فقیر ولی اللہ عظیم مصلح اور روحانی پیشوا حضرت شاہ جیونہؒ
حاجی غلام رضا
(ماخوذاز کتاب چراغ فقرمؤلفہ حاجی غلام رضا)
جھنگ شہر کے شمال کے جانب تقریباً 30کلو میٹر کے فاصلہ پر حضرت محبوب عالمؒ المعروف پیر شاہ جیونہؒ کا دربار عالیہ ہے۔ حضرت پیر شاہ جیونہؒ حضرت جعفر تواب بن امام علی نقی کی اولاد سے ہیں۔خلیفہ المتوکل عباسی نے جب علویوں پر سختی شروع کی تو حضرت پیر شاہ جیونہ کے جد امجد جناب جعفر تواب اور ان کے والد بزرگوار امام علی نقی مدینہ سے سامرا منتقل ہوگئے، اور پھر آپ نے دیگر علویوں کے ساتھ مل کر 250ھ میں حسن بن زید علوی کی مدد کی اور طرح حسن بن زید علوی نے طبرستان اور جرجان پر قبضہ کرلیا اور یوں دولت علویہ طبرستان کا قیام ہوا جو345ھ تک قائم رہی اس کے بعد سادات شاہ جیونہؒ کے اجداد ماوراء النہر اور بخارا کے علاقہ(اوچ قدوق) یعنی اوچ قدوس(شریف) میںآباد تھے۔ اسی لئے سادات شاہ جیونہؒ کے جد امجد مخدوم جلال الدین سرخ بخاری جب ہندوستان میں تشریف لائے تو انہوں نے تبلیغ کے آغاز پر شہر کا نام بھی اوچ شریف ہی رکھا۔
مخدوم جلال الدین سرخ بخاری تبلیغ دین کی خاطر خاندان غلاماں کے عہد میں برصغیر تشریف لائے اور اوچ بہاؤلپور میں سکونت پذیر ہوئے، حضرت غوث بہاؤالدینؒ زکریا ملتانی، حضرت خواجہ فرید الدین گنج شکرؒ اور حضرت قلندر شہبازؒ آپ کے ہم عصر تھے اور یہ چاروں فقراء چاریار کہلائے۔
حضرت مخدوم جلال الدین بخاریؒ کے پوتے مخدوم جلال الدین جہانیاں، جہاں گشت کے متعلق سید ابوالحسن علی ندوی اپنی کتاب تاریخ دعوت عزیمت میں لکھتے ہیں کہ حضرت مجدالف ثانیؒ کے جدِ ساؤس امام رفیع الدینؒ آپ کے خلیفہ اور امام نماز تھے۔ حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکیؒ اور حضرت خواجہ نظام الدین اولیائؒ سادات شاہ جیونہ کے اجداد کے ہم نسب تھے۔ تو گویا برصغیر کے جید مشائخ عظام سادات شاہ جیونہؒ کی گدی سے تعلق رکھتے ہیں۔
مخدوم جہانیاںؒ جہاں گشت کی وفات کے بعد سادات شاہ جیونہؒ کے اجداد تبلیغ دین کے لئے قنوج بھارت کی طرف کرگئے، جہاں حضرت پیر شاہ جیونہؒ پیدا ہوئے۔ آپ کے والد گرامی کا اسم گرامی سید صدرالدین شاہ کبیر تھا، جو ایک جید عالم دین تھے، اور سکندر لودھی بادشاہ ہند کے مصاحبین میں سے تھے۔
حضرت شاہ جیونہؒ نے اپنی زندگی کا بہت بڑا حصہ (895ھ تا 961ھ) تقریباً 66سال قنوج میں گزارا آپ نے شاہان ہند سکندر لودھی، ابراہیم لودھی، ظہیر الدین بابر، نصرالدین ہمایوں اور جلال الدین اکبر کا عہد دیکھا ۔ قنوج جوکہ اب ضلع ہے میں ایک تحصیل جلال آباد ہے جوکہ سادات جلالی بخاری کے نام سے منسوب ہے۔ اسی تحصیل میں قصبہ ’’جیون‘‘ واقع ہے۔اسی طرح مخدوم جلال الدین جہانیوں جہاں گشت کے نام سے منسوب مسجد بھی قنوج میں موجود ہے۔ حضرت پیر شاہ جیونہؒ باکرامت ولی کامل تھے، جب آپ قنوج میں تھے تو وہاں کے راجہ کے بیٹے کو پیٹ میں چاقو لگا جس سے اس کی موت واقع ہوگئی، لیکن آپ کے دست کارساز سے اللہ کے فضل سے راجہ کا بیٹا زندہ سلامت اٹھ بیٹھا۔ جس سے آپ ’’ شاہ جیونہؒ پاٹے سیونا‘‘ مشہور ہوگئے اور آپ کی اس کرامت کو دیکھ کر راجہ اور اس کی رعایا کے لوگ مسلمان ہوگئے۔حضرت پیر شاہ جیونہ ؒ کو یہ کرامت ورثہ میں ملی تھی۔ آپ کے جدِ امجد مخدوم جلال الدین سرخ بخاری کے متعلق کتاب حدیقۃ الاولیاء اورانوار الاولیاء مولفہ رئیس احمد جعفری میں ان کرامات کا ذکر ہے۔
