خواتین کا عالمی دن اور عاصمہ جہانگیر
۸ مارچ کو خواتین کا عالمی دن منایاگیا۔ یہ دن منانے کا مقصد دراصل یہ ہے کہ دنیا بھر میں موجود خواتین کو ان کے بنیادی حقوق سے متعلق نہ صرف آگاہی دی جائے بلکہ ان حقوق کی فراہمی کے لئے متعلقہ فورمز پر آواز اٹھائی جائے۔تاکہ آبادی کا نصف سے زائد حصہ اپنے بنیادی حقوق سے مستفید ہوکر معیاری زندگی گزار سکے ،یہاں دنیا کی پہلی تہذیب یافتہ ریاست (اسلامی سلطنت )کی طرف سے خواتین کو فراہم کئے گئے حقوق کا ذکر نہ کرنا زیادتی ہوگی۔اندازہ کیجئے وہ دور کہ جب بیٹی کی پیدائش معیوب سمجھی جاتی،بیٹی کی پیدائش پر اسے زندہ درگور کر دیا جاتا،وراثت کے حق سے محروم رکھا جاتا،خواتین بازاروں میں جانوروں کی طرح فروخت کی جاتیںایسے ماحول میں دین اسلام نے عورت کو معاشرے میں عزت و احترام کا مرتبہ دیا ۔وہ بیٹی جس کی پیدائش معیوب سمجھی جاتی اسے رحمت قرار دیا ،وراثت میں حق عطا کیا، خواتین کی خرید و فروخت کی ممانعت کی،یہ دنیا کی پہلی تہذیب یافتہ سلطنت کا ہی فیض تھا کہ اس نے جانوروں سے بھی بد تر سلوک برداشت کرنے والی مخلوق عورت کو معاشرے میں عزت،وقار اور احترام عطا کیا،وقت گزرتا رہاحکومتیں آتی جاتی رہیں ،جنگ و جدل کے معرکے ہوتے رہے ،قوانین میں تبدیلیاں آتی رہیںقوانین کی ان تبدیلیوں نے خواتین سے متعلق قوانین پر بھی اپنا اثر کیااور نئے قوانین وجود میں آئے ،دور حاضر میں اگر حوا کی بیٹی بے شمار مسائل مثلاء گھریلوں تشدد،زبردستی کی شادی ،حق وراثت سے محرومی ،بیٹی کی پیدائش پر قتل،غیرت کے نام پر قتل وغیرہ کا شکار ہے تو اس کی وجہ قوانین سے متعلق لاعلمی ہے ،ظاہری سی بات ہے جب کوئی شخص اپنے حقوق سے آگاہ ہی نہیں تو وہ کس طرح اپنے حقوق کے لئے آواز اٹھائے گا۔آج کے اس جدید دور میں بھی جمعہ نماز کے بعد ممبر سے اولاد نرینہ کی دعائوں کی آوازیں آتی ہیں یعنی یہ لوگ آج بھی بیٹی کی پیدائش معیوب سمجھتے ہیں ،اولاد نرینہ کی دعائیں مانگ مانگ کر ہلکان ہونے والوں کی خدمت میں ایک بیٹی،ماں اور بیوی کا کامیاب کردار ادا کرنے کے بعد بھی دنیا بھر میں اپنا الگ مقام اور پہچان بنانے والی شخصیت کا ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں،قانون کا طالب علم ہونے کے ناطے سینئر قانون دان ،وکلاء اور اہل علم لوگوں سے محبت اور احترام کا رشتہ رہتا ہے
ان میں سے کئی لوگ تو ایسے بھی ہیں جنہیں آج تک قریب سے دیکھا تک نہیں بلکہ ان کی تحریریں ،ٹاک شوز میں کی گئی گفتگو اور حق سچ کا ساتھ دینے کی ادا ہر صاحب ضمیر کے لئے دل عزیز ہوتی ہے انہی شخصیات میں سے ایک شخصیت محترمہ عاصمہ جہانگیر بھی ہے آگے بڑھنے سے پہلے ہیومن رائٹس اور مساوات کے لئے کام کرنے والی اس خاتون نے معاشرے میں موجود دیگر خواتین کے لئے رول ماڈل کا جو کردار ادا کیا اس پر روشنی ڈالنا ضروری سمجھتا ہوں ۔ایک ایسا معاشرہ جس میں خواتین کی تعلیم عیب شمار کیا جاتا،ایسا معاشرہ جہاں عورتیں ہر وقت عدم تحفظ کا شکار رہتی ہوں ایک ایسا معاشرہ جس نے خواتین کو تنہا سڑک پار کرنے تک کے حوصلے سے محروم رکھا اور ایسا معاشرہ کہ جس میں بیٹیاں آج بھی بوجھ تصور کی جاتی ہوں اس حبس زدہ اور گھٹن سے بھرپور ماحول میں ایک ایسی خاتون کی جس نے اپنی جگہ خود بنائی اپنا مقام اپنا منصب خود سیٹ کیا جس نے تاریخ میں پہلی خاتون صدر سپریم کورٹ بار کا الیکشن جیتا ‘ جمہور اور جمہوریت کا علم بلند کیا ہساری زندگی اصول پرستی،حق پرستی،انسانیت،مظلوموں کی حمایت،پسے ہوئے طبقے کی نمائندگی،سماجی طور پر بد حال خواتین کی خدمت،ریاستی دہشت گردی،نامعلوم افراد کی بازیابی،قانون کی بالا دستی اور جمہوریت و جمہور کے لئے وقف کر دی۔سن باون میں شروع ہوا سفر حیات ۲۰۱۸ کو تمام ہوا،یوں مظلوم ،محروم اور پسے ہوئے طبقے کی نمائندہ مضبوط آواز ہمیشہ کے لئے خاموش ہو گئی،محترمہ عاصمہ جہانگیر تو رخصت ہو گئیںلیکن جاتے جاتے یہ سبق خواتین سمیت تمام مردوں کو دے گئیں کہ جینا ہے تو ڈٹ کر جیو،مظلوم،محروم اور پسے ہوئے طبقے کی مضبوط آواز بن جائو،یوں بھلے تم اس دنیا سے رخصت ہو جائو لیکن لوگوں کے زہنوں میںتم ہمیشہ زندہ رہو گے،اور یہی دائمی زندگی ہے کہ لوگ تمھارے کردار اور خدمات کویاد کرکے ذکر خیر کریں۔