چیف جسٹس نے پاکستان میں پانی سے متعلقہ کئی مسائل کی طرف توجہ مبذول کروائی ہے۔ تازہ ترین ان کی توجہ کالاباغ ڈیم پر مرکوز ہے۔ ان کی خواہش ہے کہ اس پر قومی اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوشش کریں گے۔ اپنی معاونت کے لئے انہوں نے بیرسٹر اعتزاز احسن کو مقرر کیا ہے مگر اعتزاز صاحب بمشکل کوئی مدد کر پائیں گے کیونکہ وہ ایک ایسی سیاسی پارٹی کے ممبر ہیں جو کالا باغ ڈیم کی کھل کر مخالفت کرتی ہے، وفاق پاکستان میں شامل تین صوبے سندھ، بلوچستان اور خیبر پی کے کی اسمبلیاں کئی بار کالا باغ ڈیم کے خلاف آواز اٹھا چکی ہیں۔ کئی سیاسی لیڈر یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ کالا باغ ڈیم ان کی لاشوں پر بنے گا، کسی نے کہا کہ کالا باغ ڈیم بنا تو وہ اسے بم سے اڑا دیں گے۔ اس پس منظر میں چیف جسٹس کا کام مشکل سے ہی آگے بڑھ سکتا ہے اور اگر وہ اپنی طرف سے کوئی آرڈر بھی جاری کر دیں اور تین صوبے اس پر عمل سے انکار کر دیں تو پھر کیا ہو گا۔
پانی کے مسئلے پر برمنگھم سے اقبال چیمہ صاحب ہر روز مجھے فون کرتے ہیں اور تازہ ترین صورت حال واضح کرتے ہیں، پچھلے سال وہ پاکستان آئے تو میں نے ان سے ملاقاتوں اور ان کی اور برکت علی لونا صاحب کی کتابوں کی مدد سے درجن بھر آرٹیکل لکھے جو صدا بصحرا ثابت ہوئے۔ ابھی بھارتی وزیراعظم مودی نے کشن گنگا کا افتتاح کیا تو پاکستان میں اس کے خلاف شور مچا تو میں نے حقیقت حال جاننے کے لئے اقبال چیمہ سے فون پر کئی مرتبہ بات کی، ان کا کہنا تھا کہ اس مسئلے پر سستی شہرت کمانے کے لئے میں قلم نہ اٹھاﺅں کیونکہ کشن گنگا پر پاکستان نے ثالثی کے لے کہا تھا اور بھارت کو تین سال تک اس پر کام سے روکا گیا، پھر طے پایا کہ بھارت ایک مقررہ مقدار میں پانی دریائے جہلم میں چھوڑنے کا پابند ہو گا اور یوں بھارت نے کشن گنگا پر کام شروع کیا۔ کشن گنگا ڈیم کا فالتو پانی سری نگر کی وولر جھیل میں آن گرتا ہے، یہ پانی کہیں اور نہیں جا سکتا سوائے اس کے کہ دریائے جہلم کا حصہ بن جائے اور اسے پاکستان اپنی مرضی سے استعمال میں لا سکے گا۔ اقبال چیمہ نے بتایا کہ کشن گنگا پراجیکٹ کی وجہ سے کوہالہ ڈیم سے پاکستان کو ایک سو میگا واٹ فالتو بجلی پیدا کرنے کا موقع ملے گا کیونکہ پانی زیادہ مقدار میں میسر ہو گا۔
اقبال چیمہ صاحب کو میں آبی مسائل پر ایک ماہر مانتا ہوں، وہ برکت علی لونا اور شمس الملک کے ساتھ مل کر ایک آبی فرنٹ چلا رہے ہیں جس کا فوکس اصل میں کالا باغ ڈیم ہی ہے مگر اس آبی فرنٹ کی طرف سے یہ تجاویز دی جاتی ہیں کہ پاکستان کو تمام ممکنہ آبی ذخائر تعمیر کرنے چاہئیں جو کہ صرف دریائے سندھ پر ہی پانچ سو کی تعداد میں بنائے جا سکتے ہیں، پاکستان اس سلسلے میں کچھ نہیں کر رہا اور خدشہ ظاہر کیا جاتا ہے کہ بھارت نے پاکستانی سیاستدانوں کو بھاری رشوت دے رکھی ہے جو صرف کالا باغ ڈیم ہی نہیں ہر نئے آبی ذخیرے کی مخالفت میں پیش پیش ہوتے ہیں۔ اقبال چیمہ صاحب واپڈا کے چیئرمین کو قائل کر چکے ہیں کہ صرف دو رابطہ نہروں کی تعمیر سے ہم دریائے راوی کو جسڑ کے مقام پر اور دریائے ستلج کو سلمانکی کے مقام پر زندہ کر سکتے ہیں، اگر یہ دونوں دریا خشک پڑے ہیں تو اس میں بھارت کی ہٹ دھرمی کا حصہ تو ہے ہی مگر خود ہماری غفلت اور بے حسی کا کوئی دفاع نہیں کیا جا سکتا۔
