عباسی سلطنت میں ایک مشہور کردار بہلول دیوانہ کا گزرا ہے۔ ان کی شخصیت بڑی دلچسپ اور تضادات کا مجموعہ تھی۔ وہ بڑے دانا مگر درویش منش انسان تھے۔ اپنے آپ کو چھپانے کیلئے وہ دیوانگی کا پردہ اوڑھے رکھتے۔ کبھی بچوں میں شامل ہو کر ان کا ٹھٹھا اڑاتے‘ بچے ان پر پتھر برساتے تو وہ اپنی حرکتوں سے بچوں کو مزید مہمیز لگاتے۔ اسکے باوجود باذوق لوگ ان سے ملتے اور جب بہلول کا موڈ خوشگوار ہوتا تو علم و معرفت کے موضوع پر گفتگو بھی کرتے۔ ایک بار خلیفہ نے بہلول کو اپنے ایک غلام کے ذریعے بلایا۔ بہلول بڑی مشکل سے راضی ہوا۔ خیر خلیفہ کے پاس پہنچ گئے۔ خلیفہ نے ان سے پوچھا کہ مجھے بتاﺅ کہ میں اپنی سلطنت کو کس طرح مستحکم کروں؟ بہلول مسکرائے اور بولے ”اے بادشاہ تمہارے دربار میں ملک کے مانے ہوئے شاعر‘ گوئیے اور لطیفہ گو کیوں موجود ہیں؟ جب مقصد صرف شعر‘ لطیفہ اور گانا سننا ہے تو اس کیلئے اس قدر دور دور سے ماہرین بلانے کی کیا ضرورت تھی‘ یہ کام کسی درباری سے بھی لیا جاسکتا تھا۔ جس قدر انعام و اکرام تم اپنے ان مشہور شعراءاور مغنیوں کو دیتے ہو‘ اس سے تو سینکڑوں لوگ بھرتی کئے جاسکتے تھے۔ آخر تم نے اس قدر زحمت کیوں اٹھائی؟“ خلیفہ حیران ہوا کہ میرا سوال کیا تھا اور بہلول نے یہ کیا جواب دیا‘ اس نے جھنجھلا کر جواب دیا‘ بادشاہوں کے دربار میں منتخب لوگ ہی ہونے چاہئیں‘ تعداد نہیں‘ اہلیت اہم ہوتی ہے“۔ بہلول ٹھٹھا لگا کر ہنسا اور بولا ”بس یہی بنیادی فرق ہے‘ حکمران اپنی تفنن طبع کیلئے تو بہترین لوگ منتخب کرتے ہیں مگر سلطنت کے انتظام و انصرام کیلئے نااہل لوگوں کو ترجیح دیتے ہیں۔ اپنے صوبوں کیلئے بہترین گورنر منتخب کرو اور دارالخلافہ میں بھی سب سے بہتر لوگ لگاﺅ‘ تمہارا اقتدار خودبخود طویل ہوجائیگا“۔کئی سو برس گزر گئے‘ مگر بہلول دانا‘ جسے عام لوگ دیوانہ سمجھتے تھے‘ اس کا بتایا ہوا گُر آج بھی پہلے کی طرح تروتازہ ہے۔ آج کے قومی حالات کو دیکھ لیجئے‘ ہر جگہ بدانتظامی اور نالائقی نظر آتی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہمارے حکمران اپنے ذاتی استعمال کیلئے تو بہترین اشیاءکا انتخاب کرتے ہیں مگر جب عوام کی فلاح و بہتری کا معاملہ آتا ہے تو وہ اقرباپروری اور سفارش کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔ ہمارے حکمران اپنے سوٹ سلوانے کیلئے برطانیہ اور فرانس کے بہترین ڈیزائنرز سے رابطہ کرتے ہیں‘ اپنے استعمال کیلئے اعلیٰ سے اعلیٰ گاڑیاں رکھتے ہیں‘ مگر جب اہلکار منتخب کرنے کی باری آتی ہے تو ان کے نزدیک اہلیت سے زیادہ شخصی وفاداری زیادہ اہم ہوجاتی ہے۔ انگریز دور کی خفیہ رپورٹیں گواہ ہے کہ وہ اپنے غلام ملک ہندوستان میں بھی انتظام و انصرام چلانے کیلئے بہترین افسر منتخب کرتے تھے۔ بعض اوقات شاہی خاندان سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کو اچھی ملازمتیں دینی پڑتیں مگر اسکا اہتمام کیا جاتا کہ اسے کوئی انتظامی ذمہ داری نہ دی جائے۔ یہی وجہ ہے کہ انگریز ڈپٹی کمشنروں کے تیار کردہ گزیٹئر آج بھی اپنی مثال آپ ہیں۔ یہ ڈپٹی کمشنر اور دیگر افسران جہاں جہاں پوسٹنگ ہوتی‘ وہاں کی مقامی زبانیں سیکھتے اور کوشش کرتے کہ مقامی تہذیب اور کلچر کو سمجھ کر لوگوں کو ریلیف دے سکیں۔ پاکستان میں بیوروکریسی نے انگریزیوں کا رعب داب تو ورثے میں لے لیا‘ مگر ان کی فرض شناسی اور احساس ذمہ داری سے بالکل ہی پیچھا چھڑا لیا۔ ہمارے ہاں لاءاینڈ آرڈر درست کرنے اور سسٹم کو ٹھیک کرنے کے حوالے سے بحث و مباحثے عام ہیں۔ ہمارے خیال میں یہ کام بظاہر بڑا مشکل لگتا ہے‘ مگر اہل افراد کا میرٹ پر انتخاب کرنے سے یہ ممکن ہوسکتا ہے۔ ہمیں لمبی چوڑی کابینہ کے بجائے ہر صوبے میں دیانتدار اور اہل چیف سیکرٹری‘ ہوم سیکرٹری اور آئی جی پولیس چاہئیں۔ چاروں صوبوں میں صرف چند درجن ایماندار افسران کے تقرر سے بگڑا ہوا نظام بڑی حد تک سنور جائیگا۔ آزمائش شرط ہے‘ کوئی چاہے تو آزما کر دیکھ لے۔ جہاں تک ستاروں کی چالوں کا تعلق ہے‘ مارچ کا پہلا ہفتہ گزر جانے کے باوجود خطرات بدستور تک موجود ہیں۔ صدر آصف علی زرداری کو چاہئے کہ جلد سے جلد آئینی پیکیج پارلیمنٹ سے منظور کرائیں کہ دوسری صورت میں معاملات پوائنٹ آف نو ریٹرن تک پہنچ جائینگے۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38