نو منتخب وزیراعظم پاکستان ، تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کہا ہے کہ عوام سے کئے گئے وعدوں کو پورا کیا جائے گااور ان کی خواہشات کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے جدو جہد جاری رہے گی۔ انسان کے سفر میں وعدوں کو بنیادی اہمیت حاصل ہوتی ہے۔ اس بات کا احساس عام طور پر کم لوگوں کو ہوتا ہے۔ زندگی کا کوئی بھی پہلو دیکھ لیں کسی نہ کسی مقام پر کوئی نہ کوئی وعدہ ضرور دکھائی دیتا ہے۔ لیکن عجیب بات ہے کہ محبت سے لیکر سیاست تک زندگی کے سفر میں کئے جانے والے وعدوں کو بہت کم اہمیت دی جاتی ہے۔ البتہ جب کسی کو یقین دلانا مقصود ہو، یا کسی موڑ ، کسی مرحلے پر یہ ضرورت محسوس کی جائے تو جس انداز میں جذبات اور احساسات کا اظہار ہوتا ہے، یہ شعر اس کی عکاسی کرتا ہے۔
میں نے سورج چاند ستارے ترے نام لکھے ہیں
جگ میں جتنے پھول ہیںسارے ترے نام لکھے ہیں
زندگی کے سفر میں اگر پیار اور محبت شامل ہو تو ایسی باتیں لوگ بے ساختہ کہہ جاتے ہیں اور انہیں احساس ہی نہیں ہوتا کہ وہ کس انتہا کو چھو کر کوئی وعدہ کر رہے ہیں یا یقین دہانی کروا رہے ہیں کیوں کہ اس وقت تو صرف دوسرے کو متاثر کرنا ضروری سمجھا جاتا ہے۔ محبت اور سیاست کے سفر میں جب خوبصورت وعدوں کا سہارا لیا جاتا ہے تو ایسا لگتا ہے ، زندگی بہت حسین اور انتہائی پُرسکون ہے لیکن ہماری زندگی میں اگر ملن ہے تو جدائی کا مرحلہ بھی آن پہنچتا ہے۔ ہجر کی کیفیت ہو تو وصل کے لمحات بھی میسر ہوجاتے ہیں۔ اسی طرح محبت کے گیت گاتے گاتے اچانک ایسا مقام بھی آجاتا ہے کہ کوئی شکایت پیدا ہوجاتی ہے، کسی بھی وجہ سے ناراضی جنم لے لیتی ہے ۔ ہجر کی کیفیت ہو یا دوری کا احساس، ’’ حسین اور خوبصورت‘‘ نظر آنے والی زندگی میں اُداسی ہی اُداسی محسوس ہونے لگتی ہے۔ شب و روز بے کیف اور پھیکے پھیکے سے گزرتے ہیں۔ ایک عجیب سا خوف، عجیب سی بے زاری ، مزاج کا غصہ بننے لگتی ہے۔اگر سیاست کے میدان کا جائزہ لیاجائے تو سابقہ ادوار میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون کے درمیان مختلف مواقعوں پر وعدے ہی وعدے نظر آتے ہیں۔ ایک سے بڑھ کر ایک وعدہ دکھائی دیتا ہے آمر کی حکومت کے خلاف مشترکہ جدوجہد کے عہد و پیماں سے لے کر معزول ججوں کی بحالی کے عزم تک، ہر قدم اور ہر موڑ پر وعدے کے سہارے آگے بڑھنے کی کوشش کی گئی لیکن مسلم لیگ نون کے سربراہ جب وعدوں کی تکمیل سے مایوس ہوگئے تو انہوں نے باقاعدہ ایک پریس کانفرنس میں پیپلز پارٹی کے چیئرمین آصف علی زرداری سے پوچھ لیا:
کیا ہوا ترا وعدہ، وہ قسم ، وہ اِرادہ۔۔۔ اور پھر میاں نواز شریف سے کئی سال پرانا دوستی اور اشتراک ِ عمل کا رشتہ توڑ دیا۔ بہت سے گِلے اور شکوے منظر عام پر لا کر بوجھل دل کے ساتھ انہوں نے راستوں کے جدا ہونے کا اعلان کر دیا۔ پھر جب آصف علی زرداری نے بار بار یہاں نواز شریف کو اپنے فیصلے پر نظر ثانی کے لئے کہا۔ انہیں دوبارہ ایک ساتھ چلنے کے لئے پُرخلوص انداز میں درخواست کی تو اس کا اثر بھی ہوا۔ انہوں نے اخباری نمائندوں سے کہا کہ اگر چہ ہمارے راستے جدا ہوگئے ہیں، لیکن جمہوریت کی خاطر آصف علی زرداری کے ساتھ تعاون جاری رہے گا۔ اس پر جب بعض حلقوں نے حیرت کا اظہار کیا تو انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے جو موقف پیش کیا۔ اس پر کچھ اس قسم کے اشعار یاد آنے لگے!
