میاں نوازشریف کی عدم برداشت اور مذہبی انتہاءپسندی پر تشویش اور عدالتی نظام سمیت پورے سسٹم کی اصلاح کا تقاضا
مسلم لیگ (ن) کے قائد اور سابق وزیراعظم میاں نوازشریف نے کہا ہے کہ ہمیں ججز کی تعیناتی کا طریقہ کار درست کرنا ہوگا‘ سپریم جوڈیشل کونسل کا طریقہ کار بھی بدلنا ہوگا۔ جب لوگوں کو ہزار ہزار کے نوٹ بانٹو گے تو یہی ہوگا۔ قوم جاننا چاہتی ہے کہ ہزار ہزار روپیہ کیوں دیا گیا۔ قوم اس ملک کی مالک ہے‘ مزارعہ نہیں۔ گزشتہ روز اسلام آباد میں احتساب عدالت کے روبرو پیشی کے موقع پر میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ انتخابات کسی صورت ملتوی نہیں ہونے چاہئیں اور نہ ہم ہونے دینگے۔ انکے بقول وزیر داخلہ پر حملہ معمولی بات نہیں‘ یہاں تک نوبت پہنچنا تشویشناک ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس ملک میں احتساب صرف سیاست دانوں کا ہوتا ہے۔ ہم الیکشن میں کامیابی کے بعد نیا نظام ضرور لائیں گے۔ ہمارے لوگوں کو توڑنے کیلئے اپروچ کیا گیا مگر ڈرانے دھمکانے اور نیب میں کیسز چلانے کے باوجود مخلص لوگوں نے وفاداریاں نہیں بدلیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ ملک ہم سب کا ہے‘ اب بہت ہوچکا‘ ہم 70 سال سے مزارع رہے۔ اب ملک سنوارنا چاہیے۔ عوام کو احساس ہوچکا ہے کہ وہ مزارع نہیں‘ مالک ہیں۔ اب فیصلہ بھی قوم کا ہوگا۔ سپریم کورٹ کے 28 جولائی کے فیصلہ کو عوام نے مسترد کر دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ احتساب کا عمل اب سب کے گرد چلے گا۔ کیس کا فیصلہ ہونے دیں پھر نیب کا قانون دیکھیں گے۔ انکے بقول جنہوں نے لوٹ مار کی وہ آرام سے سو رہے ہیں اور روز میرے متعلق خبر آتی ہے کہ اڈیالہ جیل کی صفائیاں ہورہی ہیں۔ یہ سب کچھ یکطرفہ چل رہا ہے جبکہ آج معاملات کا یکطرفہ چلنے والا زمانہ نہیں ہے۔
جب ہم سسٹم کی اصلاح کی بات کرتے ہیں تو اس سے صرف انتخابی نظام میں اصلاح نہیں بلکہ عدلیہ سمیت پورے ادارہ جاتی نظام کی اصلاح مقصود ہوتی ہے۔ بے شک آج سیاسی نعرے کے طور پر سسٹم کی اصلاح کی بات کی جارہی ہے تاہم ملک اور معاشرے میں جتنی خرابیاں جنم لے چکی ہیں اور گھمبیر صورت اختیار کرچکی ہیں اسکے پیش نظر سسٹم کی اصلاح کیلئے آج عملیت پسندی کی زیادہ ضرورت ہے۔ یہاں انقلاب اور تبدیلی کی باتیں جرنیلی آمر مشرف کے دور میں شروع ہوئیں جو خود ”سب سے پہلے پاکستان“ کو ماٹو بنا کر اپنے غیرآئینی اقتدار کا جواز پیش کرنے کی کوشش کرتے رہے۔ انہوں نے ”پہلے احتساب پھر انتخاب“ کے سیاسی ہیرپھیر کے تحت اپنے ماورائے آئین اقتدار میں جمہوریت کا پیوند لگا کر آمرمطلق کی حیثیت سے 9 سال تو گزار لئے مگر انکے دور میں ملک اور عوام کا مقدر سنورنے کے بجائے مزید تاریک ہوگیا جبکہ ایٹمی پاکستان کیلئے قومی ہزیمتوں کا اہتمام بھی ”سب سے پہلے پاکستان“ کے ماٹو کے تحت مشرف ہی کے دور میں ہوا۔ انکے بعد پیپلزپارٹی اقتدار میں آئی جس کا طرہ¿ امتیاز بے نظیر بھٹو کا خون بن گیا تھا مگر پارٹی قیادت نے اپنے اقتدار کو محفوظ رکھنے کی خاطر اس طرہ¿ امتیاز کو اپنی مفاہمتوں کی سیاست کی نذر کر دیا۔ اسکے باوجود سسٹم کو بے دست و پا بنائے رکھنے کیلئے ڈاکٹر طاہرالقادری اور عمران خان کی شکل میں پیپلزپارٹی کے اقتدار کیلئے دو ڈراوے کھڑے کردیئے گئے جنہوں نے انقلاب اور تبدیلی کے نعروں کے ماتحت سسٹم کو لرزائے رکھنے کیلئے کٹھ پتلیوں کا کردار ادا کیا اور حکمران پیپلزپارٹی کی جانب سے تابعداری کی یقین دہانی پر یہ ڈراوے اسکے راستے سے ہٹائے گئے۔ ان میں طاہرالقادری محض وقتی مقاصد کے تحت بوقت ضرورت کام آتے رہتے ہیں تاہم عمران خان کے دل میں مقبول عوامی لیڈر والا زعم پیدا ہوگیا جنہیں 2013ءکے انتخابات میں قومی اور دو صوبائی اسمبلیوں میں معقول نشستیں بھی حاصل ہوگئیں تو انہوں نے تبدیلی کے نعرے کو اپنی سیاست کی بنیاد بنالیا۔ انہیں خیبر پی کے میں جماعت اسلامی کے ساتھ مل کر مخلوط حکومت تشکیل دینے کا بھی موقع مل گیا مگر جس انقلابی تبدیلی کے خواب وہ عوام کو دکھایا کرتے ہیں‘ خیبر پی کے کے عوام انکی حکومت کے باوجود تبدیلی کے اس تصور سے محروم رہے۔
میاں نوازشریف کا سیاسی ماضی اگرچہ کچھ اتنا تابناک نہیں ہے اور وہ ”سٹیٹس کو“ والی سیاست کا حصہ بنے رہے ہیں تاہم جب انکے پہلے اقتدار کو غلام اسحاق خان کے اسمبلی کے ودیعت کردہ صوابدیدی اختیار اور دوسرے دور اقتدار کو مشرف کے ماورائے آئین اقدام والے جھٹکے لگے تو انہوں نے حقیقی معنوں میں سسٹم کی اصلاح کا بیڑہ اٹھالیا۔ انہوں نے اپنے گزشتہ دونوں ادوار اقتدار میں ملک کی عسکری قیادتوں کو آئین میں ودیعت کئے گئے انکے اختیارات کے دائرے میں رکھنے کی کوشش کی اور اسکی سزا اپنے اقتدار کیخلاف ماورائے آئین اقدام اور پھر اس اقدام والوں کے ہاتھوں قید اور جلاوطنی کی صورت میں بھگتی۔ یقیناً اسی پس منظر میں انکے دل میں حقیقی معنوں میں سسٹم کی اصلاح کی جوت جاگی اور انہوں نے تیسری بار اقتدار میں آنے کے بعد ماورائے آئین اقدام والوں کو عبرت کی مثال بنانے کا بیڑہ اٹھایا جس کے تحت انہوں نے مشرف کے 3 نومبر 2007ءکے پی سی او اور ایمرجنسی کے نفاذ کے اٹھائے گئے ماورائے آئین اقدام کی بنیاد پر ان کیخلاف اپنی حکومت کی جانب سے آئین کی دفعہ 6 کے تحت ریفرنس سپریم کورٹ میں بھجوایا۔ تاہم سسٹم میں پیدا شدہ بگاڑ کے باعث ہی مشرف کو قانون کے شکنجے اور انصاف کی عملداری میں لانے سے بچالیا گیا اور سسٹم کی حقیقی اصلاح کیلئے تردد کرنیوالے میاں نوازشریف کو قانون کی جکڑ بندیوں میں لاکر انصاف کی عملداری میں الجھا دیا گیا۔ وہ انصاف کی عملداری میں اسمبلی کی رکنیت اور پارٹی عہدے سے نااہل ہو کر گزشتہ ایک سال سے عوام کے روبرو ہیں اور ان میں سسٹم کے ہر شعبے میں اصلاح کی ضرورت کا شعور پیدا کرنے کی کوششوں میں مگن ہیں تاہم انکی ان کوششوں کے ردعمل میں ملک میں سیاسی محاذآرائی کی فضا اتنی گھمبیر ہوگئی ہے کہ اصلاح احوال کیلئے خونیں انقلاب کے در پر دستک دیتی نظر آتی ہے۔ محاذآرائی کی اس فضا کو یقیناً ان عناصر کی جانب سے زیادہ تقویت ملی ہے جو سسٹم کی اصلاح سے متعلق میاں نوازشریف کے منشور سے اپنے تئیں خائف ہیں اور اسی تناظر میں انکی پارٹی کو آئندہ انتخابات کے ذریعے کسی بھی صورت اقتدار میں نہ آنے دینے کی مختلف تدابیر سوچی اور اختیار کی جارہی ہیں۔