حضرت پیر شاہ جیونہؒ تبلیغ اسلام کے لئے 558ھ میں قنوج سے پیل پدھراڑ کے علاقہ میں تشریف لائے اور یہاں کے قبائل کو کلمہ حق پڑھایا، یہ علاقہ پہلے بالکل بنجر تھا لیکن آپ کی برکت سے سرسبز ہوگیا، اور لوگوں نے یہ کرامت دیکھ کر جوق درجوق اسلام قبول کرلیا۔پیل پدھراڑ سے آپ جھنگ میں موجود شہر شاہ جیونہ کے علاقہ میں تشریف لائے، یہ علاقہ بھی بیابان تھا اور لوگ اس کو مقامی زبان میں ’’رڑا‘‘ یعنی بنجر کہتے تھے، لیکن آپ نے دعا کی اور فرمایا کہ’’ یہ رڑا نہیں گھیودا گھڑا ہے‘‘ آپ کے اس فرمان کے بعد یہ علاقہ آباد ہونا شروع ہوگیا اور دیکھتے ہی دیکھتے ہر طرف ہرے بھرے کھیت نظر آنے لگے۔
حضرت پیر شاہ جیونہؒ کو سورۃ مزمل سے عشق تھا،آپ ہر وقت اس سورۃ مبارکہ کا ورد کرتے رہتے تھے۔ علامہ شبیر احمد عثمانی، شاہ عبدالعزیز کے حوالہ سے لکھتے ہیں کہ ’’سورۃ مزمل میں خرقہ پوشی کے لوازم و شرائط بیان ہوئی ہیں یہ اس شخص کے لئے سورۃ ہے جو درویشوں کا خرقہ پہنے اور اپنے آپ کو اسی رنگ میں رنگے‘‘۔حضرت پیر شاہ جیونہؒؒ خرقہ پوش فقیر تھے اسی لئے انہوں نے اس سورۃ کامبارکہ کا کئی کروڑ بار ورد کیا اس لئے لوگ آپ کو ’’ پیر کروڑیہ‘‘ کے نام سے پکارتے تھے۔
حضرت پیر شاہ جیونہؒ نے ہزاروں ہندوؤں کو حلقہ بگوش اسلام کیا جس کی وجہ سے آپ ’’مل قتال‘‘ بھی کہلاتے تھے، مل کے معنی میل یا گندگی کے ہیں اور قتال کے معنی بہت زیادہ جہاد کرنے والے کے ہیں آپ نے چونکہ کفر کی گندگی کو دور کیا اور اسلام کی پاکیزگی داخل کی اس لئے آپ کو مل قتال کہتے تھے۔ آپ مل قتال الرجس کہلاتے تھے، اس سے یہ ، حقیقت بھی واضح ہوتی ہے کہ حضرت پیر شاہ جیونہؒ صوفی بالسیف تھے اور آپ ایک خاص قلمرو کے مالک تھے جس میں مل قتال اسلامی آئین کے مطابق حکمرانی کرتے تھے۔ حضرت پیر شاہ جیونہؒ کوئی عام مجذوب فقیر نہیںتھے۔ بلکہ وہ ایک عظیم مصلح روحانی پیشو اور ملی قائد تھے، جوکہ ملت اسلامی کو قرآن کریم کی روشنی میں خصوصاً سورۃ مزمل کی روشنی میں فلاح کی طرف لے جانا چاہتے تھے۔ وہ ایک انقلاب آفرین، چراغ بردار فقیر تھے جوکہ آبادیوں، جنگلوں، بیابانوں میں بھاگتے پھرتے تھے۔ کبھی پیل پدھراڑ کی سنگلاخ وادیوں میں توحید الٰہی کی صدا لگاتے نظر آتے ہیں اور کبھی دریاتے چناب کے ویرانوں میں بانگ سورۃ مزمل بلند کرتے دکھائی دیتے ۔لوگ ان کے آستانہ عالیہ پر آج بھی دست بستہ ننگے پاؤں حاضری دینے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ مخدوم سید فیصل صالح حیات جھنگ میں اس دربار عالیہ ؒ کے سجادہ نشین ہیں جہاں12,11,10,مئی کو ایک اس سال 456واں عرس منعقد ہورہا ہے۔