
مطلوب احمد وڑائچ
matloobwarraich@yahoo.com
اتحادی حکومت کے مطابق آج پاکستان ایک بار پھر دہشت گردی کی دلدل میں پھنسا ہوا ہے۔ اس قدر دہشت گردی کا شکار ہے کہ انتخابات کا انعقاد بھی ممکن نہیں اور پھر معاشی حالت اس قدر دگرگوں ہے کہ الیکشن کرانے کے لیے 21ارب روپے بھی جاری نہیں کیے جا سکتے۔ دہشت گردی کے کل کے واقعات میں شمالی وزیرستان میں جھڑپ کے دوران 6جوان شہید ہو گئے۔ پارا چنار میں دہشت گردوں نے سکول پر حملہ کرکے 8اساتذہ کو قتل کر دیا۔ دہشت گردی اور معاشی بدحالی کی اس فضا میں حکومت کو سٹیک ہولڈرز کے ساتھ سرجوڑ کر بیٹھنا چاہیے تھا۔ ایک ایک پائی کو بھی بچانے کی ضرورت ہے۔ مگر ہوا کیا کہ وزیراعظم شہبازشریف خصوصی طیارے کے ذریعے شاہ چارلس کی تاجپوشی کی رسم میں شرکت کے لیے لندن چلے گئے۔ اس تقریب کے انعقاد سے تین روز قبل گئے۔ واپسی کب ہوئی،اس دوران طیارے کے پارکنگ کی مد میں دس لاکھ روپے روزانہ کرایا ادا کیا گیا۔ تاجپوشی میں دولت مشترکہ کا رکن ہونے کے ناطے شرکت ضروری تھی تو وہاں موجود ہائی کمشنر شریک ہو کر پوری کر سکتا تھا۔
ادھر وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں شرکت کے لیے خصوصی طیارے میں بھارت گئے۔ ان کے وفد میں صحافیوں اور وزارت خارجہ کے حکام کو بھی لے جایا گیا۔ وزارت خارجہ کے اجلاس سے چار روز قبل شنگھائی تعاون تنظیم کے وزرائے دفاع کا اجلاس دہلی میں ہوا۔ خواجہ صاحب نے اس اجلاس میں آن لائن شرکت کی۔ بلاول نے گوا میں وزرائے خارجہ کے اجلاس میں شرکت کی۔ بلاول کا وہاں جانا بنتا ہی نہیں۔ 2016ئ میں بھارت نے سارک کانفرنس میں اس لیے شرکت سے انکار کر دیا تھا کہ وہ پاکستان میں ہو رہی تھی۔ ان دنوں نوازشریف وزیراعظم تھے اور وہ بھارت کے ساتھ تعلقات کی نئی جہتیں تلاش کر رہے تھے۔ اور پھر 5اگست 2019ئ کو بھارت نے مقبوضہ کشمیر کاجغرافیہ بھی اپنے آئین میں بدل دیا جس پر حکومت نے بھارت کے ساتھ تمام تعلقات اور رابطے وہ قانون واپس لینے اور کشمیر کا سٹیٹس بحال کرنے تک ختم کر دیئے تھے۔ اس کے باوجود وزیرخارجہ بھارت جانے پر مصر ہوگئے۔ بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر نے بلاول کی بھارت آمد کی خبر سامنے آنے کے بعد کہہ دیا تھا کہ دہشت گردی سے متاثر ہونے والے دہشتگردی کرانے والوں کے ساتھ نہیں بیٹھ سکتے۔ جے شنکر کا یہ بیان لغو اور بہتان ہے اس کے پیش نظر بھی دورہ کا جواز نہیں بنتا تھا۔ اور پھر بھارتی میڈیا نے خبر دی کہ بلاول کی جے شنکر اور مودی سے ملاقات کی درخواست کو بھارت نے مسترد کر دیا تھا۔ یہ درخواست شاید کی ہی نہیں گئی تھی مگر بھارت کی طرف سے ایسی باتیں کی گئیں تو بھی بلاول کا بھارت چلے جانا ایسا تاثر قائم کرتا ہے کہ ہمیں عزت بے عزتی کی پروا نہیں ہے۔ بھارت جاتے ہوئے بلاول ساتھ صحافیوں اور وزرات خارجہ کے وفد کو بھی لے گئے۔ میڈیا کے درجن بھر لوگوں کو ساتھ لے جانا چہ معنی دارد؟ کیا اپنی پروموشن چاہیے تھی۔
