ہفتہ‘ 24 رمضان المبارک ‘ 1439 ھ ‘ 9 جون 2018ء
دل کرتا ہے ڈیم بنانے، قرضہ اتارنے کیلئے چولہ پہن کر چندہ مانگوں: چیف جسٹس ثاقب نثار
چیف جسٹس ثاقب نثار نے اسلام آباد میں پانی کی قلت پر ازخود نوٹس کی سماعت کے دوران جذباتی انداز میں کہا کہ دل کرتا ہے ڈیم بنانے اور ملک کا قرضہ اتارنے کیلئے چولا پہن کر خود جاﺅں اور چندہ مانگوں، پانی کا مسئلہ عذاب بن جائے گا۔ چیف جسٹس کے ریمارکس کے ایک ایک لفظ سے ظاہر ہو رہا ہے کہ ان کے سینے میں ملک و قوم کا کس قدر درد ہے کیونکہ ایسی بات کوئی صاحب درد ہی کہہ سکتا ہے ورنہ کہاں چیف جسٹس آف پاکستان کا بلند ترین منصب اور کہاں شاہ حسین کا چولا اور ایدھی مرحوم و مغفور کا کشکول۔ افسوس کہ ! ہم نے ذاتی مفادات کا اسیر ہو کر کیسے ہیرے اور لعل گنوا دیئے، پاکستان کی سونا اگلتی زمینیں بنجر ہونے جا رہی ہیں، چند سال بعد پینے کے پانی سے بھی محروم ہونے والے ہیں۔ ہمارے پاس اس کا علاج بھی ہے لیکن ہم بے بس ہیں۔ ایک طرف بھارت خود ہمارے پانی کے درپے ہیں تو دوسری طرف اس کے ایجنٹوں نے ہاتھ باندھ رکھے ہیں۔ چیف جسٹس کی طرح محترم مجید نظامی مرحوم و مغفور نے بھی کالاباغ ڈیم کی تعمیر کی راہ کی رکاوٹیں دور کرنے کیلئے ادارہ نوائے وقت سمیت عمر کا بڑا حصہ اس جہاد کیلئے وقف کر دیا۔ ان کے خلوص اور وطن سے محبت کی تاثیر دیکھئے کہ انہیں کروڑوں بے لوث پاکستانیوں کی بھرپور تائید حاصل رہی۔ اب ان کے ادارے حب الوطنی کے اسی جذبے سے سرشار اولوالعزم اور نوجوان قیادت کی رہنمائی میں نہ صرف جابر سلطان کے سامنے کلمہ¿ حق کہنے کا فریضہ ادا کر رہے ہیں بلکہ کالاباغ ڈیم کی تعمیر ہو یا غیرملکی قرضوں کے بوجھ کی ادائیگی کا معاملہ، ان کے جوش و جذبہ میں کمی نہیں آئی۔ جہاں تک غیرملکی قرضوں کی ادائیگی کیلئے کشکول برداری کا تعلق ہے تو جیسا کہ عالمی اداروں کی رپورٹیں بتاتی ہیں کہ کالاباغ ڈیم بن جائے تو ستر ارب ڈالر سالانہ کا پانی سمندر برد ہونے سے بچایا جا سکتا ہے یعنی کالاباغ ڈیم ہی ہمیں غیرملکی قرضوں کے بوجھ سے نجات دلا سکتا ہے۔
٭....٭....٭
دنیا کی سو بہترین یونیورسٹیوں کی فہرست میں چین کی 11 جامعات شامل۔
یہ فہرست یا ریٹنگ کسی عام آدمی یا ادارے کی قیاس آرائی نہیں بلکہ گلوبل ایجوکیشن گروپ کی کاوش اور جامع رپورٹ کا نتیجہ ہے۔ بہترین چینی جامعات کی یہ تعداد ایشیا میں سب سے زیادہ اور عالمی سطح پر امریکہ اور برطانیہ کے بعد تیسری پوزیشن پر ہے۔ پاکستان کا نام دنیا کی ہزار بہترین یونیورسٹیوں میں بھی نہیں آیا۔ قیام پاکستان کے وقت پاکستان میں واحد جامعہ پنجاب یونیورسٹی تھی اور اس کا شمار غیرمنقسم برصغیر کی بہترین جامعات عثمانیہ یونیورسٹی حیدر آباد دکن، مسلم یونیورسٹی علی گڑھ اور ہندو یونیورسٹی بنارس میں ہوتا تھا۔ اساتذہ کے طور پر بڑے بڑے سکالر اس سے وابستہ تھے۔ پنجاب یونیورسٹی سے وابستہ گورنمنٹ کالج لاہور عالمگیر شہرت کا حامل تعلیمی ادارہ تھا۔ وقت کے ساتھ یونیورسٹیوں کی تعداد میں اضافہ مگر ساکھ زوال پذیر ہوتی گئی۔ یونیورسٹیوں کی رینکنگ اس بنا پر نہیں ہوتی کہ کسی یونیورسٹی کا رقبہ کتنا وسیع ہے یا اس میں طلبہ کی تعداد کتنی ہے بلکہ اس بنیاد پر ہوتی ہے کہ یونیورسٹی کے اساتذہ میں پی ایچ ڈی کتنے ہیں، تحقیق و علم میں ان کا معیار کیا ہے۔ عالمی شہرت کے حامل ریسرچ میگزینز میں ان کے کتنے تحقیقاتی مقالے شائع ہو رہے ہیں یا ان کی لیبارٹریوں میں ریسرچ کا معیار کیا ہے اور اس کا عالمی سطح پر کتنا حصہ ہے۔ افسوس، ہم اس پیمانے پر پورے نہیں اترتے، یہی وجہ ہے کہ ہم کسی شمار قطار میں نہیں بلکہ بدقسمتی کہ ہمارے ہاں بعض پروفیسر حضرات پر الزام لگے کہ ان کے پی ایچ ڈی کے مقالات سرقہ تھے، اسی طرح ہمارے بعض اساتذہ کے عالمی تحقیقی مجلات میں شائع ہونے والے مقالات بھی چوری شدہ قرار پائے۔ اگر عالمی شہرت یافتہ سکالر جمع کر لیں تو ہم بھی عالمی پائے کی یونیورسٹیاں بنا سکتے ہیں۔ ہماری جامعات اور ریسرچ لیبارٹریوں میں ریسرچ کسی طرح بھی قابل تعریف نہیں وگرنہ ریسرچ کی سہولتیں فراہم ہوتیں اور فنا فی العلم قسم کے لوگ دستیاب ہوتے توڈینگی ایسے بخار سے ہزاروں اموات نہ ہوتیں۔ ہمارے ہاں امراض قلب و جگر، ٹی بی، سرطان اور یرقان وغیرہ کے علاج میں استعمال ہونے والی ادویات سب غیرملکی ہیں۔ افسوس ہوتا ہے کہ ہم تعلیم پر بھاری فنڈز خرچ کرنے کے باوجود کوئی ایسی چیز پیش نہیں کر سکتے جس کے بارے میں دعویٰ کیا جا سکے کہ انسانیت کی خدمت میں ہمارا بھی حصہ ہے۔
٭....٭....٭
تیسری جنگ عظیم ہوئی تو موجودہ تہذیب ختم ہو جائے گی اور اس کے بعد ہونے والی جنگیں لکڑیوں اور پتھروں سے ہونگی: صدر پیوٹن
یہ بات وہ صاحب کہہ رہے ہیں جو ماضی قریب کی سپرپاور سوویت یونین کے وارث ملک روس کے صدر ہیں۔ سوویت یونین کا چھوڑا ہوا تمام اسلحہ ماسکو کی تحویل میں ہے۔ سب سے پہلا ایٹم بم امریکہ اور دوسرا سوویت یونین نے بنایا تھا، عالمی طاقتیں کہلانے والے دونوں ممالک امریکہ اور روس نے اس وقت اتنا جوہری اسلحہ جمع کر لیا ہے کہ اگر وہ چل جائے تو کرہ ارض گیس کا گولہ بن کر خلا کی وسعتوں اور کائنات کی پہنائیوں میں گم ہو جائے ۔ کرہ¿ ارض یا انسان سمیت کسی ذی روح کا وجود باقی بچے گا تو نوبت چوتھی عالمی جنگ تک پہنچے گی۔ باوا آدم اور اماں حوا نے تو کبھی سوچا بھی نہیں ہو گا کہ انکی نسل سے ایسے لوگ بھی پیدا ہونگے جو مثل فردوس بریں، اس کرہ¿ ارض کو اپنے ہاتھوں سے تباہ کر دیں گے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد اس لئے کوئی بڑی جنگ نہیں ہوئی کہ فریقین کو ایسی جنگ کا بھیانک انجام نظر آتا ہے۔ ان دونوں عالمی طاقتوں کے پاس اتنے وسائل تھے کہ اگر وہ تباہی کی بجائے تعمیر کے بارے سوچتے تو آج دنیا کے بڑے بڑے صحرائے اعظم (صحارا) صحرائے گوبی، صحرائے عرب اور دیگر چھوٹے موٹے ریگستان جنت نشان بنے ہوتے۔ اگرچہ تنازعات اور اختلافات کی صورت امریکہ اور روس ایک دوسرے کے مقابل آنے سے کتراتے ہیں لیکن انہوں نے یہ کام لینے کیلئے شطونگڑے چھوڑ رکھے ہیں جو کشمیریوں، فلسطینیوں اور شامیوں ایسے بے گناہوں کی بے دریغ خونریزی کر کے آقاﺅں کا نمک حلال کر رہے ہیں۔