دائروں میں سفر اور ایک سابق آرمی چیف کے خدشات

May 09, 2014

فریحہ ادریس

جمہوریت کے تسلسل کا ابھی چھٹا سال مکمل نہیں ہوا ہے کہ پاکستان کی جمہوریت ایک بار پھر انجانے خوف اور خدشات کا شکار ہے۔ یہ خدشات نئے نہیں ہیں گزشتہ چھیاسٹھ سال سے ہر جمہوری حکومت انہی خدشات کا شکار ہوتی چلی آئی ہے اور ہر بار ہم نے جمہوریت کی روشن صبح کو آمریت کے سیاہ اندھیروں میں گم ہوتے دیکھا ہے۔ 
24 اگست 2013 کو اپنے ایک کالم میں نے پاکستانی قوم کی اسی بدقسمتی کے حوالے سے لکھا تھا کہ "ایک بار پھر ہم ایک طویل سفر طے کرنے کے بعد وہیں آ پہنچے ہیں جہاں سے چلے تھے۔ چودہ سال قبل چھ اکتوبر انیس سو اٹھانوے کو جو مخمصہ وزیراعظم نواز شریف کو درپیش تھا آج پھر وہی سوال انکے سامنے سر اٹھائے کھڑا ہے اور یہ سوال اس لیے بہت اہم ہے کہ آج پاکستان پہلے سے کہیں زیادہ نازک صورتحال کا سامنا کر رہا ہے۔ چھ اکتوبر انیس اٹھانوے میں اس وقت کے آرمی چیف جنرل جہانگیر کرامت کے استعفے کے وقت بھی وزیراعظم نواز شریف کے سامنے سینئر جنرل علی قلی خان ، انکے بعد جنرل خالد نواز خان اور جنرل پرویز مشرف کے نام تھے۔ کہا جاتا ہے کہ میاں نواز شریف نے چوہدری نثار اور شہباز شریف کے مشورے سے سنیارٹی کو نظر انداز کرتے ہوئے جنرل پرویز مشرف کو آرمی چیف مقرر کر دیا۔ مگر جس خوف کی وجہ سے اس وقت سینئر جنرل علی قلی خان آرمی چیف نہ بن سکے اور ایک جونیئر جنرل پرویز مشرف کو آرمی چیف بنایا گیا آج بھی وہی خوف وزیراعظم کے ذہن پر طاری ہے۔"
 یہ کالم جس وقت لکھا گیا تھا اس وقت وزیراعظم میاں نواز شریف کو نئے آرمی چیف کے انتخاب کا مسئلہ درپیش تھا اور خوف یہی تھا کہ کہیں ایک بار پھر انیس سو ننانوے والے حالات کا سامنا نہ کرنا پڑ جائے۔ کہیں پھر فوج اور حکومت کے درمیان کشمکش کی صورتحال نہ پیدا ہو جائے۔ بدقسمتی سے حالات کچھ اسی طرف جاتے دکھائی دے رہے ہیں ۔ میں نے اپنے اس کالم کے اختتام پر پاکستان کے تلخ ماضی کے تجربات اور میاں نواز شریف کے گزشتہ دور حکومت میں فوج کے ساتھ ان کی محاذ آرائی کے واقعات کو سامنے رکھتے ہوئے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے لکھا تھا کہ " اگر نواز شریف نے درست اور مصلحتوں سے بالا تر ہو کر فیصلے کئے تو یقیناً آئندہ آنیوالے حکمرانوں کیلئے ان روایات پر عمل درآمد کرنا مجبوری بن جائیگا۔لیکن نواز شریف صاحب ! ایسا نہ ہوا تو نہ تو تاریخ آپ کو معاف کرے گی اور شاید نہ ہی آپ کا اپنا فیصلہ آپ کو معاف کرے گا جیسا کہ ماضی میں آپ کے ساتھ ہوا۔"
بدقسمتی سے اس کالم کے لکھنے کے صرف پانچ ماہ بعد ہی وہ تلخ تاریخ دہرائی جا رہی ہے ، ایک بار پھر ہم سول اور ملٹری بالادستی کی کشمکش اور اداروں کا ٹکراو ہوتا دیکھ رہے ہیں۔ فوج اور حکومت کے درمیان فاصلے اتنے بڑھ چکے ہیں کہ اس میں جمہوریت کا مستقبل دھندلاتا محسوس ہو رہا ہے۔ جنرل پرویز مشرف کا مقدمہ، وفاقی وزرا کا جنرل پرویز مشرف کے خلاف انتہائی سخت زبان کا استعمال ، طالبان سے مذاکرات اور پھر ایک میڈیا گروپ کی جانب سے آئی ایس آئی کے خلاف الزامات کی بوچھاڑ نے فوج اور حکومت کے درمیان تلخیوں کو عروج پر پہنچا دیا ہے۔ اس ساری صورتحال کے درمیان مجھے سابق آرمی چیف جنرل مرزا اسلم بیگ سے ایک اہم انٹرویو کرنے کا اتفاق ہوا۔ اس انٹرویو کے بعدان سے ایک آف دی ریکارڈ گفتگو بھی ہوئی ، جنرل مرزا اسلم بیگ کی اس ساری گفتگو اور انٹرویو کا لب لباب یہی تھا کہ میاں نواز شریف نے ماضی سے کوئی سبق نہیں سیکھا اور ایک بار پھر وہ محاذ آرائی کی راہ پر چل پڑے ہیں۔
