بدھ ‘ 22 شعبان المعظم‘ 1439 ھ ‘ 9 مئی 2018ء
نیب افسر ادارہ سے انتہائی حساس دستاویزات چوری کرتے پکڑا گیا، پکڑنے والے سکیورٹی گارڈ کو 10ہزار انعام۔
یہ تو اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے والی بات ہے۔ یہ تو شکر ہے کہ نیب کے سکیورٹی گارڈ نے کاغذات چوری کرنے کی کوشش ناکام بنا دی اور ملزم کو جو خود نیب کا افسر ہے گرفتار کروا دیا۔ اب سکیورٹی گارڈ کو 10ہزار دینا انتہا درجے کی کنجوسی نہیں تو اور کیا ہے اسے تو کم از کم ایک لاکھ روپے دینا چاہئے۔ اگر وہ فرض شناسی نہ دکھاتا اور مک مکا کر لیتا تو نیب کا افسر اسے موقع پر ہی لکھ پتی بنا سکتا تھا کیونکہ وہ جن کیلئے یہ کام کرکے سرخرو ہونا چاہتا تھا وہ اس کی کوئی بھی قیمت دینے کو تیار ملتے۔ فی الحال اس فرزند نیب کا نام مصلحت کے تحت ظاہر نہیں کیا جا رہا۔ البتہ انکوائری کا حکم دیدیا گیا ہے دیکھیں کیا گزرے ہے قطرے پہ گہر ہونے تک“ کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے۔ہو سکتا ہے نیب والے خود پہلے یہ راز معلوم کریں کہ وہ کاغذات لے کر کس کو دینے جا رہا تھاپھر یہ واردات آسانی سے جس کے سر چاہے منڈھادیں۔ اسے ہم طوطے کی بلا بندر کے سر بھی کہہ سکتے ہیں۔ یہ نام ظاہر نہ کرنے کی نوازشیں عنایتیں صرف اپنے محکمے تک محدود کیوں ہیں۔ اگر کوئی اور یہ کارروائی کرتا پکڑا جاتا تو سب سے پہلے اس کی تشہیر میڈیا پر کی جاتی اسے سر عام دکھایا جاتا مگر اس نیب کے افسر کی تقریب رونمائی میں تاخیر بھی شاید کسی خاص مقصد کےلئے ہے۔ ورنہ ہاتھ کنگن کو آر سی کیا۔ عام سیاسی کارکنوں کو حکومتی عہدیداروں کو تو آئے روز نیب کے دفتر بلوایا جاتا ہے تو اپنے افسر سے اس رعایت پرکیوںلوگ سوالات نہیں اٹھائیں گے۔
٭....٭....٭....٭
عائشہ گلا لئی کا فوج اور عدلیہ کے حق میں 12مئی کو جی ٹی روڈ پر مارچ کا اعلان
کافی عرصہ فراغت کے بعد اب ایم این اے عائشہ گلا لئی نے آنے والے الیکشن میں حصہ لینے کی تیاریاں شروع کر دی ہیں۔اسی سلسلہ میں انہوں نے الیکشن مہم سے قبل اپنی مقبولیت کا اندازہ لگانے کیلئے میدان عمل میں کودنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ اس وقت عدلیہ اور فوج کی حمایت میں ریلیوں کا سلسلہ جاری ہے سو اب عائشہ گلالئی نے بھی ”تم ادھر کی چلو جدھر کی ہوا چلے“ کے مصداق فوج اور عدلیہ کے حق میں چلنے والی اس لہر کے دوش پر سوار ہو کر میدان میں آ رہی ہیں۔ فوج اور عدلیہ ریاست کے اہم ستون ہیں۔ یہ دونوں آزاد اور خود مختار ریاست کیلئے لازم و ملزوم ہیں۔ ان سے ہر پاکستانی محبت کرتا ہے، حفاظت اور انصاف ان کا ماٹو ہے۔انکے نام پر کسی کو سیاست چمکانے کی ضرورت نہیں۔ ہاں البتہ نیک نیتی سے اگر کوئی ان کی قربانیوں کا اعتراف کرنا چاہتا ہے تو شوق سے کرے۔ نیتوں کا حال اوپر والا ہی جانتا ہے۔
لگتا ہے تحریک انصاف سے رخصتی کے بعد مسلم لیگ (ن) نے بھی ان کو کوئی لفٹ نہیں کرائی تو وہ سیاسی تنہائی سے پریشان سی رہنے لگی تھیں سو انہوں نے اس تنہائی سے نکلنے کا فیصلہ کر لیااور 12مئی کو اسلام آباد تا لاہور بذریعہ جی ٹی روڈ فوج اور عدلیہ حمایت میں مارچ کا اعلان کر دیا ہے جسے عائشہ گلا لئی نے ”انقلاب“ مارچ کا نام دیا ہے۔نام سے تو لگتا ہے موصوفہ ابھی تک عمران خان کے انقلابی نعروں کے سحر سے باہر نہیں نکلی ہیں۔
٭....٭....٭....٭
فاٹا اصلاحات پر ایم ایم اے تقسیم، مولانا فضل الرحمن اپنے موقف پر قائم
