ایپکس کمیٹی اجلاس: کراچی سیف سٹی منصوبے کی از سرنو تشکیل کا فیصلہ
کراچی (وقائع نگار) اپیکس کمیٹی کے 22ویں اجلاس میں سیف سٹی پروجیکٹ سے متعلق خدشات کا اظہار کیاگیا کہ قومی احتساب بیورو(نیب)، سندھ کی مداخلت کے باعث اس میں تاخیر ہوئی ہے لہٰذا یہ فیصلہ کیاگیا کہ نیب کو اعتماد میں لے کر اس منصوبے کو دوبارہ شروع کیاجائے۔اپیکس کمیٹی کا اجلاس آج وزیر اعلیٰ ہائوس کے کانفرنس روم میں وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کی زیر صدارت منعقد ہوا۔اجلاس میں صوبائی وزیر داخلہ سہیل انور سیال، وزیراطلاعات سید ناصر حسین شاہ، وزیر قانون ضیاء الحسن لنجار، چیف سیکریٹری سندھ رضوان میمن، کورکمانڈر کراچی،ڈی جی رینجرز میجر جنرل محمد سعید، وزیر اعلیٰ سندھ کے پرنسپل سیکریٹری سہیل راجپوت، اے جی سندھ ضمیر گھمرو، آئی جی پولیس سندھ اے ڈی خواجہ، سیکریٹری داخلہ قاضی شاہد پرویز،ڈائریکٹر ایف آئی اے منیر شیخ، قائم مقام پی جی سلیم برڑو و تمام متعلقہ اعلیٰ افسران نے شرکت کی۔ اجلاس میں مدارس کا قانون، کراچی سیف سٹی منصوبہ، سائبر کرائم، اے ٹی اے کے تحت ڈیٹنشن پاورز ، اسٹریٹ کرائم کیسز، لینڈ گریبرز کے معاملات، بینکوں کی سیکیورٹی، موٹرسائیکلوں میں ٹریکرز کی انسٹالیشن، درگاہوں کی سیکیورٹی آڈٹ، معیاری رجسٹریشن نمبر پلیٹس، کچے کے علاقوں میں آپریشن پر بحث شامل تھے۔ آئی جی سندھ اور سیکریٹری داخلہ نے مدارس سے متعلق قانون کے مسودہ پر اجلاس کو آگاہی دی۔ کراچی سیف سٹی منصوبے سے متعلق اپیکس کمیٹی اجلاس میں بتایا گیا کہ نیب نے اس منصوبے میں مداخلت کی اور نیب کی وجہ سے سیف سٹی منصوبہ تاخیر کا باعث بنا۔ وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ آئی ٹی والوں کو بلاکر پروکیورمنٹ کے معاملے کو حتمی شکل دیں۔ وزیراعلیٰ سندھ نے چیف سیکریٹری کو ہدایات کی کہ کراچی سیف سٹی منصوبے کا پروسیس دوبارہ شروع کیا جائے، یہ منصوبہ مجھے ہر حال میں کرنا ہے، یہ شہر کی سیکیورٹی کے حوالے سے اہمیت کا حامل ہے۔ نیب سے بات کرکے اپنے خدشات سے آگاہ کریں تاکہ یہ منصوبہ شروع ہوسکے۔ واضح رہے کہ سیف سٹی منصوبہ کی کنسلٹنسی 40 ملین روپے سے زائد کی ہے،اس کی ابتدائی اسٹیج پر ہی نیب نے خط لکھ دیا ہے۔ مختلف ایجنسیز نے وزیراعلیٰ سندھ کو مشورہ دیا کہ یہ منصوبہ اہم ہے اس کو کسی بہتر طریقے سے لاگو کرنا چاہیے۔ شہر میں اسٹریٹ کرائم و دیگر کرائمز کی کھوج لگانا اور ان کی روک تھام کے لیے سیف سٹی منصوبہ ضروری ہے۔ اسٹریٹ کرائم قوانین سے متعلق اپیکس کمیٹی اجلاس بتایا گیا کہ جوڈیشری اکیڈمی کی مشاورت سے اسٹریٹ کرائم میں اصلاحات لائی جا رہی ہیں۔ کراچی میں جرائم کرنے کا رجحان بڑھ رہا ہے، موبائل چھینے پر بھی گولی چل جاتی ہے۔ ، اپیکس کمیٹی اجلاس میں تجویزدی گئی کہ اگر اسٹریٹ کرائم میں فائر کیا جائے تو اسکو اے ٹی سی کے زمرے میں لایا جائے۔ وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ میں چاہتا ہوں ہر حال میں اسٹریٹ کرمنلز کو سخت سے سخت سزا ملے۔ انہوں نے کہا کہ جو بھی ترمیم کرنی ہیں کریں،شہریوں کو ہر حال میں تحفظ فراہم کرنا ہے۔ ، وزیراعلیٰ سندھ نے وزیر قانون کو ہدایت کی کہ آئندہ دو ہفتوں کے اندر اسٹریٹ کرائم کی سزائیں سخت کرنے سے متعلق قانونی مسودہ کی منظوری کے لیے بھیجیں۔ اجلاس کو آگاہی دی گئی کہ جتنے سی پیک منصوبے میں پولیس اہلکار ہونگے اتنے ہی پرائیویٹ گارڈز انکو رکھنے کی ہدایت دی گئی ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ نے آئی جی پولیس کو ہدایت کی کہ نان سی پیک منصوبوں میں کام کرنے والے چائنز کو بھی سیکیورٹی دی جائے۔ آپ ان سے بات کریں اور چائنیز کی سیکیورٹی یقینی بنانے کے لیے اس کی ایس او پی بناکردیں۔ وزیراعلیٰ سندھ نے فیصلہ کرتے ہوئے کہا کہ کسی بھی چائنیز کو اگر تاجر اپنے منصوبے کے لیے لاتے ہیں تو اس کو سیکیورٹی کی ایس او پی فالو کرنا ہوگی۔ سندھ پولیس کرائم رکارڈ برانچ سے جڑا ایک سافٹ ویئر بنا رہی ہے۔ جیل سے جو بھی قیدی رہا ہوگا سافٹ ویئر کے ذریعے سب سے شیئر ہو جائے گا۔ ، وزیراعلیٰ سندھ نے آئی جی پولیس کو ہدایت کی کہ اس سافٹ ویئر کا جلد آغاز کریں۔ موٹر سائیکلوں میں ٹریکرز نصب کرنے سے متعلق اپیکس کمیٹی اجلاس کو قاضی شاہد پرویز نے بتایا کہ موٹرسائیکلوں میں ٹریکرز کی تنصیب کرنے سے متعلق قانون بنایا گیا ہے۔ محکمہ ٹرانسپورٹ جلد سندھ اسمبلی سے مجوزہ قانون پاس کروائے گی۔ وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے کہا کہ سال 2006 میں بارڈر سیکیورٹی فورس بنائی گئی تھی جس میں ہزار جوان بھرتی کیے گئے۔ وزیراعلیٰ سندھ نے آئی جی سندھ کو ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ فورس کو مزید مستحکم بنانے کے لیے ان کو تمام سہولیات فراہم کی جائیں۔
ایپکس کمیٹی