محبتوں کا سفر ختم تو نہیں ہوتا
بجا کہ دوستی آئی نہ راس لوگوں کو
ہمیںبھی اپنے کئی دوست یاد آتے ہیں
کبھی جو بات چلے نا سپاس لوگوں کی
کہتے ہیں کہ سیاست میں کسی بھی وقت اور کسی بھی موڑ پر کچھ بھی ممکن ہوتا ہے۔ جب لگتا ہے کہ معاہدوں اور وعدوں کی زنجیر بہت مضبوط ہے۔ دوستی کا بندھن نہیں ٹوٹے گا تو اچانک پتا چلتا ہے کہ ’’ ٹٹ گئی تڑک کر کے‘‘۔۔۔۔پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون میں علیحدگی ہوئی تو اخبارات نے یہی سرخی لگائی تھی جو بے حد پسند کی گئی۔ وقت بدلتا ہے اور بدلتا ہی چلا جاتا ہے اور 2018کے الیکشن کے بعد بھی ان دو بڑی پارٹیوں کا اتحاد پارہ پارہ ہو چکا ہے اسی طرح ایسے لگتا ہے کہ علیحدگی اور راستے جدا ہونے کا فیصلہ اٹل ہے جب کہ تحریک انصاف ایک بڑی سیاسی پارٹی کے طور پر بڑے کروفر کے ساتھ تختِ حکمرانی پر براجمان ہے اور اس کی موجودگی میں اب تجدیدِ محبت کا کوئی امکان نہیں ہے۔ دراصل محبت اور سیاست دو بالکل جُدا جُدا شعبے ہیں ۔ ماضی میں تو محبت اور سیاست میں قدر مشترک تلاش نہیں کی جاتی تھی کہ سیاست کو مفادات کا کھیل سمجھا جاتا تھا اور محبت میںقربانی ، خلوص ، وفا اور دوسرے کے لئے جان دے دینے کو محبت قرار دیا جاتا تھا۔ جدید دور میں یہ دونوں ایک دوسرے کے اس قدر قریب آگئے ہیں کہ لوگ بے ساختہ کہہ رہے ہیں۔ ’’محبت اور سیاست میں سب چلتا ہے‘‘
موجودہ دور کی سیاست اور محبت میں لوگ روٹھے رہتے ہیں اور پھر جان بھی جایا کرتے ہیں ۔ یہ سلسلہ چل رہا ہے اور شاید اسی طرح آئیندہ بھی چلتا رہے گا، مگر یہ بات یادرکھنے کی ضرورت ہے کہ محبت کے ازلی اور حقیقی فلسفے اور محبت کے تقاضوں پر یقین رکھنے والے آج بھی موجود ہیں۔ وہ ذاتی مفادات کو ترجیح نہیں دیتے بلکہ خلوص، وفا، قربانی اور ایثار کے ساتھ محبت کے سفر کو مکمل کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ بعض اوقات غلط فہمیاں ان کی سوچ کو متاثر بھی کر دیتی ہیں، لیکن ہجرِو فراق کی کیفیت میں وہ حالات کا تجزیہ کرتے ہیں ، تو اپنی انا کو نظر انداز کر کے اپنے اندر کی ’’میں‘‘ کو قربان کر کے محبت کے اُصولوں پر چلنے کا نیا عزم کرتے ہیں تو محبت کا سفر ایک بار پھر خوبصورت انداز میں شروع ہو جاتا ہے ، کاش ! ہمارے ملک کی سیاست میں بھی ایسا ہونے لگے اور بار بار ہوتا رہے تا کہ محبت اور سیاست کے سفر میں فرق باقی نہ رہے۔
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024