پاکستان کے اس وقت کے وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے اپنے تئیں کوشش کی اور امریکہ سمیت دیگر ممالک سے پاکستان کا نام واپس لینے کی درخواست کی گئی لیکن چونکہ یہ سب کچھ طے شدہ تھا اور پاکستان کا ازلی دشمن انڈیا اس ساری لابنگ کا اصل محرک تھا اس لئے پاکستان کی طرف سے سب سفارتی کوششیں رائیگاں گئیں اور نواز شریف دور میں جون 2018 میں پاکستان کو ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں شامل کر لیا گیا۔یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ اگرچہ پاکستان اس سے پہلے بھی2013 سے 2016 تک گرے لسٹ کا حصہ رہ چکا ہے لیکن اس مرتبہ جس قدر سخت مطالبات کئے گئے ماضی میں قطعی طور پر ایسی صورتحال نہیں تھی۔ بہرحال اس وقت دنیا کے اٹھارہ ممالک ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں شامل ہیں۔ اسی طرح ایف اے ٹی ایف کی ایک بلیک لسٹ بھی ہے جس میں اس وقت دنیا کے دو ممالک ایران اور شمالی کوریا شامل ہیں۔جن ملکوں کو گرے لسٹ میں شامل کیا جاتا ہے ان پر بین الاقوامی سطح پر مختلف نوعیت کی معاشی پابندیاں لگ سکتی ہیں جبکہ عالمی اداروں کی جانب سے قرضوں کی فراہمی کا سلسلہ بھی اسی بنیاد پر روکا جا سکتا ہے۔یعنی دوسرے لفظوں میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ انٹرنیشنل اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے جن ملکوں کو بلیک میلنگ کا شکار کرنا ہو ایف اے ٹی ایف اس کیلئے ایک بدنام تریں فورم بن چکا ہے۔
ایف اے ٹی ایف کی طرف سے گرے لسٹ میں ڈالے جانے پرپاکستان نے ہر ممکن اقدامات کئے اور سب مطالبات پورے کرنے کی کوشش کی لیکن اس کے باوجود فیٹف کا جھکائو بھارت کی طرف ہے اور اگر کہا جائے کہ یہ ادارہ اس وقت پورے طور پر انڈیا کے ہاتھوں میں کھیل رہا ہے تو غلط نہیں ہو گا۔ انڈیا کے ساتھ ملی بھگت سے ہی امریکہ، برطانیہ، جرمنی اور فرانس نے انسداد منی لانڈرنگ کے ادارے کے اجلاس میں پاکستان کا نام دہشت گردوں کی مالی معاونت کرنے والے ممالک کی فہرست میں شامل کئے جانے کی تجویز پیش کی تھی۔یہ ادارہ اگرچہ منی لانڈرنگ کے حوالہ سے اقدامات کرتا ہے لیکن جماعۃالدعوۃ اور فلاح انسانیت فائونڈیشن پر تو اس طرح کا کوئی الزام ثابت ہی نہیں ہواہے۔ لاہور ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے اس سلسلہ میں واضح فیصلے بھی موجود ہیں کہ جماعۃالدعوۃ کے کسی عہدیدار پر غیر قانونی فنڈنگ اور دہشت گردی کا الزام ثابت نہیں ہے لیکن طرفہ تماشا یہ ہے کہ اس کے باوجود یہ تنظیم اور اس کے ذمہ دار فیٹف کا سب سے بڑا ٹارگٹ ہیں۔ حالیہ فیصلہ میں جن تین مطالبات پر مزید عمل درآمد کیلئے زور دیا گیا ہے ان میں سب سے بڑا یہ ہے کہ اقوام متحدہ کی طرف سے نامزد دہشت گردوں اور ان کی معاونت کرنے والے افراد کے خلاف مالی پابندیاں عائد کی جائیں تاکہ انہیں فنڈز اکٹھا کرنے سے روکاجائے اور ان کے اثاثوں کی نشاندہی کر کے منجمد کیا جاسکے۔ یعنی فیٹف کا ادارہ بھی رفاہی و فلاحی تنظیموں کے خلاف کارروائی اور پاکستان پر دبائو بڑھانے کیلئے اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کی قرارداد 1267کو ڈھال کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔ افسوس کی بات ہے کہ اس معاملہ پر بھارتی خوشنودی کیلئے یواین کی طرف سے بھی انتہائی جانبداری کا مظاہرہ کیا گیا ہے۔ جماعۃ الدعوۃ اور جیش محمد دونوں جماعتیں کشمیریوں کی تحریک آزادی کی کھل کر حمایت کا فریضہ سرانجام دیتی رہی ہیں اور غاصب بھارت کی طرف سے ان کے خلاف ہمیشہ اعتراض بھی یہی رہا ہے لیکن دلچسپ امر یہ ہے کہ دونوں جماعتوں پر پابندیاں اقوام متحدہ کی سلامتی کمیٹی کی قرارداد 1267کے تحت لگائی گئی ہیں، جو القاعدہ اور طالبان کے لیے بنائی گئی تھی۔
دنیا جانتی ہے کہ ان دونوں جماعتوں کا القاعدہ سے تعلق ہے اور نہ طالبان سے، تو پھر ان پر پابندیاں لگانے کا کیا جواز ہے؟ اور دوسری بات یہ کہ جب پاکستانی اعلیٰ عدالتیں جماعۃالدعوۃ، ایف آئی ایف اور حافظ محمد سعید کیخلاف تمام الزامات رد کر چکی ہیں تومحض بھارتی پروپیگنڈہ پر انہیں دہشت گرد تنظیموں میں شامل کرناتو اقوام متحدہ کے اپنے ہی وضع کردہ قوانین، انسانی آزادی اور حقوق کے بھی خلاف ہے لیکن ان باتوں کی طرف کوئی توجہ دینے کیلئے تیار نہیں ہے۔ یہ ایسی صورتحال ہے جس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ مسلمان ملکوں اور تنظیموں کے حوالے سے انسانی حقوق کے نام پر بنائے گئے یہ عالمی ادارے کس طرح دہرے معیار کا مظاہرہ کرتے ہیں۔
مسئلہ کشمیر سے متعلق چونکہ خود اقوام متحدہ کی قراردادیں موجود ہیں اور کشمیریوں کے حق خودارادیت کو عالمی سطح پر تسلیم کیا گیا ہے، اس لیے جماعۃ الدعوۃ اور جیش محمد کے خلاف کارروائی کرتے وقت کشمیریوں کی جدوجہد آزادی میں حصہ لینے کا قطعا کوئی الزام نہیں لگایا گیابلکہ بھارتی پروپیگنڈے کی بنیاد پر کوئٹہ میں طالبان کا دفتر کھولنے جیسے بے بنیاد الزامات عائد کر کے پابندیاں عائد کر دی گئیں۔ اقوام متحدہ کی قرارداد 1267 کے تحت جن افراد پر پابندیاں لگائی گئیں، ان کے اثاثے منجمد کرنے، اسلحہ لائسنس کی منسوخی اوربیرون ملک سفر کی پابندی کی بات کی گئی ہے۔ اقوام متحدہ کی قراردادوں میں نظربندیوں اور گرفتاریوں کی کہیں کوئی بات نہیں کی گئی مگر پاکستان میں پکڑدھکڑ کا بازار گرم کر دیا گیا ہے۔ اس کے باوجود فیٹف خوش نہیں ہوا اور گرے لسٹ میں برقرار رکھا۔