انتخابی نتائج کے اندازے
31 مئی 2018 کو مسلم لیگ کی آئینی مدت تمام ہوئی اسی روز جسٹس ناصر الملک کی قیادت میں عبوری حکومت نے ملک کی باگ ڈور سنبھالی۔ کابینہ کی حلف برداری کا دوسرا مرحلہ 5 جون کو ہوا‘ 6 رکنی کابینہ سرگرم عمل ہو چکی ہے مسلم لیگ کا آئینی مدت پوری کرنا خوش آئند ہے۔ ملک و قوم تبدیلی کے اس عمل کو تحسین کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ ہمارے یہاں یہ سلسلہ ذمہ داری سے جاری رہے تو سیاسی عدم استحکام کے درپے قوتوں کا منہ بند کرنے کی کوششیں کامیاب ہو جائیں گی۔ مدت پوری کرنے پر قوم مسلم لیگ کی قیادت میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف کو مبارکباد پیش کرتی ہے۔ عوام کی یہ بھی توقع ہے کہ اگر بااثر قوتیں جمہوری اور پارلیمانی امور پر رائے زنی نہ کریں اور پسند و ناپسند کی پٹاری بند رکھیں تو وطن عزیز میں مضبوط جمہوریت کا خواب شرمندہ تعبیر ہو سکتا ہے۔ طرفہ تماشا ہے کہ جو قوتیں حکومت کے خاتمہ کے لئے افواہ سازی کرتی رہیں آج اسی طرز پر الیکشن کے انعقاد کے بارے میں بدگمانی کو ہوا دی جا رہی ہے۔ آخر اس سلسلے کو کسی نے تو روکنا ہے؟ بروقت اور شفاف الیکشن قوم کی ضرورت ہیں۔ انتخابی ماحول اور انتخابی کمپین میں قوم عالمی اداروں کی سروے رپورٹس اور گیلپ سروے دیکھ رہے ہی جو چیخ چیخ کر مسلم لیگ ن اور جناب میاں نواز شریف کی فتح کے شادیانے بجا رہے ہیں…برطانیہ کے مشہور جریدے دی اکانومسٹ کے مطابق مسلم لیگ ن ہی 2018کے عام انتخابات میں بڑی پارٹی کے طور پر سامنے آئے گی تاہم بزنس کا ماحول اور ترقی کی شرح سست روی کا شکار رہے گی۔دی اکانومسٹ کہتا ہے کہ پیپلزپارٹی کو بے نظیر کی شہادت کے بعد نرمی کا ووٹ پڑا جسے آصف علی زرداری نے بری طرح یوزکیا مہنگائی اوربدترین کارکردگی سے اپنی جماعت پر سوالیہ نشان کھڑا کر دیا ؟ اسی طرح تحریک انصاف نے صوبائی حکومت سنبھالتے ہی پارلیمنٹ کے سامنے 126 دن دھر نا دیکر عوام کو ہیجان میں مبتلا کیے رکھا اور مجموعی طور پہ کے پی میں کوئی کارہائے نمایا ں نہیں دکھا سکی جس سے ووٹر بھی کچھ پریشان اور تذبذب کا شکار دکھائی دیا جبکہ ان کے مد مقابل مسلم لیگ ن نے انفراسٹریکچر اور انرجی سیکٹر میں نمایا ں کارکردگی دکھائی ہے اور اس کے ساتھ آئل کی قیمتوں میں واضح کمی نے بھی عوام کے لیے سکھ کا سامان کیے رکھا جس سے معیشت پر بھی نسبتا بہتر اثرات مرتب ہوئے۔ ایک اوراخبار ایشین ریویو کے مطابق ٹرانسپورٹیشن اور بنیادی انفراسٹریکچر پنجاب حکومت کا طرہ امتیاز رہے اور سب سے بڑاکام جو مسلم لیگ ن نے کیا وہ پاک آرمی کی گارنٹی پر چائنا سے امداد کو پاکستان لا کر پاک چائینہ اکنامک کوریڈور کا آغازکرنا ہے ۔گیلپ سروے کے مطابق نواز شریف نااہلیت کے باوجود بھی لیڈرز میں سب سے ٹاپ پر ہیں ۔