پیر، 7 شوال 1443ھ‘ 9 مئی 2022ء

ماؤں سے محبت کا عالمی دن منایا گیا
بھلا ماؤں سے محبت کے لئے بھی کوئی خاص دن ہوتا ہے۔ ماں کی محبت تو اولاد کے خون میں اس طرح رچی بسی ہوتی ہے جس طرح ماں کا دودھ بچے کے رگ وپے میں رچا بسا ہوتا ہے۔ ماؤں سے محبت تو وہ نورانی ہالہ ہے جو پیدائش سے موت تک ماں کی دعاؤں کی بدولت ہر انسان خواہ عورت ہو یا مرد کے گرد حصار بن کر رہتا ہے۔ یہی وجہ ہے بہت سی آفات و بلیات۔ برا وقت اور بری مصیبت سے انسان محفوظ رہتا ہے۔ ایسی دعائیں کرنے والی ہستی جس کے قدموں تلے جنت کا مژدہ ہمارے نبیؐ رحمت نے دیا ہے۔ اس کی محبت کے لئے تو ساری زندگی کم ہوتی ہے۔ ایک دن میں بھلا اس کی محبت کا قرض کیسے ادا ہو سکتا ہے۔ ایک دن تو بہت تھوڑا ہوتا ہے۔ ساری زندگی بھی اگر اولاد اپنی والدہ کی خدمت کرے اسے کاندھے پر بٹھا کر حج کرائے۔ ساری دنیا کی دولت اور نعمتیں اس کے قدموں میں نچھاور کر دے تب بھی وہ اپنی ماں کی ایک رات کی خدمت کا معاوضہ ادا نہیں کر پاتے۔ مغرب میں والدین اور اولادکے درمیان جدید طرز زندگی اور لائف سٹائل نے بہت فاصلے پیدا کر رہے ہیں۔ بچے بے بی ڈے کیئر میں اپنا بچپن اور بوڑھے اولڈ ہومز میں اپنا بڑھاپا بسر کرتے ہیں۔ دنیاوی معاملات اولاد اور والدین کے درمیان حائل ہونے سے وہاں ماں بیٹے کا رشتہ بھی تقریباً ختم ہوگیا ہے۔ اس لئے وہاں سال میں ایک دن ماں سے محبت ایک دن باپ سے محبت کے لئے مختص کئے گئے ہیں۔ شکر ہے ابھی تک ہمارے ہاں ایسا نہیں ہے۔ گرچہ کچھ بدبخت لوگ والدین کی قدر نہیں کرتے انہیں تنگ کرتے ہیں۔ خون کے آنسو رلاتے ہیں۔ مگر آج بھی زیادہ تر اولاد ماں کے ہاتھوں پکی روٹی اور سر پر پڑنے والی جوتی کا مزہ لیتی ہے۔ خدا ان ہاتھوں کو تادیر سلامت رکھے جو کھلانے پلانے اور دعا کے لئے اٹھے رہتے ہیں…
٭٭٭…٭٭٭
فیس بک یا ٹویٹر پر میرا کوئی اکاؤنٹ نہیں، جسٹس (ر) آصف کھوسہ
اب کیا کہیں سوشل میڈیا پر بے لگام ہونے والے ان عناصر کو جو مختلف شخصیات کے نام سے فیک اکاؤنٹ بنا کر ان کی طرف سے الٹے سیدھے غلط سلط بیانات وائرل کر دیتے ہیں۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ جن کے نام سے کوئی پیغام یا میسج یا تبصرہ ٹویٹ کیا جاتا ہے۔ اس کی خبر خود ان لوگوں کو ہوتی ہی نہیں جن کے نام سے یہ کچھ کیا جا رہا ہوتا ہے۔ اس ضمن میںبعض سیاسی جماعتوں کی سوشل میڈیا کے شتر بے مہار قسم کے متحرک جوان بہت زیادہ پھرتیاں دکھاتے ہیں۔ جس کے نتیجے میں کئی شخصیات نے ان بے ہودہ فیک اکاؤنٹس سے لاتعلقی کا اظہار کیا ہے۔ پہلے جسٹس (ر) ناصرہ جاوید اقبال نے پھر اب گزشتہ روز جسٹس (ر) آصف کھوسہ نے اپنے حوالے سے بنائے گئے سوشل میڈیا پر فیس بک یا ٹوئٹر اکاؤنٹس سے لاتعلقی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ میرا تو کوئی اکاؤنٹ نہیں۔ بات کسی ایک کی ہو تو صبر آئے یہاں تو آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔ مخالفین کو زچ کرنے کیلئے فیک اکاؤنٹ بنا کر ان پر تبرا کیا جاتا ہے۔ یہاں کان کوئی نہیں دیکھتا سب کوے کے پیچھے دوڑ پڑتے ہیں۔ پورے ملک میں ’’ کوا کان لے اڑا‘‘ والی کیفیت طاری ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے اس بے لگام سوشل میڈیا کو جھوٹے اور بے ہودہ الزام تراشی والے رویئے سے روکا جائے۔ ایسے لوگوں کو سزا دی جائے جو دوسروں کے نام سے جھوٹے اکاؤنٹ بنا کر بے بنیاد پراپیگنڈہ کرتے ہیں۔ کئی لوگ تو اس گند میں الجھنے کی بجائے خاموشی کو ہی بہتر سمجھتے ہیں اور جواب تک نہیں دیتے۔ حالانکہ انہیں بھی خاموشی توڑتے ہوئے اپنی برِأت کا اظہارکرنا چاہئے…