عجب ستم ظریفی ہے کہ سیاست دان کرپشن اور منی لانڈرنگ اور ووٹ چوری میں جیلوں میں بند کئے جائیں تو سارے اپوزیشن سیاست دان آسمان سر پراٹھالیتے ہیں، نوازشریف باہر جانے میں کامیاب ہو گئے، حمزہ کی ضمانت ہو گئی۔علی عمران مفرور ہے اور سرے محل سے ہائیڈ پارک تک کے فلیٹ اپنی جگہ پر فیٹف کا منہ چڑا رہے ہیں۔ زرداری اور ان کی بہن کسی کونظرنہ آسکے۔گول گپے والے، فالودے والے بھی منی لانڈرنگ کے لئے آزاد ہیں اور بیرونی فنڈنگ کے کیسز الیکشن کمیشن نے دبا رکھے ہیں تاکہ فیٹف کو نظر نہ آسکیں۔فیٹف کے سامنے کشمیر کا نام لینا جرم بن گیا ہے۔ اور وہ بھی صرف چند مذہبی لیڈروں کا حالانکہ کشمیر پر بھٹو صاحب ریکا رڈ پر ہیں کہ ایک ہزار سال تک لڑوں گا، محترمہ بے نظیر نے نعرے لگائے آزادی آزادی۔ نواز شریف نے نیلا بٹ پر جوشیلی تقریر کی۔عمران خان نے جنرل اسمبلی میںکہا کہ ہم کشمیریوں کا ساتھ نہیں چھوڑ سکتے مگر یہ حقائق فیٹف کی نظروں میں نہیں آئے ۔ فیٹف نے کشمیر میں مظلوم کشمیریوں پر بھارتی جبرو ستم پر بھی آنکھیں بند کر رکھی ہیں، تفو بر تو اے چرخ گردوں تفو!!
کشمیر میں بھارت کی دہشت گردی کسی کو نظر نہیں آتی، بھارت کی آزاد کشمیر اور پاکستان میںسر جیکل سٹرائیکوںکی دہشت گردی پر بھی دنیا نے آنکھیںبند کر رکھی ہیں۔ ہزاروں کشمیری خواتین کی اجتماعی آبرو ریزی سے بڑھ کر کیادہشت گردی ہو سکتی ہے مگر فیٹف اس معاملے میں اندھی ہے۔ تلاشی کے بہانے لاکھوںنوجوان لا پتہ کر دیئے گئے ہیں۔ کشمیر کی آبادی کی ہیئت کو بدلا جا رہا ہے اور کشمیریوں کو اقلیت میں تبدیل کرنے کے لیے ہولو کاسٹ سے بڑھ کر جرائم کا ارتکاب کیا جارہا ہے مگر بھارت سے کوئی پوچھنے والا نہیں۔ تمام کشمیری لیڈروں کو جیلوں یں ٹھونس دیا گیا، اس دھونس کو بھی دہشت گردی نہیں کہا جاتا،مودی کھلم کھلا کہتا پھرتا ہے کہ اکہتر میں مشرقی پاکستان میں دہشت گردی کے ذریعے پاکستان کو دو لخت کیا گیا ۔ اب اسی انداز میں بلوچستان ،آزاد کشمیر اور گلگت کو حقوق دلوائے جائیں گے۔ یہ پاکستان کے خلاف دہشت گردی کی کھلی دھمکیاں ہیں مگر فیٹف کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔ بھارت کے کلبھوشن رنگے ہاتھوں پکڑے گئے مگر کون ہے جو بھارت کو گرے یابلیک لسٹ میں شامل کروا سکے۔ ایک پاکستان ہے جسے نشانے پر رکھ لیا گیا ہے۔
بد قسمتی سے پاکستانی عوام کو سیاسی انتشار کا شکار بنا دیا گیا ہے اور حکومت اور اپوزیشن کوباہم دست و گریبان کر دیا گیا ہے جس کی وجہ سے فیٹف کے متعصب فیصلوں پر احتجاج تک کے لئے کسی کے پاس وقت اور فرصت ہی نہیں۔
اہل پاکستان کی بے حسی اور بے اعتنائی کا عالم یہی رہا تو فیٹف کی تلوارپاکستان کے سر پہ لٹکتی رہے گی۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024