اب میں ایک اور نکتہ آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں۔ کالا باغ ڈیم کے حق میں مسلم لیگ ن ظاہری طور پر تو ہے مگر اس نے اس کی تعمیر کے لئے تمام تر وعدوں کے باوجود کوئی کام نہیں کیا، ایٹمی دھماکوں کے فوری بعد نوازشریف نے جو فاتحانہ تقریر کی تھی اس میں ایک اعلان یہ کیا کہ کالا باغ ڈیم تعمیر کیا جائے گا۔ نواز شریف اپنی آج کی ہر تقریر میں ایٹمی دھماکوں کا کریڈٹ لیتے ہیں مگر انہیں وہ وعدہ یاد نہیں رہا جو انہوں نے دھماکوں کے تاریخی دن قوم سے کیا تھا اور یہ وعدہ ایک نشری تقریر میں کیا گیا جس پر ظاہر ہے خوب سوچ سمجھ کر مسودے کی منظوری دی گئی ہو گی، مسلم لیگ ن ہو یا پیپلز پارٹی یا تحریک انصاف یا پختوان خواہ ملی پارٹی اور دوسری جماعتیں آئے روز آئین پاکستان میں متفقہ طور پر ترامیم کرتی رہی ہیں۔ ان سے پوچھا جانا چاہئے کہ وہ ختم نبوت کا حلف بھی آئین سے نکال سکتی ہیں اور پھر راتوں رات ایک اور آئینی ترمیم کر کے اس حلف کو بحال بھی کر سکتی ہیں مگر کالا باغ ڈیم پر اتفاق رائے کیوں نہیں کرتیں، اس ڈیم کے مخالفین کو اس الزام کا بھی جواب دینا چاہئے کہ کیا ان کی مخالفت کی وجہ بھارت کے ساتھ سازباز اور کرپشن سے کھایا ہوا مال ہے یا ان کے پاس کوئی ٹھوس ٹیکنیکل دلیل بھی ہے۔ ٹیکنیکل اعتراضات کا جواب شمس الملک جیسے واپڈا کے سابق چیئرمین ہر فورم پر دے سکتے ہیں، ان کا تعلق خیبر پی کے سے ہے مگر ان کی آنکھوں پر تعصب کی پٹی نہیں بندھی۔ وہ قومی نقطہ نظر سے سوچتے ہیں اور ملکی مفاد کو مدنظر رکھتے ہیں۔
پاکستان ایک بڑا ڈیم گلگت میں بنا سکتا ہے مگر اس پر بھارت یہ اعتراض وارد کرتا ہے کہ یہ متنازع علاقے میں ہے۔ بھارت سے کوئی پوچھے کہ وہ مقبوضہ کشمیر جیسے متنازع علاقے میں ہر پروجیکٹ تعمیر کر رہا ہے مگر ایساکرنا صرف پاکستان کے لئے حرام سمجھتا ہے۔ اب تو امریکہ نے بھی بھارت کی ہاں میں ہاں ملا دی ہے اور سی پیک پر یہ اعتراض کر دیا ہے کہ یہ متنازع علاقے سے گزرتا ہے۔ ادھر ہم پاکستانی ہیں کہ باہم سر پھٹول کا شکار ہیں اور قومی ا ور ملکی مفاد کا کوئی کام نہیں کرنا چاہتے۔ بس پانی کی کمی کا رونا روتے ہیں، بلبلاتے ہیں کہ پینے کو پانی نہیں، چیختے ہیں کہ صاف پانی میسر نہیں، روتے ہیں کہ فصلوں کے لئے پانی نہیں مگر پانی کی فراہمی کی ہر تجویز کی مخالفت کرنے پر تُلے بیٹھے ہیں۔
ملک میں دوماہ بعدا لیکشن ہونے جا رہا ہے، اس عرصے میں زیادہ بارشوں کی پیش گوئی سامنے آ چکی ہے۔ اوپر سے گرمی اس قدر بے پناہ ہے کہ ہمارے گلیشیئر بھی تیزی سے پگھل رہے ہیں، اس طرح خدشہ ہے کہ الیکشن مہم کے دوران ملک زیادہ بارشوں اور گلشیئرز سے آنے والے پانی کی وجہ سے انیس سو دس جیسے بڑے سیلاب کی لپیٹ میں نہ آ جائے۔ ہمارے پاس سیلابی پانی کو بھی ذخیرہ کرنے کے لئے کوئی ڈیم نہیں اس لئے یہ سیلاب خیبر پی کے، گلگت پنجاب اور سندھ میں بڑی تباہی مچا سکتا ہے اور اس تباہی کی زد میں ہمارے الیکشن بھی آ سکتے ہیں۔ نگرانوں کو ادھر بھی کچھ توجہ دینے کی ضرورت ہو گی کہ الیکشن کمیشن تو سیلاب کے سامنے بند نہیں باندھ سکتا، یہ نہ سیلاب میں گھرے ہوئے علاقوں میں پولنگ کروا سکتا ہے۔ یوں ہم ایک سیاسی بحران کا بھی شکار ہو سکتے ہیں اور نئی منتخب حکومت کی تشکیل میں مشکلات پیش آ سکتی ہیں۔
٭٭٭٭٭
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38