ہوئے مبصرین کا کہنا ہے کہ  آئندہ کے لیے کوئی قومی ضابطہ اخلاق نہ بنایا، تو ممکن ہے کہ یہ زخم وقت کے ساتھ ناسور بن جائیں۔ضروری ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں، بشمول پی ٹی آئی، یہ تسلیم کریں کہ جمہوریت صرف انتخابات جیتنے کا نام نہیں بلکہ جمہوری اقدار، آئینی حدود اور ریاستی اداروں کے احترام کا نام ہے۔ عوام کو بھی چاہیے کہ وہ احتجاج اور توڑ پھوڑ میں فرق کریں اور ریاستی املاک کی حفاظت کو اپنا فرض سمجھیں۔9 مئی 2023 کا دن ایک المیہ تھا جس نے پاکستان کی سیاسی تاریخ کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ آج، اس واقعے کی دوسری برسی کے موقع پر ہمیں صرف ایک دوسرے پر الزام تراشی کے بجائے اجتماعی بصیرت، قانون کی بالادستی، اور قومی یکجہتی کا مظاہرہ کرنا ہوگا کیوں کہ اگر ہم نے ان واقعات سے سبق نہ سیکھا، تو تاریخ ہمیں معاف نہیں کرے گی۔

مزیدخبریں