داتا دربار ہسپتال
فرزانہ
سینئر آئی سرجن اورمیڈیکل سپرنٹنڈنٹ داتا دربار ڈاکٹر محمد انعام خان نے 1983-84 ء میں علامہ اقبال میڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس کیا۔ سروسز ہسپتال میں ہائوس جاب کرنے کے بعد دو سال سروسز ہسپتال میں میڈیکل آفیسر کام کیا۔ 1986ء میں داتا دربار ہسپتال میں بطور میڈیکل آفیسر جوائن کیا اور یہاں اپنے میڈیکل کیرئیر میں ترقی کرتے ہوئے سینئر میڈیکل آفیسر، رجسٹرار ، آئی سرجن اورسینئر آئی سرجن کے عہدے پر تعینات ہوئے۔ آجکل وہ داتا دربار ہسپتال کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ سینئر آئی سرجن اورمیڈیکل سپرنٹنڈنٹ داتا دربار ڈاکٹر محمد انعام خان نے بتایا’’ داتا دربار ہسپتال میں 86ء سے ہی سٹیٹ آف دی آرٹ آئی ڈیپارٹمنٹ ہے۔ ہسپتال میں اس وقت شوگر کے مریضوں کی آنکھوں کا لیرز سے علاج کیا جاتا تھا جب دیگر سرکاری ہسپتالوں میں اس کی سہولت میسر نہیں تھی۔آنکھوںکے امراض کے علاج اور آپریشن کے حوالے سے یہاں پر جدید مشینری موجود ہے۔یہاں غریب اور مستحق مریضوں کا علاج مفت کیا جاتا ہے۔ داتا دربار میں الٹرا سائونڈ کی سہولت اس وقت موجود تھی جب سروسز، گنگا رام اور میو ہسپتال میں مریضوں کو اس کی سہولت میسر نہ تھی۔ اس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں یہاں پر ایک مدت سے مریضوں کو جدید ترین علاج معالجے اور آنکھوں کے آپریشنز سمیت مفت لینز کی سہولت میسر ہے۔ یہاں پر دو آئی آپریشن تھیٹر ہیں۔ میجر آئی تھیٹر میںہفتے میں تین دن آپریشن ہوتے ہیں اور مائنر آپریشن آئی تھیٹر میں پورے ہفتہ کام ہوتا ہے۔‘‘
ڈاکٹر محمد انعام خان نے بتایا ’’جب میں نے داتا دربار ہسپتال جوائن کیا، اس وقت سینئر آئی سرجن ڈاکٹر یقین آئی ڈیپارٹمنٹ کے ہیڈ تھے اور ڈاکٹر صفیہ مسعود میڈیکل سپرنٹنڈنٹ تھیں۔ سینئر آئی سرجن ڈاکٹر قمرالسلام لودھی بھی داتا دربار ہسپتال کے آئی کے شعبے کے ہیڈ آف دی ڈیپارٹمنٹ رہے اور 16 سال فرائض انجام دئیے۔ داتادربار ہسپتال میں آنکھوں کے تمام آپریشن فری کئے جاتے ہیں ۔داتا دربار ہسپتال آنکھوں کے لیزر ٹریٹمنٹ میں بانی ہے۔ یہاں آنکھوں کے پردوں کا لیزر سے علاج کیا جاتا ہے۔ داتا دربار ہپتال میں آنکھوں کے امراض اور آپریشن کے علاوہ دیگرامراض کاعلاج فری کیا جاتا ہے۔آنکھوں کے امراض اور سفید موتیا کے آپریشن کے لیے روزانہ درجنوں مریض آتے ہیں۔ ‘‘
٭ یہاں مریضوں کو علاج کی کون کون سی سہولیات دستیاب ہیں؟
