ہیلو، ہائے، لکنگ گریٹ، ویئر ہیو یو بین، او نائس ٹو سی یو، میٹنگ آفٹر لونگ ٹائم، فیلنگ گریٹ، فیلنگ ایکسائٹڈ، فیلنگ ونڈر فل، فیلنگ فلاں، فیلنگ فلاں اس طرح کے جملے اور سٹیٹس مسلسل دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ یہ سارا کمال فیفا ٹرافی کے دورہ پاکستان کا ہے۔ جیسے ٹرافی نمائش کے لیے پاکستان آئی ویسے ہی ملک میں فٹبال بھی بس نمائشی حیثیت ہی رکھتا ہے بلکہ کھیل کی حالت تو ایسی نمائشی تقریبات سے بھی گئی گذری ہے۔ پاکستان میں فیفا ورلڈکپ ٹرافی سیر کرنے آئی اور ٹرافی کی اس سیر کو دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ گذشتہ دو روز سے پاکستان میں فیفا ورلڈکپ کا آغاز ہو چکا ہے، جہاں جہاں جسے جسے موقع ملا ہے وہ فائیو سٹار ہوٹلز میں ہونے والے مقابلوں سے لطف اندوز ہو رہا ہے، لوگ اس موقع پر اتنے پرجوش ہیں کہ فیس بک، انسٹا گرام، ٹوئٹر اور سنیپ چیٹ سٹوریز شیئر کرتے جا رہے ہیں۔ لوگ ٹرافی کے آنے پر اتنے خوش ہیں جیسے پاکستان فٹبال ٹیم نے ورلڈکپ میں شرکت کی ہے اور دنیا کی بہترین ٹیموں کو شکست دیتے ہوئے عالمی چیمپئن بننے کا اعزاز بھی حاصل کر لیا ہے۔ فیفا ٹرافی کا دورہ پاکستان ان لوگوں کے لیے تو کشش ضرور رکھتا ہے جنہوں نے سج دھج کر ہر دوسری تقریب میں پہنچنا ہے، وہاں سے وڈیوز شیئر کرنی ہیں، تصاویر لے کر سماجی رابطوں کی ویب سائٹس کی زینت بنانا ہے، جاننے والوں پر اپنی "پہنچ" کا رعب جمانا ہے لیکن کھیلوں سے تعلق رکھنے والوں کے لیے موجودہ حالات میں فیفا ٹرافی کا دورہ بیکار کی مشق ہے۔ فیفا ٹرافی کی پاکستان آمد پر خوش ہونے والوں کو دیکھ کر بیگانی شادی میں عبداللہ دیوانہ والا محاورہ یاد آتا ہے۔ ہم ایسے خوش ہو رہے ہیں جیسے پاکستان کی ٹیم ورلڈکپ کھیلنے جا رہی ہے۔ کھیل کسی اور کا، کھیلنے والے کوئی اور، جہاں ورلڈکپ ہونا ہے نہ ہمارا اس میں کوئی کردار، نہ کھیلنے والوں میں ہمارا کوئی مقام، نہ منتظمین میں ہماری کوئی اہمیت، جو جیتیں گے نہ ان سے ہمارا کوئی لینا دینا، نہ عالمی کپ میں کسی کی ہار سے ہمیں کوئی فرق پڑنا نہ کسی کی جیت سے ہمارا کوئی فائدہ۔ ہم بس ایسے ہی ٹرافی دیکھ دیکھ کر خوشی سے پاگل ہو رہے ہیں۔ زرق برق لباس بڑے بڑے چشمے لگا کر فیفا ٹرافی کی زیارت کرنے والوں کے لیے یہ دورہ ایسے ہی ہے جیسے پاکستان نے بہت بڑی کامیابی حاصل کی ہے۔ حالانکہ اس کا حقیقت سے دور دور کا کوئی تعلق نہیں ہے۔نہ پاکستان میں فٹبال کھیلا جا رہا ہے، نہ پاکستان کے فٹبالرز کو صلاحیتوں کے اظہار کے مواقع میسر ہیں، نہ فٹبال کی کوئی ایسی تنظیم ہے جو سال بھر ملک میں اور بیرون ملک کھیلوں کی سرگرمیوں کے لیے کام کرے، پاکستان کے فٹبالرز ٹیلی ویژن پروگراموں میں کھیل کے حوالے سے بات کرتے ہوئے آبدیدہ ہو جاتے ہیں۔ ایسی تقریبات سے پاکستانی فٹبالرز کا احساس محرومی بڑھتا ہے۔ کیونکہ ایک وقت میں وہ اس سارے عمل کا حصہ تھے، اندرون و بیرون ملک فٹبال کھیل رہے تھے لیکن اب وہ کھیل کے میدان سے دور ہیں۔ وہ ٹرافی جس تک پہنچنے کے لیے فٹبالرز دن رات محنت کرتے تھے انہیں اس راستے سے ہٹا دیا گیا ہے۔ جب قومی فٹبالرز دنیا کو ترقی اور اپنے میدانوں کو تالے لگے دیکھیں گے تو ان کے لیے فیفا ٹرافی کو دیکھنا کسی بڑی تکلیف سے کم نہیں ہے۔ لگ بھگ سات سال ہو چکے ہیں فٹبال کے نام پر کاروبار تو ہو رہا ہے لیکن کھیل کا کوئی وجود نہیں ہے۔ جن لوگوں نے ذاتی مفادات کے لیے ملکی فٹبال کی بنیادوں کو تباہ کیا ہے انہوں نے پاکستان کے نوجوانوں کو صلاحیتوں کے اظہار اور ترقی کا راستہ روکا ہے۔ بدقسمتی ہے کہ آج بھی اس حوالے سے کہیں کوئی سنجیدگی نظر نہیں آتی۔ کیا ہم صرف ٹرافی کی تصاویر تک محدود رہ کر ہی خوش ہیں، ہمیں اپنے اہداف پر بھی نظر ثانی کرنا ہو گی۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024