حیران کن امر ہے کہ پہلے روز خبر جاری کرا دی گئی کہ بلاول نے جے شنکر سے مصافحہ کیا، ملاقات بھی ہو گئی۔ اگلے روز بتایا گیا کہ مصافحہ نہیں ہوا بس دور سے نمستے نمستے کیا گیا۔ بلاول سے پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ جے شنکر سب سے ایسے ہی ملے تھے۔ وہاں جو سلوک بلاول سے ہوا اس کے پیش نظر کہا جا سکتا ہے کہ یہ ’’ترلا دورہ‘‘ تھا۔ کس کی طرف سے ذوالفقار علی بھٹو کی سیاسی وراثت کے دعویدار کی طرف سے۔ کہاں ذوالفقار علی بھٹو ،کہاں بلاول۔ چہ نسبت را۔۔۔ بھٹو نے قومی غیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اقوام متحدہ میں پولینڈ کی قرارداد پھاڑ دی تھی۔ ایوب خان نے بھارتی وزیراعظم شاستری کے ساتھ سمجھوتہ کیا تو اقتدار کو لات مار دی۔ پاکستان کے خلاف توہین آمیزبات کرنے پر بھارتی ہم منصب سورن سنگھ پر کرسی اٹھا لی تھی۔
بھارت کا شنگھائی کانفرنس سے پہلے جو معاندانہ رویہ سامنے آ چکا تھا اس پر تو حناربانی کھر کا بھی وہاں جانا نہیں بنتا تھا۔ بس ورچوئل شرکت ہوتی۔ بلاول کو سیاست میں کچھ لوگ نابالغ کہتے ہیں، کچھ کی نظر میں وہ وزارتِ عظمی کے انٹرنی ہیں مگر فیصلے بڑے بڑے کرنے کا اختیار دے رکھا ہے۔ روس جہاں انہیں خود جانا چاہیے تھا وہاں حنا ربانی کھر کو بھیج کر خود امریکہ چلے گئے اور اب جہاں پاکستان کو جانا ہی نہیں چاہیے تھا وہاں جا موجود ہوئے۔ وہاں جا کر کہتے ہیں مقبوضہ کشمیر کی حیثیت بحال ہونے تک بھارت سے بات نہیں ہو سکتی۔ باتیں کرتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ بات نہیں ہو سکتی۔2019ئ میں وزارت خارجہ کی طرف سے کشمیر کی حیثیت کی بحالی سے متعلق ایک مضبوط موقف اختیار کیا گیا۔ بھارت جا کر اس موقف کا بھی بیڑا غرق کر دیا گیاہے۔
قارئین! ہمارے سماج میں کسی بھی خاندان کی نسل کا چلنا باپ کے خاندان کی طرف سے شروع ہوتا جب کہ بلاول صاحب اپنے نانا قائدعوام ذوالفقار علی بھٹو شہید کا حسب و نسب استعمال کرتے ہیں مگر کام اْن کے سارے ہی ننھیال کی طرف سے ملنے والی فطرت سے مطابقت رکھتے ہیں اوربلاول زرداری کے داداحاکم علی زرداری وہ شخص ہیں جنہیں شہید ذوالفقار علی بھٹو نے ایک بہت بڑے مجمع میں بدزبانی پر تھپڑ رسید کیا تھا اور اس تھپڑ کی گونج آج تک زرداری خاندان اپنے ساتھ لے کر چل رہا ہے۔ یاد رہے اس واقعہ کے بعد حاکم علی زرداری (مرحوم) نے جو کہ نواب شاہ سے ایک حلقہ کے لیے صوبائی اسمبلی کے امیداوار تھے ،نے اپنی بقیہ ساری زندگی ذوالفقار علی بھٹو اورپیپلزپارٹی کو نقصان پہنچانے کی تگ و دو میں گزاری۔ اور پھر جب ایک حادثاتی صورت میں جب بھٹو خاندان ابتلا?ں میں گِرا ہوا تھا تو محترمہ نصرت بھٹو (مرحومہ) نے محترمہ شہید بے نظیر بھٹو کی شادی کچھ خاندانی دوستوں کی مشاورت سے اْسی حاکم علی زرداری کے بیٹے آصف علی زرداری سے طے کر دی تھی جو کہ اس وقت ایک ینگ کریمینل کے نام سے کراچی اور نواب شاہ میں شہرت پا چکے تھے۔اور پھر اس زرداری خاندان نے بھٹو خاندان اور پاکستان کے مقدر پر تھپڑوں کی نہ رْکے والی بارش شروع کر دی۔۔قارئین ہمارا یہاں مقصد کسی کی ذاتی دل آزاری نہیں مگر پاکستان کے مقدر سے کھیلنے والوں کو تنبیہ کرنا مقصود ہے۔