
غلطی ہائے مضامین مت پوچھ۔ سب میڈیا نے خبر دی کہ پرویز الٰہی عرف پنجاب کے سب سے بڑا ایماندار تحریک انصاف کے صدر بن گئے۔ یہ خبر، اس ذرا پہلے کی خبر کا تتمہّ یا تکملہ ہے کہ قاف لیگ پی ٹی آئی میں ضم ہو گئی جو ملک کے سب سے زیادہ ایماندار لوگوں کا سب سے بڑا اکٹھ سمجھا جاتا ہے۔ محمد خاں بھٹی بھی اس اکٹھ کا اہم جزو تھے جو اب جیل میں ہے اور ملفوظات گراں مایہ قلمبند فرموا رہے ہیں۔ مطلب قلمبند کروا رہے ہیں۔
یہیں اس خبر کی رپورٹنگ میں غلطی ہوئی۔ اصل یہ تھی کہ پی ٹی آئی قاف لیگ میں ضم ہو گئی ۔ کیمسٹری کا قاعدہ یہی ہے، جب کسی کمپائونڈ کا مالیکیول بنتا ہے تو چھوٹی شے بڑے عنصر میں ضم ہوتی ہے۔ سب سے مشہور کمپائونڈ پانی کا ہے۔ ہائیڈروجن کے دو جوہرے اور ایک جوہر آکسیجن کا ملائیں تو پانی بنتا ہے۔ یعنی ایچ ٹو او ۔ یادش بخیر، سابق چیف جسٹس ثاقب نثار بھی عمران خان ہی کی طرح کے فاضل رجل ہیں۔ ایک بار، اپنے ایک مشہور خطاب میں انہوں نے ایچ ٹو او کی تصحیح کی تھی اور بتایا تھا کہ پانی کا فارمولا ایچ ٹو زیرو ہے۔ یعنی ہائیڈروجن اور دو ایٹموں کے ساتھ صفر کا ایک جوہر ملا دیا جائے تو پانی بنتا ہے۔ اس انکشاف پر بہت واہ واہ ہوئی تھی جسے کمزور سماعت کے لوگوں نے ’’ھا ھا‘‘ سنا تھا۔ حالانکہ وہ ھا ھا نہیں ہوئی تھی ، واہ وا ہوئی تھی۔
خیر، کیمسٹری کے قاعدے کے تحت ایچ کو قاف لیگ اور او کو پی ٹی آئی سمجھ لیجئے۔ دونوں کے مرکب سے یہ نیا پانی بنا ہے، بالکل شفاف پانی ہے، اسے کالا پانی مت سمجھئے۔ چھوٹا ہر بڑے جوہری جوڑے میں ضم ہوا تو یہ پانی وجود میں آیا۔ آپ چاہیں تو اس نئے پانی کو نئی تحریک انصاف کا نام دے دیں لیکن اس سے فرق نہیں پڑتا۔ اصل میں یہ نئی قاف لیگ ہے۔
__________
اصل ان دونوں جوہروں کا ایک ہی مرکز ہے، جسے مرکز آفرینش کہا جا سکتا ہے، اس مرکز کا مرکز نشیں اگرچہ بدلتا رہتا ہے لیکن مرکز بدستور وہی رہتا ہے۔ پہلا مرکز نشین ضیاء الحق ، دوسرا پرویز مشرف اور تیسرا جنرل باجوہ تھے۔ ان تینوں، مرکز نشینوں نے جہاں ایک طرف قاف لیگ کا جوہر جنم دیا تو دوسری طرف پی ٹی آئی کا۔
اب اتنے عرصے بعد یہ دوئی مٹ گئی اور یک جانی ہو گئی ۔ اللہ بھلا کرے۔ اگر اقتدار ملا تو پہلے کے مقابلے میں ایمانداروں کے دوگنے ڈنکے بجیں گے اور دوگنی رفتار سے بجیں گے۔ اللہ، پھر بھلا کرے۔
_______
سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے فرمایا ہے کہ وہ کتاب لکھیں گے جو ان کے مرنے کے بعد چھپے گی۔
حیرت ہے انہوں نے اپنے مرنے کی بات کیوں کی۔ وہ کبھی نہیں مریں گے۔ ان جیسے کبھی مرتے ہی نہیں، زندہ جاوید رہتے ہیں۔ جسٹس منیر کی مثال سامنے ہے۔ کسی سے بھی پوچھ لیں کہ اسے کسی اور چیف جسٹس کا نام یا دھویا نہ ہو، جسٹس منیر کا نام یاد ہو گا
زندہ ہے منیر ازندہ ہے
منیر کے بعد الف کا اضافہ بر بنائے تقائے موزونی کیا گیا، یہ نہ لگاتے تو بے وزن ہو جاتا۔ ثاقب صاحب کے حساب میں الف کی ضرورت نہیں۔ سو سال بعد بھی یہ نعرہ پراز لفظی رہے گا، ملاحظہ فرمائے
زندہ ہے ثاقب زندہ ہے (یا زندہ ہے چاچا زندہ ہے، ڈیم والا چاچا)
