عقیدہ ختم نبوت کی اہمیت و ضرورت
تحریر: مولانا مجیب الرحمن انقلابی
عقیدہ ختم نبوت کا تحفظ ہر مسلمان کی ذمہ داری اس کے ایمان کا تقاضہ، آخرت میں حصول جنت اور شفاعتِ رسول ؐ کا ذریعہ ہے۔ قرون اولیٰ سے لے کر آج تک پوری امت مسلمہ کا اجماع چلا آرہا ہے کہ حضور اکرمؐ کے بعد نبوت کا دعویٰ کفر ہے بلکہ امام اعظم امام ابو حنیفہ ؒ کا تو یہ فتویٰ ہے کہ حضور خاتم الانبیائؐ کے بعد مدعی نبوت سے دلیل طلب کرنا یا معجزہ مانگنا بھی کفر ہے۔ اس سے عقیدہ ختم نبوت کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے خلیفہ اول حضرت ابو بکر صدیقؓ اور دیگر صحابہ کرامؓ نے عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ کیلئے جو عظیم قربانیاں دیں وہ تاریخ کے روشن صفحات میں موجود ہے۔
دین کی تکمیل کا مطلب یہ ہے کہ یہ دین اب قیامت تک باقی رہے گا‘ اب اس میں کسی تبدیلی‘ کسی اضافہ‘ کسی ترمیم کی گنجائش نہیں۔ لہٰذا جب دین مکمل ہوچکا ہے تو انبیاء کرام علیہم السلام کی بعثت کا مقصد بھی مکمل ہوچکا‘ لہٰذا آنحضرت ؐ کے بعداب نہ کسی نبی کی ضرورت ہے اور نہ کسی نبی کی گنجائش۔ لہٰذا آپ کی رسالت کے ساتھ ساتھ آپ کی ختم نبوت کا بھی اعلان کردیا گیا اور نبوت و انبیاء کا جو سلسلہ حضرت آدمؑ سے شروع ہوا تھا‘ وہ سلسلہ آنحضرتؐ پر ختم کردیا گیا۔ حضرت محمد مصطفی ‘ احمد مجتبیٰؐکے آخری نبی ہیں‘ آپؐ کے بعد قیامت تک کوئی نبی نہیں آئے گا‘ آپ پر جو کتاب نازل ہوئی قرآن کریم وہ اللہ کی آخری کتاب ہے اس کے بعد کوئی کتاب نازل نہیں ہوگی اور آپ کی امت آخری امت ہے جس کے بعد کوئی امت نہیں۔انیسویں صدی کے آخر میں جب قادیانیت کے کفریہ عقائد و نظریات اور ملحدانہ خیالات سامنے آئے تو علماء کرام نے اس کا تعاقب کیا اور اس کے مقابلہ میں میدان عمل میں نکلے ۔ مرزا قادیانی کے فتنہ سے نمٹنے کیلئے انفرادی اور اجتماعی سطح پر جو کوششیں کی گئیں ان میں بڑا اہم کردار علماء دیوبند کا ہے ، بالخصوص حضرت علامہ انور شاہ کشمیری ؒ اور امیر شریعت سید عطا اللہ شاہ بخاریؒ کی خدمات اور مساعی اس سلسلہ میں امت مسلمہ کے ایمان کے تحفظ و بقاء کا سبب ہیں ۔ بعد میں ان کے متعدد شاگردوں نے بھی اس تحریک کو زندہ رکھا جن میں مولانا بدر عالم میرٹھی ؒ ‘ مولانا مرتضیٰ حسن چاند پوری ؒ‘ مولانا مناظر احسن گیلانی ؒ‘ مولانا محمد ادریس کاندھلویؒ ‘ مولانا محمد علی جالندھریؒ‘ مولانا محمد یوسف بنوریؒ‘ ‘ مولانا محمد منظور نعمانی ؒ وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ علاوہ ازیںجدید طبقہ تک اپنی آواز پہنچانے کے لئے انہوں نے مولانا ظفر علی خانؒ اور علامہ محمد اقبالؒ کو تیار و آمادہ کیا۔
حضرت علامہ انور شاہ کشمیریؒ نے اس کام کو باقاعدہ منظم کرنے کے لئے تحریک آزادی کے عظیم مجاہد حضرت مولانا سیّد عطاء اللہ شاہ بخاریؒ کو امیر شریعت مقرر کیا اور انجمن خدام الدین لاہور کے ایک عظیم الشان جلسہ میں آپ کے ہاتھ پر بیعت کی‘ اس اجلاس میں پانچ سو جید اور ممتاز علماء و صلحا موجود تھے‘ ان سب نے حضرت سیّد عطاء اللہ شاہ بخاری کے ہاتھ پر بیعت کی۔
امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاری ؒنے تحریک آزادی کے بعد عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ کیلئے اپنے آپ کو وقف کر دیا اور قید وبند کی صعوبتوں کا مردانہ وار مقابلہ کیا اور پورے ملک میں بڑھاپے اور بیماری کے باوجود جلسوں سے خطاب کرتے ہوئے قادیانیت کے کفر کو بے نقاب کر کے نسل نو کے ایمان کی حفاظت میں اہم کردار ادا کیا۔ حضرت علامہ شمس الحق افغانی ؒ فرماتے ہیں کہ جب حضرت انور شاہ کشمیری ؒ کا آخری وقت تھا کمزوری بہت زیادہ تھی ، چلنے کی طاقت بالکل نہ تھی ، فرمایا کہ مجھے دارالعلوم دیوبند کی مسجد میں پہنچا دیں ، اس وقت کاروں کا زمانہ نہ تھا ایک پالکی لائی گئی ،پالکی میں بٹھا کر حضرت شاہ صاحب کو دارالعلوم کی مسجد میں پہنچا دیا گیا ، محراب میں حضرت کی جگہ بنائی گئی تھی وہاں پر بٹھا دیا گیا تھا ، حضرت کی آواز ضعف کی وجہ سے انتہائی ضعیف اور دھیمی تھی ۔ تمام شاگرد حضرت انور شاہ کشمیر ی ؒ کے ارداگردہماتن گوش بیٹھے تھے آپ نے صرف دو باتیں فرمائیں ، پہلی بات تو یہ فرمائی کہ تاریخ اسلام کا میں نے جس قدر مطالعہ کیا ہے اسلام میں چودہ سو سال کے اندر جس قدر فتنے پیدا ہوئے ہیں ، قادیانی فتنہ سے بڑا فتنہ اور سنگین فتنہ کوئی بھی پیدا نہیں ہوا ۔دوسری بات یہ فرمائی حضور ؐ کو جتنی خوشی اس شخص سے ہو گی جو اس کے استیصال کیلئے اپنے آپ کو وقف کرے گا تو رسول اکرم ؐ اس کے دوسرے اعمال کی نسبت اس کے اس عمل سے زیادہ خوش ہوں گے اور پھر آخر میں جوش میں آکر فرمایا ! کہ جو کوئی اس فتنہ کی سرکوبی کیلئے اپنے آپ کو لگا دے گا ، اس کی جنت کا میں ضامن ہوں ۔
حضرت مولانا خواجہ خان محمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ: ’’نماز‘ روزہ‘ حج‘ زکوٰۃ‘ تبلیغ اور جہاد جیسے فرائض کا تعلق حضور اکرم ؐ کے اعمال سے ہے اور ختم نبوت کا تعلق حضورؐ کی ذاتِ مبارک سے ہے‘ ختم نبوت کی پاسبانی براہِ راست ذات اقدس کی خدمت کے مترادف ہے۔‘‘ انٹرنیشنل ختم نبوت موومنٹ کی منظوری مکہ مکرمہ میں خواجہ خواجگان قطب الاقطاب حضرت مولانا خواجہ خان محمد قدس اللہ سرہٗ نے دی اس موقع پر مسجد الحرام بیت اللہ کے مدرس شیخ حرم فضیلۃالشیخ مولانا محمد مکی حجازی حفظہ اللہ اور انٹرنیشنل ختم نبوت موؤمنٹ کے موجودہ مرکزی امیر فضیلۃ الشیخ مولانا ڈاکٹر سعید احمد عنائیت اللہ حفظہ اللہ اور میاں فضلِ حق احراری مرحوم بھی موجود تھے۔یہ حضرت خواجہ صاحب اور اکابرین کی ہی دعائوں کی برکت ہے کہ انٹر نیشنل ختم نبوت مؤومنٹ کے سابق مرکزی امیر حضرت مولانا عبدالحفیظ مکیؒ سفیر ختم نبوت مولانا منظور احمد چنیوٹیؒاور مولانا ضیاء القاسمیؒ اور انٹرنیشنل ختم نبوت مؤومنٹ کے موجودہ مرکزی امیر ڈاکٹر سعید عنائت اللہ کی کوششوں اور محنتوں سے یہ جماعت قلیل عرصہ میں پاکستان سمیت پوری دنیا میں عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ کا فریضہ سرانجام دے رہی ہے۔اسی طرح سفیر ختم نبوت مولانا منظور احمد چنیوٹی ؒ نے جہاں پوری دنیا میں عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ کے لیے بے مثال جدوجہد کی قادیانیوں سمیت سینکڑوں غیر مسلموں نے آپ کے ہاتھ پر اسلام قبول کیاعقیدہ ختم نبوت کے تحفظ کے سلسلہ میں 11 مارچ بروز اتوار صبح 11سے نماز عصر تک انٹر نیشنل ختم نبوت مؤومنٹ کے زیر اہتمام 11 ویں سالانہ ختم نبوت کانفرس مرکزی امیر ڈاکٹر سعید احمد عنائت اللہ مدظلہٗ اورجامعہ اشرفیہ لاہور کے مہتمم حضرت مولانا حافظ فضل الرحیم اشرفی کی زیرِ صدارت منعقد ہو رہی ہے۔ جس سے تمام مکاتب فکر کے قائدین ، علماء و مشائخ شرکت و خطاب کریں گے۔