٭٭٭…٭٭٭
ایبٹ آباد ٹک ٹاک کیلئے جنگل کو آگ لگانے والا گرفتار
دنیا بھر میں ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے جنگلات میں آگ لگنے کے واقعات تو معلوم ہوتے رہتے ہیں۔ مگر خود اپنے ہاتھوں سے جنگل کو جلانا پرلے درجے کی حماقت نہیں مجرمانہ فعل ہے۔ وہ بھی اپنے ایک شوق کی خاطر۔ پہلے کیا ٹک ٹاک نے کم تباہی مچائی ہے کہ لوگ جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ ڈوب کر جل کر ٹرین تلے یا گاڑی تلے آ کر پہاڑ سے گرکر مر رہے ہیں۔ مگر ٹک ٹاک کا شوق ماند نہیں پڑ رہا۔ نوجوانوں کی بڑی تعداد اس مرض میں مبتلا ہے۔ مگر اس شخص کا کیا کیا جائے جس نے اپنے شوق کی خاطر ٹک ٹاک بنانے کے جنون میں جنگل میں آگ لگا کر قیمتی درختوں کو جلا کر راکھ کر دیا اور اپنی ویڈیو بناتا رہا۔ تف ہے ایسی عقل پر۔ پہلے ہی ہمارے ملک میں جنگلات کی کمی ہے۔ حکومت کروڑوں درخت لگا کر ملک کو سرسبز بنانے کے مشن پر ہے اور یہ بدبخت ٹک ٹاکر درختوں کو جلا کر مطمئن بیٹھا ہے۔ اب اگر یہ صاحب حیثیت لوگ ہیں تو ان سے تباہ ہونے والے درختوں کا معاوضہ لیا جائے۔ تاکہ آئندہ اس کے خاندان میں کسی کو جنگل جلانے کی ہمت نہ ہو۔ ورنہ قانون کے مطابق سزا تو ملنی چاہئے۔ ایسے لوگ کسی رعایت کے مستحق نہیں۔ اگر اسے بھڑکتے شعلوں سے اتنی ہی محبت تھی تو اپنا گھر جلا کر مزہ لیتا پھر دیکھتا کہ اس کے گھر والے اسے بھی گھر سمیت نذر آتش کر دیتے…
٭٭٭…٭٭٭
راجہ ریاض کے بیٹے کی شادی میں حمزہ شہباز کی شرکت
سیانے کہتے ہیں انسان کو جو مٹی کا پتلا ہے بڑے بول بولتے ہوئے بہت زیادہ احتیاط کرنی چاہئے۔ کیونکہ وقت بڑا ظالم ہے۔ یکساں نہیں رہتا۔ پل بھر میں لوگ بدل جاتے ہیں۔ رشتے بدل جاتے ہیں۔ دوست دشمن بن کر تلوار اور دشمن دوست بن کر گلے کا ہار بن جاتے ہیں۔ اس لئے تکبر اور بڑائی کا روگ پالنے سے گریز ہی بہتر ہے۔ ابھی ایک دو ماہ قبل سابق وزیراعظم نے بڑے کروفر سے کہا تھا کہ پی ٹی آئی سے منحرف ہونے والوں کے لئے زندگی مشکل ہو جائے گی۔ ان کے بچوں کو کوئی رشتہ نہیں دے گا۔ یہ جملے کہتے ہوئے انہیں رتی بھر بھی عاجزی کا خیال نہیں آیا۔ یہ متکبرانہ انداز والا بیانیہ انہوں نے تاحال اپنایا ہوا ہے۔ وہ اپنی ذات کے سحر میں یا نرگسیت میں اتنے مدھوش ہیں کہ انہیں اپنے علاوہ کوئی اور نظر ہی نہیں آتا۔ تاہم بقول مخالفین ۔ فرح کے حوالے سے انہوں نے انکے دفاع میں ضرور بولا ہے ورنہ ہر وقت ’’میں‘‘ کی گردان سے وہ باہر نہیں نکلے۔ اب گزشتہ روز پی ٹی آئی کے منحرف ارکان میں سے ایک متحرک رکن راجہ ریاض کے بیٹے راجہ جگنو کا ناصرف رشتہ ہوگیا بلکہ شادی کی تقریبات بھی ہوئیں اور ولیمہ میں وزیراعلیٰ حمزہ شہباز سمیت متعدد صوبائی و وفاقی وزراء نے بھی شرکت کی۔ اس طرح کم از کم لوگوں نے دکھا دیا کہ بڑے بول بولنے سے کچھ نہیں ہوتا۔ ہم سب ایک سماج ایک معاشرے میں رہتے ہیں۔ جہاں دوستیاں بھی ہیں اور دشمنیاں بھی یہ ساتھ ساتھ چلتی ہیں۔ رشتے ناطے کسی کے کہنے پر نہ طے ہوتے ہیں نہ ٹوٹتے ہیں۔ سب کے جوڑے اوپر والے نے پہلے سے بنا کر رکھے ہیں کوئی اس میں رکاوٹ نہیں ڈال سکتا۔