مولا دھرتی بنجر نہ ہو
گزشتہ حکومت نے بہت سے منصوبہ جات کا آغاز کیا۔ کچھ کے مثبت اثرات واضح طور پر دیکھنے کو ملتے ہیں لیکن کچھ شعبہ جات کافی حد تک متاثر بھی نظر آئے۔ اگر ایک نظر ہسپتالوں کی جانب ڈالی جائے تو اس نظام میں بہت زیادہ بہتری نظر آتی ہے۔ ہسپتال جتنی زبوں حالی کا شکار تھے ہم سب یقینا اس کے چشم دید گواہ ہیں، بہت مجبوری اور لاچاری کی حالت میں صرف وہی لوگ وہاں جاتے جن کے پاس دو وقت کی روٹی کھانے کے پیسے بھی نہ ہوتے تھے ظاہر ہے ایسے حالات میں انکے پاس دوسرا کوئی راستہ نہ ہوتا ۔ مریض بے بسی کی تصویر بنے وہاں کسی مسیحا کا انتظار ہی کرتے رہتے لیکن مسیحائی کو کوئی نہ آتا ۔ جو لوگ تھوڑا بہت بھی افورڈ کرنے کی استطاعت رکھتے وہ پرائیویٹ ہسپتالوں میں چلے جاتے کیونکہ تب ہر شخص جانتا تھا کہ سرکاری ہسپتالوں میں جانے کا مطلب صرف جان سے ہاتھ دھونے کے سوا کچھ بہی نہیں ہے لیکن نون لیگ نے اس جانب بطور خاص توجہ دی اور سرکاری ہسپتالوں کانظام ہی بدل کر رکھ دیا۔ پہلے وہ لوگ جو ا±دھر کا رخ نہیں کرتے تھے اب اطمینان کے ساتھ یہاں پر آتے ہیں میڈیکل کے شعبہ میں بھی نمایاں بہتری آئی۔ دوائیوں کامعیار نہ صرف چیک کیا گیا بلکہ آن لائن ایسے سسٹم کا آغاز کیا گیا جس سے بآسانی معلوم ہوسکے کہ ڈاکٹر نے مریض کو ٹھیک طرح سے چیک کیا اور دوائی دی کہ نہیں؟دوسرا اہم کارنامہ صوبے کے ناداراور مفلس افراد کیلئے "پنجاب فری لیگل ایڈ ایجنسی"کے قیام کا فیصلہ ہے اور بلا شبہ پنجاب کی تاریخ میں ایسا پہلی بار ہوا ہے۔ اسے شہباز شریف کا اہم ترین کارنامہ کہا جاسکتا ہے اس ایجنسی کے قیام سے پنجاب کے کروڑوں عوام کو آئین پاکستان کے آرٹیکل 19اے اور کوڈ آف کریمینل پروسیجر کے سیکشن1-340 کے تحت عدالتوں میں کیس دائر کرنے سمیت دیگر معاملات میں منصفانہ سماعت اور مفت قانونی مدد کا بنیادی حق مل جائے گا۔ "پنجاب فری لیگل ایجنسی" کا یہ ماڈل برطانیہ کے طرز پر بنایا گیا ہے۔ جسے لیگل سروسز کمیشن بھی کہا جاتا ہے، جو وہاں کے مختلف علاقوں میں کام کرتا ہے۔ برطانوی لیگل سروسز کمیشن کا سالانہ بجٹ کروڑوں پاﺅنڈ ہے۔ برطانوی وکلاءنے تنظیموں نے پنجاب حکومت کے اس اقدام کوسراہا ہے۔ اس سروسز کا پنجاب میں قیام غریب اور نادار لوگوں کو اپنا دفاع کرسکنے میں مدد فراہم کرےگا۔ ایسے لوگوں کو مفت وکیل فراہم کیا جائےگا اور وکیلوں کو حکومت کی جانب سے سپریم کورٹ اور ہائیکورٹ میں فی کیس 25ہزار اور سیشن کورٹ میں20 ہزار جبکہ مجسٹریٹ عدالتوں میں15ہزار فی کیس ادا کیا جائیگا۔ اس سے زیادہ کیا سہولت ہوگی کہ متاثرہ فرد اپنی مرضی کے وکیل کا انتخاب کرنے کا حق بھی رکھتا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ وکلاءکیلئے شق ہے کہ وہ ایسے کیسز کو غیر ضروری التوائ کا شکار بھی نہیں ہونے دینگے۔ بصورت دیگر ان کی رجسٹریشن منسوخ بھی کی جا سکتی ہے۔جو اقدامات احسن ہیں ان کو سراہنا ہمارا فرض ہے۔ لیکن جہاں دوسری طرف اگر کچھ غلط ہورہا ہے تو اسکی نشاندہی کرنا بھی ہمارے فرائض میں شامل ہے۔ میں پہلے بھی کئی ایسے معاملات کے بارے میں لکھ چکی ہوں اور اس بات کا تذکرہ بھی کرچکی ہوں کہ کچھ منصوبہ جات نے مثبت اثرات چھوڑے اور ان پر توجہ بھی دی گئی لیکن زراعت کا شعبہ اس دور میں زبوں حالی کا شکار رہا ہے۔ اس جانب نجانے کیوں بے رخی برتی گئی۔ زراعت کا سارا دارومدار پانی کی فراہمی پر ہے اور پانی کی کمی آجکل ہمارا اہم ترین مسئلہ بنا ہوا ہے۔ اگرچہ پانی کی ضرورت گھروں، کارخانوں میں بھی بہت ہے لیکن زراعت کا دارومدار ہی وافر پانی کی فراہمی کے ساتھ مشروط ہے۔ اسکے خطرناک نتائج سامنے آرہے ہیں وہ یوں کہ عالمی بینک نے حسب توفیق کشن گنگا ڈیم کی تعمیر پر پاکستان کی شکایات اور شواہد کو ناکافی قرار دےکر مستردکردیا ہے اس ڈیم کی تعمیر2009ءمیں شروع ہوئی تھی۔ تب پیپلز پارٹی کی حکومت تھی۔2011کے بعد 2سال تک یہ کیس عالمی عدالت میں چلتا رہا لیکن تب عالمی عدالت نے واضح طور پر بھارت کو پانی کا رخ موڑنے کی اجاز ت دے دی تھی۔ اسی دور میں دریائے سندھ پر بنائے جانے والے متنازعہ پن بجلی کے منصوبے نچھ بازگو کےخلاف بھی وزیراعظم کے احکامات پر عالمی عدالت میں جانے سے روک دیا گیا۔ بھارت نے یہ منصوبہ مکمل کیا پھر"چٹک" کا منصوبہ مکمل کیا اور ہم اس کا منہ دیکھتے رہ گئے اب جبکہ بھارت دریائے سندھ پر چودہ چھوٹے اور دو بڑے ڈیم مکمل کرچکا ہے۔ اس وجہ سے منگلا ڈیم اکتوبر2012ءسے خالی پڑا ہے جبکہ تربیلا ڈیم کی حالت بھی کچھ زیادہ اچھی نہیں ہے۔ اسی طرح بھارت دریائے چناب پر بھی تقریبا 11ڈیم مکمل کرچکا ہے دریائے جہلم پر 52ڈیم زیر تعمیر ہیں جبکہ دریائے چناب پر25 مزید ڈیموں کی تعمیر جاری ہے اور مزید کئی ڈیم کے منصوبہ جات تیار کیاجاچکے ہیں اس خواب غفلت سے کب بیدار ہونگے۔ کیا تب جب ہمارا ملک قحط سالی کا شکار ہوجائے گا اور ہمارا بچہ بچہ پانی کی ایک ایک بوند کو ترسے گا۔ اس معاملے میں بھی چیف جسٹس صاحب کی عظمت پھر سے نظر آئی جب انہوں نے کہا کہ ہم نے اگر اپنے بچوں کو پانی بھی نہ دیا تو پھر کیا دیا اور ساتھ ہی کالا باغ ڈیم کے حوالے سے اہم فیصلے کا اعلان بھی کردیا۔ اگر کالا باغ ڈیم کا صدیوں سے التوا شدہ منصوبہ اپنی تکمیل کو پہنچتا ہے تو چیف جسٹس صاحب کا نام تاریخ میں یقینا سنہرے حروف میں لکھا جائیگا اور اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ایسی عظیم قربانیاں نسلوں تک یاد رکھی جاتی ہیں۔ اللہ ہمارے ملک کا حامی و ناصر ہو۔ میرے وطن کی ہر یالیاں اور شادابیاں سدا سلامت رہیں۔