ج: داتا دربار ہسپتال میں آنکھوں کے امراض کے علاج اور سرجری کا ایک مکمل یونٹ ہے جو بہترین کام کر رہا ہے۔ سرجری کے لئے تمام جدید مشینری اور آلات دستیاب ہیں۔ غریب اور مستحق مریضوں آئی لینزز بھی مفت لگائے جاتے ہیں۔ سفید موتیا، کالا موتیا، متاثرہ پردہ بصارت اور بھینگے پن کا تسلی بخش علاج کیا جا رہا ہے۔ جدیدلینز موتیا آنے سے پہلے کی نظر کی کمزوری کو بھی کور کر لیتے ہیں ۔ مریض کو موتیا کا آپریشن کرانے کے بعد نظر کی عینک نہیں لگانی پڑتی۔ اس کو ملٹی فوکل لینز کہتے ہیں اس کا نام ریسٹور ہے۔ تقریباً آٹھ دس سال سے یہ لینز لگا رہے ہیں اور یہ لینز دور اور نزدیک کی نظر کی کمزوری کو بھی کور کرتا ہے۔ مینو فوکل لینز دور کی نظر کو کور کرتا تھااور قریب کی نظرکی عینک لگانی پڑتی تھی ۔ پہلے نظر کاspherical نمبر لینز سے کور ہوتا تھا ابcylinder نمبر بھی کور ہوتا ہے اسے Toric لینز کہتے ہیں۔
٭ آنکھوں کی کن بیماریوں سے لوگ زیادہ متاثر ہوتے ہیں؟
ج: آنکھوں کی بیماریوں میں کالا موتیا کے علاوہ سفید موتیا زیادہ اورکا رنیا کی بیماریاں عام ہیں ۔ کارنیا میں انفیکشن جراثیم یا چوٹ لگنے کی وجہ سے ہوسکتی ہے ۔انفیکشن یا چوٹ سے کارنیا میں زخم بھی ہوجاتا ہے اس زخم میں پیپ پڑسکتی ہے، Abscessہو سکتا ہے اس کے علاوہ کارنیا میںکسی وجہ سے دھند لاپن آجاتا ہے ۔ کارنیا شفاف چیز ہے اور اسے شفاف ہی رہنا چاہئے اگر اس پر داغ دھبہ پڑجائے تو نظر میں دھندلاپن آجاتا ہے۔انفیکشن وائرل بیکٹریا اورٖfungal وغیرہ ہوسکتی ہے ۔ اس کے علاوہ کارنیا میں پیدائشی طور پر بھی نقص ہو سکتا ہے مثلاً کارنیا کی گولائی میں فرق اور دھندلاپن بھی آجاتا ہے۔ اگر کارنیا کسی وجہ سے کلیئر نہ ہو تو نظر کمزور ہوجاتی ہے۔ آئی فوکسنگ بنیادی طور پر کارنیا پر ہی ہوتی ہے اس لیے کارنیا میں کچھ بھی مسئلہ ہو اس سے نظر پر اثر پڑتا ہے۔
٭ آنکھوں کی پیدائشی بیماریاں کون کون سی ہیں؟
ج:آنکھوں کی پیدائشی بیماریاں بہت سی ہیں۔ نوزائیدہ بچے کو سفید موتیا موروثی بھی ہو سکتا ہے یا پھراگر ماں نے دورانِ حمل بیماری میں ممنوعہ ادویات استعمال کی ہوں تو ان دوائیوں کا سائیڈ افیکٹس ہو گیااور جب بچہ پیدا ہوا اس کی آنکھوں میں سفید موتیا ہوتا ہے۔ سفید موتیا ایک سفید سی جھلی ہوتی ہے جو آنکھ کے شیشے میں ہوتی ہے۔ سفید کے علاوہ کالا موتیا بھی پیدائشی ہو سکتا ہے اور یہ بیماریاں قابل علاج ہیں جس بچے کو سفید یا کالا موتیا ہوتا ہے اس کو کم دکھائی دیتا ہے۔ وہ آئی ٹو آئی رابطہ نہیں کرے گا۔ دوسرا آنکھ کی کالی پتلی پر سفیدی نظر آئے گی۔ کالا موتیا میں شروع میں آنکھوں میں زیادہ پانی آتا ہے روشنی میں بچہ آنکھ نہیں کھولتا۔ اس کے علاوہ آئی بال کا سائز بڑا ہو جاتا ہے۔
