زیر زمین زہریلا پانی‘ ڈسپنسری کی اشد ضرورت
تحصیل جتوئی کا موضع بھنڈی کورائی ایک ایسا علاقہ ہے جہاں کورائی قوم اکثریت میں رہتی ہے ۔الیکشن کے موقع پر دیگر اقوام نمڑدی،گھلو،لسکانی،بدھ،سکھانی اور متھمہ کے لوگ بھی کورائی قوم کے ساتھ مل کر اتحاد بنا لیتے ہیں جو رحمت اللہ خان کورائی کی قیادت میں پچھلے پچیس سال سے ایک ہی امیدوار کو ووٹ ڈال رہے ہیں ۔نصف صدی پر مشتمل اس اتحاد کی وجہ سے بھنڈی کورائی کا الیکشن نتیجہ مثالی ہوتا ہے جہاں دو ہزار ووٹ کے مقابلے میں مخالف امیدوار بمشکل پانچ سے دس ووٹ ہی حاصل کرتا ہے بھنڈی کورائی کے لوگ ہمیشہ بخاری گروپ کے وفادار رہے ہیں اور بخاری گروپ کے لیڈروں نے بھی پیر عبداللہ شاہ مرحوم کی قیادت میں ہر موقع پر بھنڈی کورائی کو ترجیح دی لیکن پیر عبداللہ شاہ کی وفات کے بعد ان کے جانشینوں نے بھنڈی کورائی کو اپنی ترجیحی لسٹ سے نکال دیا اور ہر مسئلے پر فنڈ کی کمی اور حلقہ کے دوسو مواضعات کارونا رونے لگے ۔اکیسویں صدی کے ترقی یافتہ دور میں بھی بھنڈی کورائی کی بستی بدھ، بستی ثنااللہ لسکانی ،بستی سونا خان کورائی اور بستی ابراہیم خان کورائی بجلی سے محروم ہیں ۔ باقی علاقہ جہاں پر بجلی کے کھمبے لگے ہوئے ہیںاس میں سے 70%علاقہ کی بجلی ،بجلی چوری کا بہانہ بنا کر پچھلے پانچ مہینے سے کاٹ دی گئی ہے اور میٹروں والے بھی اس گرمی اور مچھروں کے موسم میں ساری رات تڑپتے رہتے ہیں جبکہ صاحب اقتدار ان کی بات سننے کوتیار نہیں۔پچھلی نصف صدی میں آبادی بڑھنے کیساتھ گھروں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوگیا لیکن بھنڈی کورائی کی کسی ایک بستی میں بھی اضافی کھمبا نہیں لگایا گیا ۔ بستی سونا خان کورائی کے لوگوں نے بتایا کہ ہر الیکشن کے موقع پر سروے والوں کو بلا کر بجلی دینے کا لالی پاپ دے کر ووٹ لے جاتے ہیں اور پھر پانچ سال تک کوئی ہماری بات نہیں سنتا ۔بھنڈی کورائی روڈ سے دو دو کلو میٹر کے فاصلے پر محیط بستی قبول خان نمڑدی ،بستی بدھ متھمہ اور بستی ابراہیم خا ن کورائی کی طرف جانے والے راستے ابھی تک کچے ہیں اور کسی شادی اور غمی کے موقع پر اگر ہلکی سی بارش ہو جائے تو وہاں تک پہنچنا ناممکن ہے ۔بستی ابراہیم خان کورائی کی طرف جانے والا راستہ سیم زدہ علاقہ سے گزرتا ہے جو منجی کی فصل کاشت ہوتے ہی تین مہینے کیلئے بند ہو جاتا ہے اور لوگوں کو آنے جانے اور سودا سلف لانے کے لئے پانی والے کھال کی سائیڈ پر اگی جھاڑیوں میں سے پیدل گزر کر جانا پڑتا ہے ۔بھنڈی کورائی سے منسلک جنگل رکھ چھینہ ملانہ جو مویشی پال غریبوں کے لئے چراگاہ کا کام دیتا تھا اور بھنڈی کورائی کے لوگ اپنے گھروں میں جلانے کے لئے لکڑیاں چن کر گھروں کے چولہے جلایا کرتے تھے اب ویرانی کا منظر پیش کر رہا ہے ۔سرکاری افسر سیاسی لوگوں کی آشیرباد سے پورا جنگل ہی ہڑپ کر گئے اور اس وقت پورے جنگل میں ایک بھی درخت نہیں ہے جہاں پرکوئی جانور یا چرواہا ایک منٹ سستانے کے لئے بیٹھ جائے ۔ بھنڈی کورائی میں پانی چوری کا مسئلہ اتنا سنگین ہے جہاں پر 7'انچ کا موگہ منظور شدہ ہے وہاں پرہر مربع لین میں مقامی زمینداروں نے 20"20" انچ کے موگے ڈالے ہوئے ہیں جس کی وجہ سے زمینیں سیم زدہ ہو رہی ھیں اورسوائے منجی کے کسی دوسری فصل کے قابل نہیں رہیں ۔ گرمیوں کے موسم میں تمام کچے راستے پانی سے بھرے ہوتے ہیں اور محکمہ انہار کے لوگ منجی کی بوریاں لے کر خاموش رہتے ہیں اور ٹیل کے لوگوں کی حق تلفی علاوہ ہوتی ہے ۔ موضع بھنڈی کورائی میں سرکاری ہسپتال کے نام پر مختص کئی کنال زمین موجود ہے لیکن پچھلے پچیس سالہ اقتدار میں ہسپتال تو کجا ایک ڈسپنسری تک نہیں بن سکی ۔ سیم وتھور کی وجہ سے زیر زمین پانی زہریلا ہوتا جارہا ھے ۔ سینکڑوں لوگ ہییپاٹائٹس اور گردوں کے امراض میں مبتلا ہورہے ہیںہر سال بھنڈی کورائی میںان بیماریوں کی وجہ سے درجنوں اموات ہو جاتی ہیں لیکن ہزاروں کی آبادی والے اس علاقہ میں ایک بھی واٹر فلٹریشن پلانٹ موجود نہیں ہے جبکہ لوگوں میں چہ مگوئیاں ہیں کہ سرکاری کاغذوں میں ق لیگ کے دور سے بھنڈی کورائی کی جامع مسجد کے قریب واٹر فلٹریشن پلانٹ چل رہا ہے جبکہ موقع پر اس کے کچھ آثارموجود نہیں ۔ بستی نمڑدی کے قریب گزرنے والی سونی نہر پر پل نہیں ہے بستی کے لوگوں کو اپنی فصلوں کی دیکھ بھال اور جانوروں کے چارہ کے حصول کے لئے نہر کی دوسری طرف جانا پڑتا ہے اور پل کئی کلومیٹر دور ہے ۔پہلے تو عورتیں مرد نہر میں تیر کر دوسری طرف جاتے آتے اور اپنی فصلوں کی دیکھ بھال کرتے لیکن اب نہر کے کنارے پختہ ہونے سے تیر کر دوسری طرف سے نکلنا تقریبا ناممکن ہو چکا ہے۔