رمضان المبارک نیکیوں کا موسم بہار ہے یہ با برکت مہینہ تزکیہ نفس ، صبر و قناعت اور ایثار و قربانی کا درس دیتا ہے۔روزہ صرف بھوک اور پیاس برداشت کرنے کا نام نہیں بلکہ یہ نفس کی پاکیزگی ، دل کی صفائی اور دوسروں کے درد کو محسوس کرنے کی عملی تربیت ہے۔اگر ہم اپنے اردگرد نظر دوڑائیں تو ہمیں معلوم ہو گا کہ رمضان المبارک میں غریبوں کے لیے آزمائش ہوتی ہے۔ مہنگائی آسمان سے باتیں کر رہی ہوتی ہے دوکاندار اشیاء خوردو نوش کی قیمتوں میں اضافہ کر دیتے ہیں اور غریب آدمی کے لیے دو وقت کی روٹی کا حصول بھی مشکل ہو جاتا ہے۔ لیکن دوسری طرف امراء رمضان المبارک میں طرح طرح کی افطار پارٹیاں کرنے ، مہنگے کھانے اور مہنگے ترین ملبوسات پر اپنا پیسہ لگا رہے ہوتے ہیں۔ یہ سارے معاملات ہمیں اس بات کو سوچنے کا موقع ہی نہیں دیتے کہ ہمارے ارد گرد کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جنہیں افطاری کے لیے کھجور اور پانی کے سوا کچھ میسر نہیں ہوتا۔
اللہ تعالیٰ نے اس لیے زکوۃ کو فرض قرار دیا تا کہ پیسہ صرف چند ہاتھوں میں ہی گردش نہ کرے بلکہ معاشرے کے غریب لوگوں تک بھی پیسہ پہنچ سکے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں نماز کے ساتھ کئی مقامات پر زکوٰۃ کا بھی ذکر فرمایا ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :’’ اور نماز قائم کرو اور زکوٰۃ ادا کرو اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو ‘‘۔ ( سورۃ البقرہ )
سورۃ المنافقون میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :’’ اور جو کچھ ہم نے تمہیں دیا ہے اس میں سے زکوٰۃ دو قبل اس کے کہ تم میں سے کسی کو موت آ جائے ‘‘۔
نبی کریم ﷺ نے بھی زکوٰۃ کی اہمیت بیان کرتے ہوئے جب حضرت معاذ بن جبل کو یمن کا والی بنا کر بھیجا تو انہیں فرمایا :’’ انہیں بتائو کہ اللہ تعالیٰ نے تم پر زکوٰۃ فرض کی ہے جو ان کے مالدار سے لی جائے اور ان کے غریبوں میں تقسیم کی جائے گی ‘‘۔
اسلامی تعلیمات سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ معاشرے کا مالدار طبقہ غربا کی مدد کرے۔ زکوٰۃ و صدقات اور خیرات کے ذریعے اپنے ارگرد بسنے والے لوگوں کی مدد کریں۔ جہاں ہم بڑی بڑی افطار پارٹیوں کا اہتما م کرتے ہیں وہی ہمیں یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ کیا ہمارے کسی ہمسائے کے گھر کھانے کے لیے دو وقت کی روٹی بھی ہے یا نہیں۔ رمضان المبارک سے ہمیں صبر ، شکر اور دوسروں کی مدد کرنے کا درس ملتا ہے۔ اگر ہم دوسروں کے درد کو محسوس نہیں کر سکتے ، بھوکوں کا پیٹ نہیں بھر سکتے اور اپنے اردگرد بسنے والے لوگوں کا خیال نہیں کر سکتے تو روزہ صرف بھوک اور پیاس کے سوا کچھ بھی نہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ امراء اپنی ذمہ داریوں کو سمجھتے ہوئے غریب طبقے کی مدد کریں۔