جنرل اسلم بیگ نے 1988 میں جنرل ضیاالحق کی اچانک حادثاتی موت کے بعد موقع ملنے کے باوجود مارشل لا لگانے کے بجائے ملک میں عام انتخابات کروا کر اقتدار محترمہ بینظیر بھٹو کے حوالے کر دیا تھا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف دونوں کی سیاست اور دور اقتدار کو انتہائی نزدیک سے دیکھ چکے ہیں ، جب میں نے ان سے سوال کیا کہ کیا میاں نواز شریف اپنے پہلے دو ادوار کے مقابلے میں تبدیل ہو چکے ہیں تو ان کا جواب نفی میں تھا ،بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کا موزانہ کرتے ہوئے انہوں نے بے نظیر بھٹو کو زیادہ بردبار اور سمجھدار قرار دیا ، انہوں نے بتایا کہ انیس سو اٹھاسی کے انتخابات میں جب پیپلز پارٹی نے اکثریت حاصل کر لی تو میں نے بے نظیر بھٹو سے ملاقات کی ، تین گھنٹے طویل اس ملاقات میں جنرل مرزا اسلم بیگ نے محترمہ سے کہا کہ ان کے والد زوالفقار علی بھٹو کا عدالتی قتل بیشک ایک بہت بڑی زیادتی تھی اور انہیں بحیثیت بیٹی اس کا جو دکھ ہے وہ اسے سمجھ سکتے ہیں۔ مگر اب ان پر قوم کی قیادت کی بھاری ذمہ داری آن پڑی ہے اس لیے انہیں اب سب کچھ بھلا کر پاکستان کے عوام کی خاطر آگے بڑھنا ہو گا اور وہ جنرل ضیا الحق کے خاندان کے خلاف کسی قسم کی انتقامی کاروائی نہیں کریں گی۔ جنرل اسلم بیگ کا کہنا تھا کہ محترمہ بے نظیر بھٹو نے اپنا وعدہ پوری طرح نبھایا اور ماضی کو بھلا کر آگے بڑھیں ، مگر اس کے برعکس میاں نواز شریف اپنا دل صاف نہیں کر سکے اور اقتدار میں آنے کے بعد وہ جنرل پرویز مشرف کے خلاف انتقامی کاروائی کر رہے ہیں۔ فوج جنرل پرویز مشرف کے خلاف غداری کا مقدمہ کسی طرح برداشت نہیں کرے گی کیونکہ اس طرح فوج کے چہرے پر غداری کا داغ لگ جائیگا جو فوج کو کسی طرح گوارہ نہیں ہے۔
 جنرل مرزا اسلم بیگ سے گفتگو میں مجھے احساس ہوا کہ وہ جمہوریت کے بارے تو پرامید ہیں مگر موجودہ حکومت سے نہایت مایوس ہیں، انہوں نے اپنی گفتگو میں موجودہ حالات میں مڈٹرم الیکشن کی جانب بھی اشارہ کیا اور کہا کہ اگر چار حلقوں میں تحقیقات کے نتیجے میں ثابت ہو گیا کہ دھاندلی ہوئی ہے تو پورا الیکشن ہی کالعدم ہو جائے گا اور مڈٹرم الیکشن ناگزیر ہو جائیں گے، موجودہ حالات کو دیکھیں تو اس کے امکانات یوں بھی بڑھتے جا رہے ہیں کہ گیارہ مئی سے عمران خان انتخابات میں دھاندلی کے خلاف تحریک چلانے جا رہے ہیں اور اگر حکومت پر زیادہ دباو پڑا تو پھر جمہوریت کی بقا کے لیے شاید مڈٹرم الیکشن ہی آخری حل بچے گا۔ جنرل مرزا اسلم بیگ سے اس ساری گفتگو کے بعد ایک بات کی تو تصدیق ہو گئی کہ موجودہ حکومت کچھ بھی کہے فوج اور میاں نواز شریف کے درمیان فاصلے اتنے بڑھ چکے ہیں کہ اب معاملات کا درست ہونا ایک معجزہ ہی ہو گا۔ مگر اس کے باوجود یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان کی بقا اور سلامتی صرف جمہوریت کے تسلسل میں ہی ہے۔ کچھ بھی ہو ہمیں ذاتی انا اور رنجشوں کو بالائے طاق رکھنا ہو گا۔ اٹھارہ کروڑ عوام کو غربت، مہنگائی ، دہشت گردی ، لوڈ شیڈنگ اور جہالت کے اندھیروں سے نکالنا ہو گا ، نوبت تو یہاں تک آ چکی ہے کہ پاکستان پر دنیا میں دہشت گردی پھیلانے کے ساتھ ساتھ پولیو پھیلانے کا الزام بھی لگ چکا ہے اور اب پاکستان پر سفری پابندیاں بھی عائد ہو چکی ہیں۔ کیا اب بھی وقت نہیں آیا کہ ہم دائروں کے اس سفر سے باہر نکلیں اور آگے بڑھیں۔

مزیدخبریں