عمران خان دوسرے اور بلاول بدستور تیسرے نمبر پر ہیں۔سروے کے مطابق 34 فیصد لوگ الیکشن ہونے کی صورت میں نواز شریف کو ،26 فیصد پی ٹی آئی کواور 15فیصد پی پی کو ووٹ دیں گے ۔اور پنجاب میں ن لیگ کو 50فیصد،پی ٹی آئی کو 31 فیصد جبکہ پی پی کو 5فیصد ووٹ پڑنے کے امکانات ہیں۔الف اعلان کے تعلیمی سروے کے مطابق صوبہ پنجاب اور کے پی میں تعلیمی صورتحال میں کوئی خاطر خواہ بہتری نہیں آئی اور دونوں نے سروے پو ل میں سی کیٹگری لی ہے۔ مسلم لیگ ن نے اپنے اقتدار کے آواخرمیں کافی منصوبہ جات مکمل کئے ہیں جس سے حکومتی کارکردگی میں نکھار نظر آیا ہے ۔بالخصوص فاٹا کو صوبہ خیبرپختون خواہ میںضم کرنے کا شاندار کارنامہ تاریخی حیثیت کا حامل ہے جو کہ در اصل فاٹا کے عوام اور سیاسی جماعتوں کا درینہ مطالبہ تھا۔ دو بڑے شہروں لاہور اور راولپنڈی کے ایک غیر جانبدار سروے کے مطابق پی ایم ایل این عام انتخابات میں واضح برتری حاصل کرے گی ۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ عمران خان نے پارٹی گراف کے لیے کام کرنے سے زیادہ توجہ دھرنوں اور سازشوں کے تانہ بانہ بننے والوں کی باتوں پر دی۔اور اپنے دور میں صوبہ خیبر پختون خوا میں سابق وزیر اعلی پرویز خٹک کے کارکردگی کو مانیٹر نہیں کیا اور انہیں کھلی چھوٹ دے کر انصاف کے منہ کو تالا لگا دیا ۔ عمران خان نے اپنے دائیں بائیں گروپ بنائے۔ عمران خان نے پارٹی میں لوگوں کو بغیر کسی ویریفیکیشن اور جانچ پڑتال کے لیا جوعمل تطہیر ہنوز جاری ہے اور سارے گامے ماجے اور ایرے غیرے نتھو خیرے اپنی انقلابی، انصافی پارٹی میں بھر رہے ہیں اور نعرہ مستانہ ’’نیاپاکستان ‘‘اور’’ دو نہیں ایک پاکستان ‘‘ کا راگ الاپ کر چیف ایگزیکٹو کی کرسی کے رنگین سپنے دیکھ رہے ہیں۔عمران خان کے سر پر امتحانات اور آزمائشوں کا ڈھیر ہے۔جہانگیر ترین فنانسر کی صور ت میں سب سے بڑی اور کڑی آزمائش ہے کہ ہر قسم کی اندونی پارٹی تنقید کے باوجود عمران خان جہانگیر ترین کی ذات پر کوئی بھی بات سننے یا کرنے کو تیار نہیں، کیوں کہ جہانگیر ترین جنوبی پنجاب سے ن لیگ کے باغی گروپ کو لیکر آئے اور اس کے علاوہ تمام تر ونر امیداروں کی پارٹی میں شمولیت بھی ان ہی کی مرہون منت ہے۔ عمران خان کے اصحاب شمال شاہ محمود قریشی ہیں جن کا الگ گروپ ہے، جہانگیر ترین کی شخصیت کے قطعی مخالف ہیں۔اس تمام تر خراب صورتحال کے باوجود بھی عمران خان چپ سادھے ہیں اور الیکشن 18ء پر نظر جمائیں ہیں کہ کرسی وزارت عظمی پر جلوہ افروز ہونے کا اشارہ دے گی ۔اس صورتحال میں ’’وہ‘‘ خود فیصلہ کر لیں کہ قوم کس کے ساتھ ہے اور کس کی ترجمانی میں پیش پیش ہے۔ بہرحال یہ 2018 ہے جو لوگ اور قوتیں 80 کی دہائی کا خیالی پلاؤ پکا رہی ہیں انہیں حقائق خود دیکھ لینا چاہئے۔ اندازے غلط ہو سکتے ہیں تو وہ یاد رکھیں آواز خلق نقارہ خدا ہوتی ہے۔