چنانچہ سرکار جب جسٹس منیر کبھی مرے نہ مریں گے تو آپ کیسے مر جائیں گے۔ آپ تو سائنسی شماریات کے قاعدے کے مطابق آپ تو کہیں زیادہ لمبی عمر پائیں گے۔ کون ہوتا ہے حریف مے مرد افگن عشق آپ کے بعد…جی
وہ سنہرا زمانہ لوگ کیسے بھول پائیں گے۔ آپ کسی عمارت، دفتر، محکمے میں قدم رنجہ فرماتے تھے، برتن بھانڈے اٹھا اٹھا کر پھینکتے تھے، کسی کا موبائل فون پٹخ دیتے تھے، کسی کا گریباں پکڑتے پکڑتے بس ذرا سی کسر کے ساتھ رہ جاتے تھے، ہر افسر کی وردی اُتار کر ہتھکڑی لگانے کی سنائونی سناتے تھے۔ تاریخ میں آپ جیسا زندہ جاوید کوئی اور ہو ہی نہیں سکتا یہاں تک کہ نیب والا جاوید بھی نہیں۔
__________
آرمی چیف نے تاجروں کے ایک وفد سے ملاقات میں خوشی کی یہ خبر سنائی ہے کہ ملک کوڈیفالٹ کا کوئی خطرہ نہیں اور یہ کہ مشکل وقت پیچھے رہ گیا۔
درحقیقت موقع محل یہ مصرعہ پڑھنے کا ہرگز نہیں کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا اس لئے کہ حالات جنرل صاحب کی دی گئی اس خبر کی تصدیق کر رہے ہیں چنانچہ اعتبار ہے، اعتبار ہے اور اعتبار ہے کی تکرار بالکل برحق اور مناسب ہو گی۔
حالات اچھے ہو جائیں گے، اس بات کی اس سے بڑھ کر تصدیق اور کیا ہو گی کہ شیخ رشید نے دو تین دن پہلے پھر کہا ہے کہ
’’میرا دل ٹوٹ گیا‘‘
شیخ جی کا دل کس بات سے ٹوٹا، کیا یہ بتانے کی ضرورت ہے؟ چند روز قبل خبر آئی تھی کہ چین نے ستر کروڑ ڈالر دئیے ہیں، اس شام کو بھی شیخ جی نے کہا تھا کہ میرا تو دل ہی ٹوٹ گیا۔ شیخ جی کو وہ گانا تو یاد ہی ہو گا کہ اب جی کے کیا کریں گے جب دل ہی ٹوٹ گیا۔
بہرحال، ایک شام پہلے شیخ جی زماں پارک کی درگاہ پر حاضر ہوئے، مرشد کی زیارت کی اور بعداز زیارت یہ بشارت دی کہ ملک میں خونی انقلاب دیکھ رہا ہوں۔ بشارت دینے کا لہجہ البتہ اس بار کچھ زیادہ ہی بجھا ہوا تھا۔ وہی بات کہ جب دل ہی ٹوٹ گیا ،
__________
کون کتنا مقبول، اس بارے میں ایک سروے آیا ہے جو پی ٹی آئی کو بہت بھایا ہے۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ عمران خان بھٹو سے بھی دوگنے مقبول لیڈر ہیں اور ان کی مقبولیت کی شرح 61 فیصد بتائی گئی ہے۔
جس ادارے نے یہ سروے کیا ہے، کبھی آزاد ادارہ سمجھا جاتا تھا لیکن اب اس کی سربراہی ان کے پاس نہیں ہے جن کے پاس تب تھی۔ اب ان کے صاحبزادے یہ ادارہ چلا رہے ہیں اور وہ زماں پارک کی صبحوں اور بنی گالہ کی شاموں کے اسیر ہیں۔ مراد سعید اور زلفی بخاری سے بھی بڑھ کر خان صاحب کے عقیدت مند، نیازمند اور ارادت مند ہیں۔ چنانچہ ان کا یہ سروے نتیجہ ویسے ہی ہے جیسے کوئی خود ہی امتحانی پرچہ مرتب کرے، خود ہی جواب لکھے، پھر خود ہی خود کو ’’مارکس‘‘ الاٹ کرے اور خود ہی نتیجے کا اعلان کرے۔
غنیمت ہے کہ مقبولیت 61 فیصد بتائی گئی۔ چند ماہ پہلے پی ٹی آئی کے ایک دوسرے ایسے ہی ادارے نے یہ مقبولیت 85 فیصد بتائی تھی۔ یہ شاید پی ٹی آئی کو بعدازاں احساس ہوا کہ یہ تو کچھ زیادہ ہی ہو گیا، کچھ کم کرو تاکہ ’’معقول‘‘ نظر آئے۔ زمینی حقائق بہرحال ان ’’گرفتاران زلف‘‘ کے سروے نتائج سے قطعی مختلف ہیں، انتخابات کا ہونا البتہ شرط ہے۔
_________