جب ملک میں غیریقینی کی ایسی صورتحال پیدا ہوجائے تو یہ ان عناصر کیلئے زیادہ حوصلہ افزاءہوتی ہے جو کسی نہ کسی طرح اس وطن عزیز کی سلامتی تاراج کرنے کی خاطر اسکی خودمختاری میں نقب لگانے کے موقع کی تاک میں بیٹھے ہوتے ہیں۔ بدقسمتی سے مشرف کے جرنیلی اقتدار کے دوران دہشت گردی کی جنگ میں انکے قومی بے حمیتی والے کردار کے باعث یہاں مذہبی انتہاءپسندی کو فروغ حاصل ہوا جو یہاں دہشت گردی اور خودکش حملوں کے فروغ کا بھی باعث بنی اور امن و امان کی بدتر ہوتی اس فضا میں ہی ہمارے دشمن کو ملک کی سلامتی کیخلاف سازشیں پروان چڑھانے کا مزید نادر موقع مل گیا جس نے اسی تناظر میں اقوام عالم میں پاکستان کی تنہائی نوبت لانے میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی۔ چنانچہ ہماری سرزمین پر عالمی کرکٹ بھی شجر ممنوعہ بن گئی اور غیرملکی ہی نہیں ملکی سرمایہ کاروں نے بھی دوسرے ممالک کا رخ کرلیا تاہم موجودہ سول حکمرانی میں نیشنل ایکشن پلان کے تحت دہشت گردی کے ناسور کے قلع قمع میں نمایاں کامیابیاں حاصل ہوئیں اور ملک میں امن و امان کی فضا بحال ہونے لگی تو سی پیک کی شکل میں ملک کی ترقی اور قوم کی خوشحالی کے دروازے بھی کھلتے نظر آئے اور ہماری کرکٹ گراﺅنڈز بھی غیرملکی کھلاڑیوں سے سجنے لگے۔ چاہیے تو یہی تھا کہ ترقی و خوشحالی اس قوم کا مستقل مقدر بنانے کیلئے یہاں سیاسی استحکام کی راہ ہموار کی جاتی مگر یہاں محلاتی سازشوں جن کے پیچھے میاں نوازشریف کو خلائی مخلوق نظر آتی ہے‘ کے تحت سیاسی عدم استحکام کو پھر راستہ دکھادیا گیا۔ اس میں اگر عدلیہ سمیت ریاستی اداروں کا کوئی کردار شامل حال ہے تو اس پر میاں نوازشریف کا چیں بجبیں ہونا فطری امر ہے۔
اب صورتحال ایسی بن گئی ہے کہ سیاسی محاذآرائی کی فضا میں یہاں مخصوص ایجنڈے کے ماتحت مذہبی انتہاءپسندی کو مزید فروغ حاصل ہوگیا ہے جس سے عدم برداشت کے کلچر کو بھی تقویت حاصل ہوئی ہے اور اسی کلچر میں سیاسی مخالفت کا اظہار سیاہی اور جوتے پھینکنے کی حوصلہ افزائی سے شہ پاتے پاتے اب وفاقی وزیر داخلہ پر قاتلانہ حملے تک آپہنچا ہے تو وطن عزیز کیلئے اس سے بڑا المیہ اور کیا ہو سکتا ہے۔ اس فضا میں تو ہمارے سی پیک منصوبہ کو بھی اس تاثر کی بنیاد پر سخت نقصان پہنچنے کا اندیشہ لاحق رہے گا جس ملک کا وزیر داخلہ بھی محفوظ نہیں وہاں کسی اور کے تحفظ کی کیا ضمانت مل سکتی ہے۔
اس تناظر میں میاں نوازشریف چاہے اپنے ذاتی غصے کی بنیاد پر ہی کیوں نہ عدالتی نظام سمیت پورے سسٹم کی اصلاح کا تقاضا کررہے ہیں‘ تاہم یہ تلخ حقیقت اپنی جگہ پر موجود ہے کہ ملک میں پیدا ہونیوالے ہر سطح کے بگاڑ کو انقلابی اقدام کے تحت دور کرنے کی ضرورت ہے۔ اداروں کے ساتھ محاذآرائی والی اپنی حالیہ سیاست کی بنیاد پر میاں نوازشریف کی اقتدار میں آکر سسٹم میں انقلابی اصلاحات عمل میں لانے کی خواہش پوری ہوتی ہے یا نہیں‘ تاہم یہ امر طے شدہ ہے کہ ملک کا مستقبل بچانا‘ محفوظ کرنا اور قوم کو پرامن فضا میں خوشحالی کی منزل سے ہمکنار کرنا مقصود ہے تو پھر سسٹم کی ادارہ جاتی اصلاح کے بغیر کام نہیں چلے گا۔ آج کی صورتحال ملک کی سیاسی‘ عدالتی‘ عسکری اور دینی قیادتوں کیلئے بہرصورت لمحہ¿ فکریہ ہے۔اگر ملک کا مستقبل سنوارنا ہے تو ہمیں یہاں سیاسی رواداری کو فروغ دینا اور عدم برداشت پر منتج ہونیوالی مذہبی انتہاءپسندی سے خلاصی پانا ہوگا بصورت دیگر پروان چڑھتی مذہبی اور سیاسی منافرت ہمارا سب کچھ غارت کردیگی۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024