٭ آنکھوں کا ٹیڑھا پن پیدائشی ہوتا ہے؟
ج: آنکھوں کے ٹیڑھے پن کی کوئی نہ کوئی وجہ ہوتی ہے اور یہ پیدائشی بھی ہو سکتا ہے۔ اس کی دو وجوہات ہیں ایک تو نظر کمزور ہو، خاص کر ایک آنکھ کی نظر کمزور ہو تو آنکھ میں ٹیڑھاپن آ جائے گا۔ اگر نظر ٹھیک ہے مگر آنکھ کے پٹھے کمزور ہیں تو تب بھی آنکھ ٹیڑھی ہو جائے گی۔ یہ نقص قابل علاج ہے۔ اگر کسی آنکھ کی نظر ختم ہو جائے یا کم ہو جائے اور وہ ٹیڑھی بھی ہو، ہم اس آنکھ کے ٹیڑھے پن کو ٹھیک کر دیتے ہیں مگر سرجری کے بعد وہ دوبارہ پھر ٹیڑھی ہو سکتی ہے۔ جن بچوں کی آنکھ کا ٹیڑھا پن چشمہ لگانے سے ٹھیک ہو جاتا ہے ان کو سرجری کروانے کی ضرورت نہیں۔ اب لیزر ٹریٹ منٹ سے نظر بہتر کی جاسکتی ہے اور پھر نظر کا چشمہ لگانے کی ضرورت بھی نہیں پڑتی۔
٭ سفید موتیا کا آپریشن ہونے کے بعد دوبارہ ہو سکتا ہے؟
ج: سفید موتیا کو سرجری سے ختم کر دیا جاتا ہے مگر یہ بعد میں کبھی دوبارہ بھی ہو سکتا ہے۔ اس میں پریشانی کی کوئی بات نہیں ہے یہ ایک جھلی کی مانند ہوتا ہے جس کو لیزر سے صاف کر دیا جاتا ہے۔
٭: کس موسم میں آنکھوں کی بیماریاں زیادہ ہوتی ہیں؟
ج: ہر موسم کی اپنی بیماریاں ہوتی ہیں۔ گرمیوں کے موسم میں جراثیم اور گردو غبار زیادہ اڑتا ہے ۔ گرمیوں کے موسم میں صفائی کی صورتحال بھی بہتر نہیں ہوتی اس لئے وائرس پھیل جاتا ہے۔ لوگوں میں آشوب چشم کی بیماری عام ہوجاتی ہے ۔آنکھوں میں ڈسٹ الرجی سے خارش اور سرخی ہوتی ہے۔ سورج کی روشنی سے آنے والی مضر شعاعیں بھی آنکھوں کو متاثر کرتی ہیں۔
٭ سرمہ یا کاجل کا استعمال آنکھوں کے لیے نقصان دہ ہے؟
ج: خالص سرمہ یا کاجل کا استعمال آنکھوں کیلئے نقصان دہ نہیں ہوتا، مگر کیمیکل کے استعمال سے بنا مصنوعی سرمہ یا کاجل کا استعمال سو فیصد آنکھوں کیلئے نقصان دہ ہے۔ پہلے لوگ عرق گلاب ڈال کر خالص سرمہ خود پیس کر بناتے تھے۔ خالص سرمہ میں اینٹی بائیوٹک ہوتے ہیں وہ آنکھوں کو جراثیم سے بچاتے ہیں۔
٭ عرق گلاب کا استعمال کمزور نظر کو بہتر کر دیتا ہے؟
ج: میڈیکلی ایسی کوئی بات سامنے نہیں آئی ہے۔ خالص عرق گلاب آپ کی آنکھوں کی صفائی کے لیے بہترین ضرور ہے۔
٭ کس عمر میں نظر کا کمزور ہونا قدرتی عمل ہے؟
