24 ویں آل پاکستان اہل حدیث کانفرنس امام کعبہ کی خصوصی آمد
تحریر: ڈاکٹر ابن یوسف
مسلم معاشرے کے نظام حیات کیلئے کتاب و سنت ہی اس کا بنیادی سر چشمہ ہے۔ سرور کائناتؐ کے بعد اصحاب رسولؐ کی جماعت تکمیل انسانیت اور اخلاق و اعمال حسنہ کا اکمل نمونہ ہے۔ آج مرکز ی جمعیت اہل حدیث پاکستان اسی دین حنیف کی ترجمانی کا فریضہ انجام دے رہی ہے۔وہ دن دور نہیں جب پوری دنیا صرف قرآن و سنت ہی کو اپنا مرکز اطاعت قرار دینے لگے گی۔اس جستجو و سعی کے تحت مرکزی جمعیت اہل حدیث کے زیر اہتمام کالا شاہ کاکو میں 24ویں ’’آل پاکستان اہل حدیث کانفرنس‘‘ کا آج دوسرا روز ہے۔ کانفرنس کی صدارت مرکزی امیر سینیٹر پروفیسر ساجد میر کر رہے ہیں جبکہ نظامت سینیٹر حافظ عبدالکریم کر رہے ہیں۔ کانفرنس میں امام کعبہ الشیخ صالح آل طالب حفظہ اللہ مہمان خصوصی کے طور پر شرکت کر رہے ہیں۔ علاوہ ازیں کانفرنس میں ملک و بیرون ملک سے جید علمائ‘ دانشور اوردینی جماعتوں کے زعماء کی کثیر تعداد شریک ہے۔ کانفرنس میں اس بار ملکی سلامتی‘ خودمختاری اور تحفظ ختم نبوت اور دفاع حرمین کے موضوعات کو خصوصی اہمیت دی گئی ہے۔جس میں پروفیسر ساجد میر کی قیادت میں مسلک اہل حدیث کی فکر کے تحت صالح اور باکردار لوگوں کی تحریک کو اجاگر کیا جارہا ہے۔ جماعت کی اختیار کردہ سیاسی پالیسی کو اس قدر پذیرائی ملی ہے کہ آج مخالف بھی اس کو رشک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ مرکزی جمعیت اہل حدیث پاکستان وطن عزیز کو اسلامی فلاحی مملکت کے طور پر دیکھنا چاہتی ہے اور اس کی اعلائے کلمۃ اللہ کے لئے جدوجہد بھی اسی مقصد کے پیش نظر ہے۔ یہ اپنے اہداف میں جہاں قرآن و سنت کے نفاذ کو اولین ترجیح دیتی ہے وہیں اس ملک میں ویلفیئر کا جامع پروگرام بھی رکھتی ہے۔ جماعت کے زیر اہتمام ملک بھر میں چلنے والے فری ہسپتال‘ ڈسپنسریاں ‘ ایمبولینس سروس اور فلاحی اداروں کی ایک طویل فہرست ہے۔ملک میں آنے والی قدرتی آفات میں جماعت کی انسانیت کی فلاح وبہبود کیلئے خدمات کا ایک طویل سلسلہ ہے۔ آج وطن عزیز کی نظریاتی و جغرافیائی سرحدوں پر خطرات منڈلارہے ہیں‘ آل پاکستان اہل حدیث کانفرنس ملک میں اسلامی انقلاب کا پیش خیمہ ثابت ہوگی۔ اس تناظر میں ’’آل پاکستان اہل حدیث کانفرنس‘‘ سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے ۔سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان تعلقات اور محبت کا محور حرمین شریفین ہے جس سے ہرکلمہ گو کی عقیدت ومحبت لا زوال ہے۔ شاہ فیصل شہید عرب حکمرانوں میں اپنی مثال آپ تھے اور آپ کو قرآن و سنت سے والہانہ عقیدت تھی امت کے اتحاد کا درد تھا، اس لئے انہوں نے او آئی سی کی سطح پر مسلمان ممالک کو ایک چھت کے نیچے جمع کرنے میں ہمیشہ نمایاںکردار ادا کیا۔امام حرم مکی شیخ صالح بن محمد ابراہیم آل طالب کی اس کانفرنس میں خصوصی شرکت بلا شبہ امن وسلامتی کی راہ میں ایک قابل تعظیم خدمت ہے۔ امام کعبہ پاکستان سے محبتیں سمیٹنے ہمارے درمیان موجود ہیں۔
