سینیٹ تنخواہوں ، پنشن میں 20فیصد اضافہ، جی ایس ٹی 10 فیصدکرنے سمیت 130 سفارشات منظور
اسلام آباد(نامہ نگار) سینیٹ نے مالیاتی بل کے لئے 130سفارشات کی منظوری دےدی ہے جو قومی اسمبلی بھجوا دی گئی ہیں,،سینٹ کی سفارشات میں تنخواہوں اور پنشن میں 20 فیصد اضافے ‘ جی ایس ٹی 17 فیصد سے کم کرکے 10 فیصد کرنے اور کسانوں کے لئے قرضے کی حد 50 ہزار سے بڑھا کر اڑھائی لاکھ روپے کرنے کی سفارش کی گئی ہے، گزشتہ روز سےنےٹ اجلاس مےں اجلاس میں قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے چیئرمین سینیٹر سلیم مانڈوی والا نے سفارشات ایوان میں پیش کیں۔ سینٹ نے سفارش کی ہے کہ زرعی پیداوار میں اضافے کے لئے تمام درآمدی ہائیبرڈ بیجوں پر امپورٹ اور کسٹم ڈیوٹی ختم کی جائے۔ نئے درآمدی کمبائنڈ ہارویسٹرز پر جی ایس ٹی کا خاتمہ کیا جائے۔ درآمدی کول چین مشینری پر ڈیوٹی نہیں ہونی چاہیے۔ درآمدی سن فلاور اور کنولا ہائیبرڈ بیجوں پر جی ایس ٹی ختم کیا جائے۔ ملک کے اندر تیار ہونے والے ٹریکٹرز کی صنعت پر سیلز ٹیکس 5 فیصد سے کم کرکے دو فیصد کیا جائے۔ پولٹری فیڈ میں استعمال ہونے والی اشیاءپر درآمدی ڈیوٹی تین فیصد تک کم کی جائے۔ زرعی قرضوں پر مارک اپ کی شرح 7 فیصد کی جائے۔ عسکریت پسندی سے متاثرہ افراد کے خاندانوں کی بحالی کے لئے وکٹمز سپورٹ فنڈ قائم کیا جائے اور اس سلسلے میں ابتدائی طور پر20 ارب روپے مختص کئے جائیں۔ سینٹ نے سفارش کی ہے کہ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں کم از کم 20 فیصد اضافہ کیا جائے۔ قومی کمیشن برائے انسانی حقوق فنڈ کے لئے ایک ارب روپے مختص کئے جائیں۔ کسانوں کے لئے قرضے کی حد پچاس ہزار سے بڑھا کر اڑھائی لاکھ روپے کی جائے اور چھوٹے کسانوں کے لئے مارک اپ کی شرح 9.9 فیصد کی جانی چاہیے۔ چھوٹے کسانوں کو ٹریکٹر سمیت زرعی مشینری کی خریداری کے لئے کم از کم ایک لاکھ روپے کی سبسڈی دی جائے۔ ملک میں کپاس کی پیداوار بڑھانے کے لئے امدادی قیمت مقرر کرنے کے حوالے سے خصوصی فنڈ قائم کیا جائے۔ ٹیکس کا دائرہ بڑھانے کے لئے نئے گوشوارے جمع کرانے والوں کو کم از کم تین سال کی مدت کے لئے آڈٹ سے مستثنیٰ قرار دیا جائے۔ پولیس اور ایف سی سمیت تمام سکیورٹی فورسز کے لئے خصوصی پے سکیل دیئے جانے چاہئیں۔ پینے کے صاف پانی کی فراہمی کے خصوصی پروگرام کے لئے مختص کی جانے والی رقوم میں اضافہ کیا جائے۔ گھروں کی تعمیر کے لئے قرضے کی حد 10 لاکھ روپے سے بڑھا کر 20 لاکھ روپے کی جائے۔ 25 فیصد تک بجلی کے استعمال میں کمی کرنے والے تمام محکموں کو بلوں میں تین ماہ کے لئے دس فیصد کی رعایت دی جائے۔ کسانوں‘ محنت کشوں‘ ڈرائیوروں‘ گارڈز اور گھریلو ملازمین جیسے ہنرمند اور غیر ہنرمند افراد کے لئے سماجی تحفظ کی خصوصی سکیم کے تحت فنڈز میں اضافہ کیا جائے۔ سینٹ نے سفارش کی ہے کہ کراچی جو ملکی خزانے میں 65 سے 70 فیصد رقوم جمع کرانے والا شہر ہے اس کے لئے مختص کی جانے والی رقم میں اضافہ کیا جائے۔ سینٹ نے سفارش کی ہے کہ پٹرولیم لیوی کا خاتمہ کیا جائے اور گیس‘ بجلی اور پٹرول پر سیلز ٹیکس ختم کیا جائے تاکہ لوگوں کو ریلیف مل سکے۔ سینٹ نے سفارش کی ہے کہ کراچی میں پانی کی فراہمی کے منصوبے کے لئے ایک ارب روپے مختص کئے جائیں تاکہ کراچی میں پانی کی کمی کا مسئلہ حل کیا جاسکے۔ کراچی کے بنیادی ڈھانچے کی بحالی اور ترقی کے لئے 20 ارب روپے مختص کئے جائیں۔ سینٹ نے سفارش کی ہے کہ تمام غیر ملکی قرضوں اور اقتصادی معاہدوں کی تفصیلات پارلیمنٹ کے سامنے پیش کی جائیں۔ نئے صنعتی یونٹس کے قیام کے لئے رعایتی طویل المدت فکسڈ مارک اپ والے قرضوں کا اعلان کیا جائے۔ حکومت کفایت شعاری کے اقدامات کرے‘ غیر ترقیاتی اخراجات اور وی آئی پی اور وی وی آئی پی کلچر کو ختم کیا جائے۔ بیروزگار نوجوانوں‘ خواتین اور بزرگ شہریوں کے لئے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام سے مالی امداد کے حصول کے لئے مناسب فنڈز مختص کئے جائیں۔ سیلف فنانس کی بنیاد پر شمسی توانائی اور ہوا سے بجلی پیدا کرنے کے منصوبوں کے لئے نجی شعبے کو خصوصی مراعات دی جائیں۔ سینٹ نے سفارش کی ہے کہ تمام ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کا انتظام صوبوں کے سپرد کیا جائے اور ملک میں توانائی سے متعلق مختلف وزارتوں کو یکجا کرکے توانائی کی وزارت قائم کی جائے۔ سینٹ نے سفارش کی ہے کہ لوگوں کو ریلیف فراہم کرنے کے لئے سیلز ٹیکس کی شرح 17 فیصد سے کم کرکے 10 فیصد کی جائے۔ ٹیکس کے نظام میں ناانصافیوں اور امتیازی سلوک کا خاتمہ کیا جائے تاکہ ملکی دستیاب وسیلوں سے بھرپور انداز میں فائدہ اٹھایا جاسکے۔سینٹ نے سفارش کی ہے کہ ملک میں مائیکرو فنانسنگ اور وینچر فنانسنگ کو فروغ دیا جائے۔ سینٹ نے سفارش کی ہے کہ بلوچستان میں ٹیوب ویلوں کے لئے سبسڈی میں اضافہ کیا جائے۔ سینٹ نے سفارش کی ہے کہ حکومت سے ہر قسم کے صوابدیدی اختیار اور فنڈز حاصل کرنے والوں کا آڈٹ ہونا چاہیے۔ سینٹ نے سفارش کی ہے کہ پانچ سال پرانی ری کنڈیشنڈ گاڑیوں کی درآمد کی اجازت دی جائے۔ سینٹ نے سفارش کی ہے کہ گوشوارے جمع نہ کرانے والوں پر ٹیکس اور سزا میں اضافے کیا جائے۔ سینٹ نے سفارش کی ہے کہ فاٹا کی تعمیر نو کے لئے جی ڈی پی کی تین فیصد رقم مختص کی جائے۔ پی ایس ڈی پی کے تحت خیبر پختونخوا میں چھوٹے ڈیم اور پن بجلی کےمنصوبے شروع کئے جائیں۔ گلگت بلتستان میں پروسیسنگ انڈسٹری کو فروغ دیا جائے تاکہ پھلوں کے ضیاع کو روکا جاسکے۔ قابل تجدید توانائی کے شعبے کو ہر قسم کی ڈیوٹی اور ٹیکس سے مستثنیٰ قرار دیا جائے اور سبسڈی دی جائے۔ بلوچستان کے ضلع نوشکی‘ چاغی‘ تربت‘ پنجگور‘ آواران اور لسبیلہ میں ہوا سے بجلی پیدا کرنے کے منصوبے شروع کئے جائیں۔ کوئٹہ اور مستونگ میں کم لاگت کے گھر تعمیر کرنے کی سکیم شروع کی جائے تاکہ لوگوں کو رہائشی سہولیات میسر آسکیں۔ بلوچستان کے مختلف علاقوں میں بجلی کی فراہمی کے لئے کم از کم پچاس ارب روپے مختص کئے جائیں۔ بلوچستان میں شمسی توانائی سے چلنے والے ٹیوب ویلوں کے لئے دس ارب روپے مختص کئے جائیں۔ ژوب ‘ کوئٹہ اور قلعہ سیف اللہ میں سی پیک کے تحت پیشہ وارانہ تربیت کے مراکز قائم کئے جائیں۔ کلائمیٹ چینج ڈویژن کے لئے مختص فنڈز میں اضافہ کیا جائے۔ لورالائی اور چمن ایئرپورٹس کی تعمیر کے لئے فنڈز مختص کئے جائیں۔
اسلام آباد(نامہ نگار) اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ مےثاق معےشت ہونا چاہےئے کےونکہ ےہ پاکستان کا معاملہ ہے، آئندہ مالی سال کے لئے جی ڈی پی کی شرح نمو کا 6 فیصد کا ہدف حقیقت پسندانہ ہے‘ سکیورٹی آپریشن پر چار سال میں 400 ارب روپے سے زائد خرچ کئے جاچکے ہیں‘ ترقیاتی بجٹ 300 ارب روپے سے بڑھا کر 1001 ارب روپے کردیا ہے‘ چار سال میں ٹیکس وصولی میں 80 فیصد اضافہ ہوا ہے‘ ملک میں غربت میں کمی آرہی ہے‘ ٹیکس کا دائرہ بڑھانے‘ ٹیکس چوری روکنے اور سسٹم کو بہتر بنانے کے لئے اقدامات کریں گے‘ جتنی بھی ہو سکیں سینٹ سے موصول ہونے والی سفارشات کو مالیاتی بل کا حصہ بنائیں گے، گزشتہ روز سےنےٹ اجلاس میں بجٹ 2017-18ءپر بحث سمیٹتے ہوئے وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا کہ 2015-16ءکے بجٹ میں سینٹ کی 40 سفارشات شامل کی گئیں، 2016-17ءمیں 80 سفارشات منظور کی گئیں، جتنا بھی ممکن ہوسکا مثبت سفارشات آئندہ مالی سال کے بجٹ میں شامل کی جائیں گی، یہ درست نہیں کہ این ایف سی ایوارڈ کے بغیر بجٹ پیش نہیں کیا جاسکتا۔ سولہ سال ملک میں ایک این ایف سی تھا۔ تیسرا ایوارڈ 13 سال تک لاگو رہا۔ این ایف سی کا 15.2 فیصد شیئر وفاق سے ہم نے صوبوں کو منتقل کیا اس کا مقصد یہ تھا کہ کنکرنٹ لسٹ کو ہم نے ختم کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے کنکرنٹ لسٹ کو ختم کیا۔ صحت‘ تعلیم‘ صاف پانی‘ صفائی ستھرائی جیسے شعبے صوبوں کو منتقل کردیئے گئے۔ انہوں نے کہا کہ نئے این ایف سی ایوارڈ کو حتمی شکل دینے کی کوشش کی جارہی ہے۔ نائن الیون کے بعد سے ملک کو دہشت گردی کا سامنا ہے کسی بھی سابق حکومت کو جرائت نہیں ہوئی کہ فاٹا میں آپریشن شروع کرسکے۔ موجودہ حکومت نے 2014ءمیں یہ آپریشن شروع کرنے کا فیصلہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ سکیورٹی آپریشن پر چار سال میں 400 ارب روپے سے زائد خرچ کئے جاچکے ہیں۔ اس کے سالانہ 90 سے 100 ارب روپے کے اخراجات ہیں اور غیر ملکی امداد کے بغیر ہم یہ رقم سالانہ خرچ کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس میں مطالبہ کیا گیا کہ فاٹا‘ آزاد کشمیر‘ گلگت بلتستان کے لئے 0.3 فیصد این ایف سی کا دیا جائے۔ تمام وزراءاعلیٰ کو بلا کر اس معاملے کو حل کرنے کی کوشش کریں گے۔ صوبوں کو اس حوالے سے تعاون کرنا چاہیے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ پاکستان کی آبادی سالانہ دو فیصد کے حساب سے بڑھ رہی تھی لیکن ہماری شرح نمو تین فیصد سے اوپر نہیں جارہی تھی اور 2017ءمیں ملک کے بارے میں کہا جارہا تھا کہ یہ دیوالیہ ہونے والا ہے۔ اس سال شرح نمو 5 فیصد سے اوپر ہے اور زرعی شعبے کی شرح نمو 3.46 ہے جوکہ گزشتہ مالی سال کے دوران منفی تھی۔ انہوں نے کہا کہ اگلے سال کے لئے شرح نمو کا ہدف چھ فیصد مقرر کیا ہے۔ امید ہے کہ یہ حاصل کرلیں گے۔ 2018-19ءکا ہدف 7 فیصد ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ 6 فیصد کا ہدف بہت حقیقت پسندانہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ فیڈرل ڈیبٹ لمیٹیشن کا قانون ہم نے ہی متعارف کرایا۔2005ءمیں یہ ایکٹ بنا۔ امریکا کی یہ 100 فیصد اور جاپان کی 200 فیصد ہے۔ حکومت پر قرضے زیادہ لینے کا تاثر درست نہیں۔ ماضی میں حکومتی انتظام چلانے اور کسی حد تک ترقی کے لئے قرضے لئے جاتے رہے ہیں لیکن ہم ترقیاتی حکمت عملی پر کام کر رہے ہیں۔ ہم امید کرتے ہیں رواں مالی سال کے دوران ہمارے قرضوں کا حجم ترقیاتی بجٹ سے کم ہوگا۔قرضوں کے حوالے سے جی ڈی پی کے 60 فیصد تک کی حد کو 2011-13ءکے دوران عبور کیا گیا۔ ہم نے گزشتہ سال کے دوران ہم نے 15 سال کا روڈ میپ دیا ہے کہ اسے 50 فیصد تک لے آئیں گے لیکن اگلے سال اسے 60 فیصد سے نیچے لے آئیں گے۔ انہوں نے کہا کہ مالیاتی خسارہ کم ہوگا تو قرضوں کی حد بھی کم ہو جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ توانائی اور بنیادی ڈھانچے جیسے ترقیاتی منصوبوں کے بجٹ کو ہم 300 ارب روپے سے بڑھا کر 1001ارب روپے کئے گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے سماجی تحفظ کے پروگرام کے لئے بھی فنڈز بڑھائے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ 2013ءمیں کل غیر ملکی قرضہ 48 ارب 10 کروڑ ڈالر تھا‘ مارچ 2017ءتک یہ 58 ارب 14 کروڑ ڈالر ہوگیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جون 2013ءمیں غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر چھ ارب ڈالر تھے‘ مارچ 2017ءکے آخر تک یہ 16 ارب ڈالر ہوگئے۔ پاکستان کی عالمی درجہ بندی میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ٹیکس وصولی میں پچھلے چار سال کے دوران 80 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ تمام صوبوں کے پاس وافر وسائل ہیں۔ وہ پینے کے پانی کی فراہمی کے منصوبے فوری شروع کریں۔ انہوں نے کہا کہ بجلی کی صورتحال میں نمایاں بہتری آئی ہے۔ 16 سے 18 گھنٹے کی ماضی کی لوڈشیڈنگ اب نہیں ہو رہی۔ انہوں نے کہا کہ 1999ءمیں 1200 میگاواٹ بجلی ہمارے پاس فاضل تھی لیکن بعد میں عملی اقدامات نہ ہونے کی وجہ سے ہم شارٹ فال کا شکار ہوگئے۔ انہوں نے کہا کہ ایک عالمی ادارے نے پاکستان میں غربت کی شرح 9.5 فیصد بتائی ہے لیکن اس سے ہم اتفاق نہیں کرتے۔ پاکستان میں غربت کم ہو رہی ہے۔انہوں نے کہا کہ توانائی کا مسئلہ اب حل ہونے والا ہے۔ کراچی میں پانی کی فراہمی کے لئے کثیر فنڈز مختص کئے گئے ہیں۔ 2017ءمیں ٹیکس دہندگان کی تعداد 7 لاکھ 50 ہزار تھی جو اب 12 لاکھ سے زائد ہے۔ کوشش کی گئی ہے کہ نئے بجٹ میں غریب طبقے پر کوئی ٹیکس نہیں لگایا گیا۔ انہوں نے کہا کہ ٹیکس کا دائرہ بڑھانے‘ ٹیکس چوری روکنے اور سسٹم کو بہتر بنانے کے لئے اقدامات کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ پچھلے سال 30 اگست کے ری فنڈ ہم نے ادا کئے ہیں۔ پہلی بار آن لائن ریفنڈ منتقل کئے گئے۔ دس لاکھ روپے تک کے ریفنڈ اگست تک ادا کردیئے جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ میثاق معیشت وقت کی ضرورت ہے۔ اس پر ہمیں مل بیٹھنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ زرعی شعبے میں ترقی کی وسیع گنجائش ہے۔ کسانوں کے قرضے کے لئے بھی رقم بڑھا دی گئی ہے۔ بیت المال کا 50 فیصد فنڈ بڑھا رہے ہیں۔ بیواﺅں اور مزدوروں کے لئے بھی سہولیات کا اعلان کیا ہے اور 2009-10ءکا ایڈہاک ریلیف بھی ضم کردیا ہے۔ اس سے تنخواہ کا بل 125 ارب روپے بڑھے گا۔ ہم نے وعدہ کیا تھا کہ پہلے تین سال میں معاشی استحکام لائیں گے اور اگلے دو سال میں شرح نمو پر توجہ دیں گے اور یہ کام کیا جارہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ چھوٹے موٹے اختلافات بھلا دینے چاہئیں۔ دنیا کو یہ ہضم نہیں ہو رہا کہ ایک ایٹمی پاکستان کس طرح ترقی کر رہا ہے۔ اب کہا جارہا ہے کہ 2030ءمیں پاکستان جی 20 ممالک میں شامل ہو جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ مےثاق معےشت ہونا چاہےئے کےونکہ ےہ پاکستان کا معاملہ ہے۔