کیا واقعی انتخابات کے التوا کا کوئی امکان نہیں؟
نگران حکومت کے فعال ہوتے ہی الیکشن کمشن کی سر گرمیاں بھی تیز ہو گئی ہیں۔ نگران وزیرِ اعظم نے حلف اُٹھاتے ہی اپنے پہلے بیان میںاس امر کا اعادہ کیا کہ’ انتخابات اپنے مقررہ وقت پرہی ہوں گے‘۔ جس سے کم وبیش سب سیاسی جماعتوں نے اطمینان کا سانس لیاکیوں کہ بیچ میں لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے نئے نامزدگی فارم کو بنیاد بنا کر دائر کی گئی در خواستوں پر آنے والے فیصلے سے انتخابی شیڈول کے تعطل کا خدشہ پیدا ہو چلا تھاجس پر الیکشن کمشن نے بھی اعلان کردہ تاریخ کے مطابق فارم وصولی وقتی طور پر روک دی تھی۔ جس سے امکان پیدا ہو ا کہ شائد انتخابات متاثر ہونے جا رہے ہیں۔ لیکن یہ خدشہ جلد ہی دور ہو گیاجب چیف جسٹس نے ہائی کورٹ کے حکم کو معطل کر تے ہوئے اس عزم کو دہرایا کہ ’انتخابات ہر حال 25جولائی کو ہی ہوں گے۔ یہ حکم معطل کرنے سے عمومی طور پر تاثر یہ لیا گیا کہ شائد عدلیہ بھی اس گیم میں شامل ہونے جا رہی ہے کہ’ نئے نامزدگی فارم پر الیکشن لڑے کی اجازت دے کر ہر ٹیکس چور، سمگلر، بد دیانت کو موقع فراہم کیا جائے۔ دو ہی دن بعد جب انہوں نے الیکشن میں حصہ لینے والوں کو ایک حلف نامے کا پابند کر دیا کہ ’انہیںاُن تمام امور سے متعلق حلف اُٹھانا ہو گا جو پرانے نامزدگی فارم میں شامل تھے‘۔ یوں کم وبیش وہی پُرانی صورت حال تقریباًبحال ہو گئی ہے جس کا عوامی سطح پر مطالبہ شدت سے کیا جا رہا تھا۔ نامزدگی کی آخری تاریخ 8 جون میں تین دن کی توسیع کر کے الیکشن لڑنے کے خواہش مند افراد کو11جون تک موقع فراہم کر دیا گیا کہ و ہ با آسانی اپنے نامزدگی فارم جمع کروا سکیں۔ یو ں دو دن بعد نامزدگی فارم کی وصولی کے ساتھ ہی انتخابات کا ابتدائی مگر سب سے اہم مرحلہ اپنے اختتام کو پہنچ جائے گا۔ بلاول نے اپنے حالیہ بیان میں انتخابات کے بروقت انعقاد پرزور دیاانہوں نے پرویز خٹک کے الیکشن کمشن کو لکھے گئے خط کو بھی ہدفِ تنقید بناتے ہوئے اِسے اُسی بیانیہ کا حصہ قرار دیا جو الیکشن کے التوا کےلئے بنایا جا رہا ہے۔ انہوںنے بلوچستان اسمبلی کی قرارداد کو بھی اِسی بیانیہ سے جوڑتے ہوئے کہا کہ ’یہ لوگ دراصل الیکشن سے راہ فرار اختیار کرنے کےلئے یہ بیانیہ تشکیل دے رہے ہیں‘۔ یہی بات میاں نواز شریف متعدد بار کر چکے ہیں کہ ’انتخابات میں ایک دن بلکہ ایک پل اور ایک گھڑی کی تاخیر برداشت نہیں کی جائے گی‘۔ عدلیہ مخالف بیانیہ رکھنے کے باوجود انہوں نے جسٹس صاحب کی بات کو سراہاکہ ’انتخابات اپنے طے شدہ وقت پر ہوں گے‘۔ گذشتہ روز ڈی جی آئی ایس پی آر نے بھی اپنی پریس کانفرنس میں التوا کی قیاس آرائیوں کو رد کرتے ہوئے کہا کہ ’الیکشن مقررہ وقت پر ہوں گے‘الیکشن کمشن بھی ایک سے زیادہ بار اس بات کا اعادہ کر چکا ہے کہ آئندہ انتخابات میں تاخیر نہیں ہونے دی جائے گی۔ تا دم ِ تحریر دیگر صوبوں میں نگران وزرائے اعلیٰ کے حلف اُٹھاتے ہی ملک بھر میںنگران سیٹ اپ مکمل ہو چکا ہے۔ ایسی صورت میں انتخابات کے التوا کی افواہیں ختم ہو جانی چاہئیں۔