شیخ صالح آل طالب انتہائی معتدل اور نفیس شخصیت کے مالک ہیں۔انتہائی بر محل اور دھیمے لہجے میں گفتگو ان کا خاصہ ہے۔ ان کی ذہانت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں، وہ ’’تہذیب و ثقافت کی اشاعت میں مسجد الحرام کا کردار‘‘ ’’نو مسلموں کے احکام‘‘جیسی شہرہ آفاق کتب کے ساتھ ساتھ دیگر کتابوں کے بھی مصنف ہیں۔ پاکستان آمد پر مرکزی جمعیت اہل حدیث کی طرف سے شائع کردہ ا ن کے 33 خطبات پر مشتمل کتاب جب انہیں پیش کی گئی تو وہ بڑے حیران ہوئے انکی خوشی دیدنی تھی۔
امام کعبہ نے اپنے دورے کے دوران مختلف اجتماعات اور فودسے گفتگو میں اسی عزم کا اظہار کیا کہ مقدس مقامات کی حفاظت ودفاع تمام مسلمانوں پر فرض اور واجب ہے۔ سعودی عرب اور پاکستان میں دہشت گردی ایک سوچا سمجھا منصوبہ ہے اور دہشت گردی کی سر پرستی کرنے والے عناصر پر کڑی نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ آپ نے فرمایا کہ اس وقت عالم اسلام پاکستان کی طرف دیکھ رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ پاکستان کی حفاظت فرمائے اور اتحاد امت کو عالم اسلام کی ترقی کا ذریعہ بنائے۔ مسلم ممالک کا اتحاد کسی مخصوص ملک کے خلاف یا حفاظت کے لئے نہیں بلکہ دہشت گردی خلاف قائم کیا گیا ہے۔ ہم امن و محبت والی امت ہیں نہ کہ قتل و غارت کو فروغ دینے والوں میں سے۔ دینی مدارس خیر و برکت کا ذریعہ ہیں جہاں دین کی تعلیم پہنچانے کے ساتھ ساتھ دہشت گردی کی مخالفت کی جاتی ہے ۔ دہشت گردی کسی بھی معاشرے اور ملک کو اقتصادی طور پر مفلوج کر دیتی ہے۔ لہٰذا آج تمام مسلمان مل کر دہشت گردی کے خلاف کھڑے ہو جائیں۔ ہماری ترقی کا دارومدار قرآن و سنت پر ہے اور قرآن و سنت ہمیں اللہ کے رسولؐ اور صحابہؓ کے ذریعے ملی ہے۔
بلاشبہ امام کعبہ شیخ صالح آل طالب کا دورہ پاکستان دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں اک نئی روح پھونکنے کا باعث ہے۔ امام کعبہ کی وسعت نظری ،عالمی حالات سے آگاہی ،مختلف ممالک کی داخلہ و خارجہ پالیسی سے واقفیت کی وجہ سے انہوں نے شر کے خلاف بڑے حکیمانہ انداز و استدلال سے امہ کو درپیش مسائل کا احاطہ کیا ہے ۔ امام کعبہ نے جس اسلوب سے حرمین سے عقیدت و محبت کا اظہار اور دفاع حرمین کی خاطر والہانہ انداز میں اپنی جانیں تک قربان کرنے کا عہد کیا واقعتا اس کی نظیر نہیں ملتی۔فرزندان توحید نے ان کے اس جذبہ تعاون پر دل کی گہرائیوں سے انہیں خراج عقیدت پیش کیاہے۔ امام کی آمد سے قرآن وسنت کے حاملین کو نئی تقویت اور حوصلہ ملا ہے، مدارس و مکاتب کے طلبائ، آئمہ کرام اورخواص و عوام میں جذبہ عقیدت کو نئی جلا ملی ہے۔ جس کے نتیجے میںپاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات میں دراڑیں ڈالنے والی منفی قوتیںاپنے عزائم میں نا مراد رہیں گی۔آج جمعہ کے تاریخی اجتماع میں امام صاحب ملک وقوم کو اتحاد امت کے اسی باب کا درس دیں گے اور عالم اسلام کے مسائل اور ان کا حل پیش کریں گے۔ کانفرنس میں مرکزی ناظم اعلیٰ سینیٹر حافظ عبدالکریم، مولانا عبدالرشید حجازی ،شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر کے فرزندان حافظ ابتسام الٰہی ظہیر‘ حافظ معتصم الٰہی ظہیر اور حافظ ہشام الٰہی ظہیر بھی شریک ہیں، کانفرنس میں اہل حدیث اپنی قوت اتحاد اور یکجہتی کا مظاہرہ کر رہی ہے۔
فنش،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،