ج: چالیس سال کی عمر کے بعد قریب کی نظر کی عینک ضرور لگتی ہے بے شک دور کی نظر بالکل ٹھیک ہو۔ اگر کسی شخص کی دور کی نظر کمزور ہے اور اس کو نظر کا منفی نمبر لگا ہوا ہے تو پھر اس کو قریب کی عینک لگانے کی ضرورت نہیں ہے۔ اگر دور کی نظر کا نمبر "+" میں ہے تو اسے نزدیک کی نظر کے لیے موٹے شیشے کی عینک لگانی پڑتی ہے۔
٭ نظر کے لینز لگانے کے نقصانات ہیں؟
ج: جی ہاں! نظر کے اور کاسمیٹک لینز لگانے کا بہت رواج ہے۔ اگر اس کی احتیاطی تدابیر پر عمل نہ کیا جائے تو یہ آنکھوں کے نقصان کا باعث بن سکتے ہیں۔ لینز کی انفیکشن سے آنکھ میں زخم ہوسکتا ہے جس کا علاج بڑی مشکل سے ہوتا ہے۔
٭ آنکھوں کی ککرے کی بیماری کے بارے میں کچھ بتائیں؟
ج۔ ککرے جراثیم سے آنکھوں میں معمولی تکلیف سے لے کر آنکھ ضائع بھی ہوسکتی ہے۔ یہ بیماری کی شدت پر ہے۔ شروع میں تو آنکھ میں رڑک پڑتی ہے، پانی نکلتا ہے، آنکھ سرخ ہوجاتی ہے۔ اگر بروقت علاج نہ ہو تو تکلیف بڑھتی جاتی ہے۔ اگر یہ بیماری بڑھ جائے تو آنکھیں کی لیشز مڑ جاتی ہیں۔ ککرے ایک انفیکشن ہے، انفیکشن بڑھ جائے تو کارینہ پر زخم ہوجاتا ہے جس سے نظر میں دھندلاپن بھی آسکتا ہے اور نظر بالکل ختم ہوسکتی ہے۔
٭ آنکھوں کی کونسی بیماری دنیا بھر میں عام ہے؟
ج:دنیا میں سب سے زیادہ بلائنڈنیس ہے اور جس میں نظر ضائع ہورہی ہے۔
گفتگو سمیٹے ہوئے سینئرآئی سرجن اور میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر محمد انعام خان نے بتایا’’آنکھیں ہمارے چہرہ کا سب سے متاثر کن اور نازک حصہ ہیں۔ آنکھیں چہرہ کی خوبصورتی بڑھانے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں اور اگر ان میں کچھ نقص پیدا ہو جائے تو یہ ہمارے چہرے کو بدنما بنا سکتی ہیں۔ اس لئے آنکھوں کی حفاظت کرنا اور انہیںمختلف بیماریوں سے بچانا بہت ضروری ہے۔ اپنی آنکھوں کی بینائی کا خیال رکھنا چاہیے۔ آنکھوں کی بہتر حفاظت کیلئے ایسی خوراک استعمال کرنی چاہیے جس میں وٹامنز اے، بی ٹو اور وٹامن سی کی وافر مقدار موجود ہو۔ جیسے گاجر اور پالک وغیرہ۔ اسی طرح سلاد، ہرے پتے والی سبزیاں، مچھلی، پھل، پیلی سبزیاں اور اورنج وغیرہ بکثرت استعمال کرنے چاہیے۔ نیند کی کمی اور کام کی زیادتی بھی آنکھوں کیلئے بہت نقصان دہ ہے لہٰذا ان باتوں سے بچنے کیلئے نیند پوری لینی چاہئیے ۔ دھوپ میں کالا چشمہ پہن کر نکلنا چاہئیے۔گرمیوں میں وائرل انفیکشن، آشوب چشم اور آنکھوں کی الرجی ہو جاتی ہے۔ اس موسم میں آنکھوں کی بہت احتیاط کی ضرورت ہے۔