تمام سیاسی جماعتیںانتخابات کے بر وقت انعقاد پر مصر ہیںتو پھر التواکے خدشات کیوں سر اُٹھا رہے ہیں؟بلاول نے اپنے بیان میں کہا کہ ’جو لوگ الیکشن کے التوا کی باتیں کر رہے ہیں وہ الیکشن سے راہ فرار چاہتے ہیں‘۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو الیکشن کے التوا کی قرار داد بلوچستان اسمبلی نے منظور کی، دوسراپی ٹی آئی کے پرویز خٹک نے خط لکھ کر التوا کا مطالبہ کیا۔ لیکن کیا ان کے اس التوا کے مطالبے کے پیچھے شکست کا خوف ہے؟ بظاہر ابھی الیکشن کے نتائج کے بارے میں قیاس آرائی قبل ا زوقت ہے، کیوں کہ ابھی تک تونامزدگیوںکا عمل مکمل نہیں ہوا۔ ہاں البتہ امیدواروںکے چناو¿ میں مشکلات کو دیکھتے ہوئے رائے دی جا سکتی ہے کہ کون سی جماعت مشکل میں ہے؟ ظاہر ہے جو جماعت مشکل میں ہو گی وہی انتخابات کا التوا چاہے گی۔ اس وقت تین بڑی پارٹیاںپی پی پی، نون لیگ اورپی ٹی آئی میدان میں ہیں۔ کل کی تیسری بڑی پارٹی آج اپنی افادیت بُری طرح کھو چکی ہے۔ میری مراد ایم کیو ایم سے ہے۔ جس میں واضح طور پر دراڑ پڑ چکی ہے۔ جماعت اسلامی اور جمعیت علماءاسلام ایم ایم اے میں شمولیت کے بعد پُر امید ہیں کہ وہ پہلے سے بہتر پوزیشن حاصل کریں گے۔ باقی اِکا دُکا نشستوں والی پارٹیوں کا تو ذکر ہی کیا؟ بڑی پارٹیوں میں نون لیگ زیادہ دباو¿ میں لگتی ہے۔ پارٹی قیادت کی نااہلی کا ناقابلِ برداشت دھچکا، کرپشن کے الزامات، اور بہت سے الیکٹ ایبلز کے پارٹی چھوڑنے سے پارٹی پوزیشن خاصی کمزور ہو ئی ہے۔ گو پارٹی قائد نے اسٹبلشمنٹ اور عدلیہ کے خلاف محاذ آرائی کے بیانیہ سے پارٹی ساکھ کو سمبھالا دینے کی کوشش کی۔ لیکن بعض تجزیہ نگاروں کے مطابق پارٹی کے اندر اس بیانیہ کے خلاف رائے موجود ہےنون لیگ میں امیدواروں کی نامزدگی سیریس ایشو بنتا جا رہا ہے۔ جن حلقوں سے ان کے جیتے ہوئے اُمیدوارنون لیگ کو چھوڑ کر دوسری جماعتوں بلخصوص پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کر چکے ہیں، وہاں امیدواروں کی تلاش میں مشکلات ہیں۔ جنوبی پنجاب سے کھوسہ خاندان کے بعد بلوچستان سے سابق وزیر اعظم میر ظفر اللہ جمالی کا پارٹی چھوڑ کر پی ٹی آئی میں شامل ہونا (ن) لیگ کےلئے یقیناً بڑا جھٹکا ہے۔ دوسری بڑی پارٹی پی پی پی کوبھی اتنی ہی مشکلات کا سامنا ہے۔ بعض سنجیدہ ورکر زرداری فیکٹر اورپارٹی قیادت پر کرپشن کے الزامات سے نالاں ہیں۔ اسٹبلشمنٹ سے محاذ آرائی اور ’ اینٹ سے اینٹ بجانے کے بیانیہ کے بعد اسٹبلشمنٹ کی قصیدہ گوئی تک کسی NRO کا تاثر بھی پار ٹی ساکھ بحال نہیں کر سکا۔ سندھ میں ذوالفقار مرزا کی وجہ سے ان کے خلاف گرینڈ الائنس کو تقویت ملی، جس سے ان کی مشکلات میں اضافہ ہوا ہے۔ ملک بھر میں گراس روٹ پارٹی ہونے کے باوجود پنجاب میں اسے بھی امیدواروں کی تلاش میں سخت مشکلات کا سامنا ہے۔ جہاں تک پی ٹی آئی کی بات ہے، دونوں بڑی پارٹیوں کی قیادت کی کرپشن کو ایکسپوز کرنے کا کریڈت اُسے دیا جاتا ہے۔ (ن) لیگ کے الیکٹ ایبلز کی بڑی تعداد کی پی ٹی آئی میں شمولیت جہاں اس کے لئے نیک شگون ہے وہاں پارٹی ٹکٹ کی تقسیم میں اسے بھی مشکلات کا سامنا ہے لیکن اس مشکل کی وجہ امیدواروں کی کم یابی نہیں پرانے کارکنوں کی ناراضگی ہے۔ عمران خان کا متوقع کامیابی کے بعد پہلے سو دن کا پلان مقتدرہ قوتوں کوباور کروانے کے لئے تھاکہ وہ انتخابات میں کامیابی کے لئے پُر اُمید ہیں۔ سب سے بڑھ کر اگر اس بیانیہ کو سچ مانا جائے کہ عمران خان یا پی ٹی آئی کو ’خلائی مخلوق‘ کی آشیر باد حاصل ہے، جو اُسے اقتدار میں لانا چاہتی ہے توپھر سوچنا چاہیے کہ وہ الیکشن سے راہ فرار کیوں چاہے گی؟ تو کیا الیکشن کا التوا (ن) لیگ یا پی پی پی کی خواہش ہے جو زیادہ مشکل میں ہیں؟ الیکشن بر وقت کروانے کا واویلا کہیں ان کی طرف سے متوقع شکت کو ’کیمو فالج‘ کرنے کا اظہار تو نہیں؟ البتہ ریحام خان کی متوقع کتاب نے پی ٹی آئی کے اندر ہیجان برپا کر رکھا ہے، جس سے اس کی ساکھ متاثر ہونے کا قوی خدشہ بہرحال موجود ہے!