حقیقی لطف مل بانٹ کر کھانے میں ہے
دسمبر میں یہ خبر میڈیا کی زینت بنی تھی کہ چین کی ایک مقامی ائر لائن کمپنی کی ائر ہوسٹس نے مسافروں کو پیش کرنے سے 45منٹ پہلے ہی ان کا کھانا تناول فرمانا شروع کر دیا۔ اس کی حرکت جب سوشل میڈیا پر عام ہوئی تو اسے اپنی ملازمت سے ہاتھ دھونا پڑے۔ مسافروں کے کھانے سے ایک دولقمے کھا لینا اس کے حقہ پانی بند ہونے کا باعث بنا۔
ائر لائن کمپنی نے غالباً بلا تحقیق اپنی ائر ہوسٹس کو ملازمت سے نکال دیا۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا اس واقعہ پر ایک جے آئی ٹی تشکیل دی جاتی اور مذکورہ ائر ہوسٹس سے اس کے عمل کی وضاحت طلب کی جاتی ہو سکتا ہے اس نے یہ عمل کسی نیک نیتی کی بناء پر کیا ہو۔ ہو سکتا ہے کہ ائر ہوسٹس کو شک پڑا ہو اس کھانے میں کوئی زہریلی چیز گر گئی ہے اور اگر مسافر یہ کھانا کھائیں گے تو ان کی صحت کو کوئی نقصان پہنچ سکتا ہے۔۔ اس لئے اسے چکھ لیا جائے اگر اس کی اپنی صحت ٹھیک رہی تو کھانا سب کے لئے ٹھیک ہو گا۔ اور اگر اسے کوئی نقصان پہنچا تو باقی کھانا تلف کر کے مسافروں کی صحت کو بچا لیا جائے گا۔
اور یہ بھی ہو سکتا ہے ائر ہوسٹس نے کھانے کی تازگی ‘ ذائقہ اور نمک مرچ چیک کرنے کے لئے ایک دو لقمہ لیا ہو۔ ان دونوں صورتوں میں ناصرف شاباش ملنی چاہئے تھی بلکہ لوگوں کا خیال رکھنے پر ایک بونس تنخواہ بھی ملنی چاہئے تھی۔ اس نوکری سے نکالنے کا سخت فیصلہ دوسرے لوگوں کو مایوس کر دے گا اور آئندہ کوئی بھی نیکی کا کام کرنے سے کترائے گا۔
اتنے ظالمانہ فیصلے کے بعد ائر ہوسٹس کو بھی چاہئے اگلی دفعہ وہ کسی پاکستانی ائر لائن میں نوکری حاصل کر لے۔ کیونکہ یہاں ایسی نیکیاں کرنے کے وافر مواقع موجود ہوتے ہیں۔ یہاں ایسی نیکیاں اجتماعی طور پر کی جاتی ہے۔ اور ان پر پوچھ گچھ بھی نہیں ہوتی بلکہ اسے فرائض منصبی کا حصہ سمجھا جاتا ہے۔ یہاں تو مسافروں کو باسی کھانا کھلانے کا ایک زبردست رواج پایا جاتا ہے۔ کھانا چکھ کر کھلانے والوں کی یہاں بہت ضرورت ہے ہمارے مسافر ان چکھا کھانے کی وجہ سے طرح طرح کی بیماریوں کا شکار ہو رہے ہیں۔
ہمارے ہاں وقت سے پہلے افطار کرنے کا بھی رواج پروان چڑھا ہے۔ مختلف سیاسی جماعتوں کے متوالے ‘ جیالے اور ٹائیگرز اپنے رہنماؤں کی طرف سے دی گئی افطار پارٹیوں میں جھپٹنے پلٹنے اور پلٹ کر پھر جھپٹنے کا خوب مظاہرہ کرتے ہیں اور ہر بار دعوت کے بعد ان کا خون خوب گرم ہوتا ہے اور وہ اپنے لیڈران کے لئے جان بھی قربان کر دینے کے لئے تازہ دم ہو جاتے ہیں لیڈروں کو بھی پتہ ہے کہ ہر جلسے کے لئے کارکنان کو جمع کرنے کے لئے ضروری ہے ان کی پیٹ پوجا کروائی جاتی رہے۔ ورنہ پارٹی ترانوں پر جھومنے کے لئے وہ اکیلے رہ جائیں گے۔
دوسرا ان پارٹیوں کے لئے فنڈز وہ اپنی جیبوں سے تھوڑی دیتے ہیں یا تو وہ پارٹی کے جمع شدہ فنڈ سے ذاتی سیاست چمکاتے ہیں یا پھر قوم کے خون پسینے کی کمائی سے وصول شدہ ٹیکسوں سے ایسے اخراجات پورے کرتے ہیں اگر کچھ کمی بیشی ہو بھی جائے تو یہ کسر اگلی ٹرم میں منتخب ہونے کے بعد پوری کر لی جاتی ہے۔
مل جل کر کھانے کی ایک مثال حالیہ سینیٹ الیکشن میں مبینہ ہارس ٹریڈنگ میں بھی ملتی ہے مختلف پارٹیوں پر الزام ہے کہ انہو ںنے اپنے ووٹ بڑھانے کے لئے اراکین اسمبلی کو کروڑوں روپے دئے ہیں اور ظاہر ہے دینے والے کا یہ کام سینیٹر منتخب ہونے کے بعد بھی جاری رہے گا۔ اور ہو سکتا ہے کچھ اراکین کی چھ سال کے لئے مستقل تنخواہ بھی شروع کر دی گئی ہو۔ حقیقت یہی ہے حقیقی مز ہ مل بانٹ کر کھانے میں ہی ہے۔ تو کیوں نہ اس میں غریب عوام کو بھی شامل کر لیا جائے جنہوں نے ہمیشہ یہاں رہنا ہے اور اس ملک پر چڑھے قرضے کو بھی انہوں نے ہی اتارنا ہے۔