عبدالولی خان یونیورسٹی میں مشتعل ہجوم کے ہاتھوں قتل ہونے والے طالبِ علم مشال خان کے قتل کے مرکزی ملزم کو 3 روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کردیا گیا۔ پولیس کی جانب سے مرکزی ملزم عارف کو سخت سیکیورٹی میں بکتر بند گاڑی میں پہلے مردان کی انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت میں پیش کیا گیا، تاہم جج کی غیر حاضری کے باعث انہیں پھر سیشن عدالت میں پیش کیا گیا۔عدالت میں پیشی کے دوران پولیس کی جانب سے ملزم عارف کے 10 روزہ ریمانڈ کی استدعا کی گئی، جسے عدالت نے مسترد کرتے ہوئے صرف 3 روزہ جسمانی ریمانڈ پر ملزم کو پولیس کے حوالے کردیا۔خیال رہے کہ گزشتہ روز پولیس کی جانب سے مشال خان قتل کیس کا مرکزی ملزم عارف کو گرفتارکرنے کا دعوی کیا گیا تھا۔یاد رہے کہ مشال خان کے قتل کے بعد ملزم عارف نے ایک اشتعال انگیز تقریر کی تھی جس میں اس نے مشال خان کے قتل کو جائز قرار دیا تھا۔اس حوالے سے ذرائع کا کہنا تھا کہ ملزم عارف ترکی میں مقیم تھا اور چند روز پہلے ہی مردان واپس آیا تھا۔ملزم کی گرفتاری کے بارے میں پولیس نے کہا تھا کہ ملزم عارف کی گرفتاری کے لیے خصوصی ٹیم تشکیل دی گئی تھی، جس نے خفیہ اطلاع پر اسے گرفتار کیا۔یاد رہے کہ 23 سالہ مشال خان کو 13 اپریل 2017 کو خیبر پختونخوا (کے پی) میں عبدالولی خان یونیورسٹی میں توہین رسالت کے الزام پر ہجوم نے تشدد کانشانہ بنا کر قتل کر دیا تھا۔پشاور ہائی کورٹ نے مشال خان کے والد کی جانب سے درخواست پر مقدمے کو مردان سے اے ٹی سی ایبٹ آباد منتقل کرنے کا حکم دیا تھا۔اے ٹی سی نے مقدمے کی سماعت کا آغاز ستمبر میں کیا تھا جبکہ یونیورسٹی کے طلبا اور اسٹاف کے اراکین سمیت گرفتار 57 مشتبہ افراد پر فرد جرم عائد کی گئی تھی اور گرفتار ملزمان کی ضمانت کی درخواست بھی مسترد کی گئی تھی۔مقدمے کی سماعت کے دوران عدالت کے سامنے 50 گواہوں کے بیانات قلم بند کیے گئے اور وکلا کی جانب سے ویڈیو ریکارڈ بھی پیش کیا گیا جس میں گرفتار ملزمان کو مشال خان پر تشدد کرتے ہوئے دیکھا جاسکتا تھا۔یاد رہے کہ مشال خان قتل کیس کے حوالے سے تحقیقات کرنے والی جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) نے اپنی رپورٹ میں انکشاف کیا تھا کہ قتل باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت کیا گیا تھا۔۔#/s#
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024