ایم ایم اے کے مردہ گھوڑے میں ابھی بمشکل جان پڑی تھی کہ فاٹا کی چابک اس کی جان ناتواں پر تازیانہ عبرت بن کر برسنے لگی ہے۔ ایم ایم اے کی دو بڑی جماعتوں جنہیں ایم ایم اے کے اماں ابا کا درجہ حاصل ہے۔ فاٹا کے مسئلہ پر ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ جماعت اسلامی فاٹا کو خیبر پی کے میں شامل کرنے کیلئے اپنے پرانے اتحادی تحریک انصاف کے شانہ بشانہ کھڑی ہے اور اس پر کسی کی بات سننے کو تیار نہیں ۔ جے یو آئی (ف)والے فاٹا کے خیبر پی کے میں انضمام پر ایک لفظ بھی سننے کے روا دار نہیں۔وہ اسے علیحدہ صوبہ بنانا چاہتے ہیں۔ یوں اب یہ صورتحال ایم ایم اے کیلئے کہیں کسی سانحہ¿ کا باعث نہ بن جائے کیونکہ جماعت اسلامی نے اور جے یو آئی (ف) نے فاٹاجا کر اپنے اپنے موقف کے ساتھ اپنی اپنی سیاست چمکانی ہے۔ فاٹا کے عوام سے ووٹ لینے ہیں۔اب یہ مسئلہ ایم ایم اے کے اونٹ پر آخری تنکا ثابت نہ ہو۔ پاکستان میں ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر مصنوعی مسکراہٹ کے ساتھ نعرے لگانے والے جب فاٹا میں جائیں گے تو علیحدہ علیحدہ جلسہ کرکے وہاں کے عوام کو اپنا اپنا ہمنوا بنانے کیلئے کس مہارت کے ساتھ ایک دوسرے کو فاٹا کے عوام کا دشمن قرار دیں گے۔ اس حساب سے تو ایم ایم اے ” خدا ہی ملا نہ وصال صنم “ کے حشر سے ایک مرتبہ پھر دوچار ہوتی نظر آ رہی ہے۔ اب بے چاری جے یو پی ، مجلس وحدت و دیگر جماعتوں کا کیا بنے گا جو اس ڈوبتی ناﺅ میں منزل کی تلاش میں نکلی تھیں۔
٭....٭....٭....٭
دنیا بھر کیلئے سعودی ویزا فیس میں کمی، پاکستان کیلئے سخت رویہ برقرار
یہ اپنوں پہ ستم اور غیروں پہ کرم والی بات نہیں تو اور کیا ہے۔ ہم اس کا شکوہ بھی کریں تو کس سے کریں۔سعودی عرب کی طرف سے ویزہ پالیسی میں نرمی سے ساری دنیا فائدہ اٹھائے گی، نہیں اٹھا سکیں گے تو صرف بے چارے پاکستانی نہیں اٹھا سکیں گے جو ہر موقع پر کبھی خادم الحرمین کبھی تحفظ الحرمین اور کبھی استحکام الحرمین کے نام پر مظاہرے اور جلسے کرکرکے سعودی عرب سے اپنی محبت کا اظہار کرتے پھرتے ہیں، مگر نجانے کیوں سعودی عرب والوں کے دل ہماری طرف سخت ہو گئے ہیں۔ اس میں لگتا ہے وہی حکومت پاکستان کی طرف سے پہلے سعودی عرب فوج بھیجنے کا اعلان اور پھر انکار والا غصہ ہی کار فرما ہے، مگر کیا عمر بھر کی محبت اور دوستی کا صلہ یہ ہوتا ہے۔ آج بھی لاکھوں پاکستانی سعودی عرب میں کام کر رہے ہیں صرف یہی نہیں سعودی جیلوں میں بھی رونق انہی کے دم سے ہے۔ اس وقت سعودی عرب کی جیلوں میں ہزاروں پاکستانی بند ہیں جن کا کوئی پرسان حال نہیں۔ قوانین سے زبان سے عدم واقفیت کی وجہ سے یہ بے چارے معمولی جرائم کی سزا برسوں سے کاٹتے ہیں۔ پاکستانی تو اس پر بھی چپ رہتے ہیں۔ ہمارے سابق آرمی چیف جنرل (ر) راحیل شریف سعودی عرب میں عالمی اسلامی اتحادی فورس کے سربراہ ہیں ہمارے بے شمار فوجی جوان بھی وہاں تربیتی کام کر رہے ہیں۔ کیا یہ سب کچھ اچھے تعلقات کیلئے کافی نہیں۔ سعودی حکمران یا عالم پاکستان آئیں تو پوری قوم ان کیلئے دیدہ و دل فرش راہ بنی ہوتی ہے اس لئے سعودی حکمرانوں کو چاہئے کہ وہ اپنی رحمدلی سے پاکستانیوں کو بھی مستفید ہونے کا موقع دیں اور انہیں بھی ویزے میں رعایت دےدی جائے۔ ورنہ لوگ :
وفا کا نام کوئی بھول کر نہیں لیتا
تیرے سلوک نے چونکا دیا زمانے کو
کہنے پر مجبور ہوں گے....۔
٭....٭....٭....٭....٭