افغانستان وہ بد قسمت ملک ہے جو 1979سے حالت جنگ میں ہے۔ تمامتر کوششوں کے باوجود اسے آج تک امن نصیب نہیں ہوا۔ کچھ غیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق افغان جنگ میں اب تک اڑھائی لاکھ بے گناہ افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں اور اس سے ڈبل تعداد میں لوگ معذور ہوئے ہیں۔ پریشان کن بات یہ ہے کہ یہ جنگ افغانیوں کی اپنی شروع کردہ نہیں ہے۔نہ ہی انہوں نے کسی ملک پرحملہ کیا ہے کہ جس کے بدلے میں انہیں سزا دی جائے۔ ان کا قصور یہ ہے کہ وہ بے قصور ہیں۔ وہ صرف اپنی آزادی کی حفاظت میں جنگ لڑ رہے ہیں۔ مزید حیران کن بات یہ ہے کہ افغانستان دنیا کے غریب ترین ممالک میں شمار ہوتا ہے لیکن اس پر جنگ مسلط کرنے والی طاقتیںآج کی دنیا کی دو سپر پاورز ہیں جن کی بظاہر افغانستان کے ساتھ کوئی عداوت نہیں۔1979میں افغانستان پر روس چڑھ دوڑا اور پورے ملک کو تہس نہس کر ڈالا۔ روسیوں کے نکلنے کے بعد علاقے کی تعمیر نو اور امن قائم کرنے کی غرض سے 2001میں امریکہ تشریف لے آیا۔ امن قائم کرنے کے نام پر امریکہ نے بمباری کرکے پورے ملک کو ’’تورابورا‘‘بنا دیا۔
داد دینی پڑتی ہے پھر افغان عوام کی کہ وہ امریکہ کے خلاف بھی اسی تندہی اور شدت سے لڑے جس طرح روسیوں سے لڑے تھے۔ تمام تر تباہی کے باوجودنہ تو انہوں نے حوصلہ ہارا اور نہ شکست تسلیم کی۔ امریکہ اس وقت دنیا کی واحد سپر پاور ہے۔ دنیا کی بہترین تربیت یافتہ فوج کا مالک ہے۔ ہتھیاروں کے لحاظ سے دنیا کا کوئی ملک امریکہ کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔بے پناہ ہوائی طاقت رکھتا ہے لیکن وہ بھی آج تک افغان طالبان کو شکست نہیں دے سکا۔ یاد رہے کہ امریکہ 16سالوں سے یہ جنگ لڑ رہا ہے اور یہ امریکی تاریخ کی طویل ترین جنگ ہے۔ امریکی تجزیہ نگار رالف نادر نے اپنے ایک کالم میں لکھا ہے:’’طالبان نے جن کی تعداد تیس ہزار سے زیادہ نہیں ہے امریکہ کی تربیت یافتہ افغان فوج جو کہ طالبان سے تعداد میں آٹھ گناہ زیادہ ہے کو ناکوں چنے چبوا دئیے۔ یہ صرف افغان فوج ہی نہ تھی بلکہ ان کے ساتھ نیٹو فوج بھی تھی جس کی تعداد ایک مرحلہ پر 1,30,000تھی وہ بھی کچھ نہ کر سکے۔ اب وہاں 8500امریکی سولجرز اور6500 نیٹو کے سولجرز بمعہ طاقتور ہوائی بیڑے کے موجود ہیں۔ دنیا کی جدید ترین ہوائی طاقت اور جدید ترین زمینی ہتھیاروں کے باوجود طالبان ان پر غالب ہیں‘‘ وال سٹریٹ جرنل کے مطابق:’’طالبان مسلسل آگے بڑھ رہے ہیں۔ ملک کا 30سے 40فیصد حصہ ان کے قبضے میں ہے اور ملکی آبادی کا تیسرا حصہ ان کے ساتھ ہے‘‘۔
ایشیاء ٹائمز کے مطابق:’’آہستہ آہستہ کابل سے علاقے کا قبضہ چھینا جا رہا ہے اور قبضہ چھیننے والے طالبان اور داعش کے لوگ ہیں۔ خصوصاً ملک کے شمالی حصے میں تاجکستان اور ترکمانستان کی سرحد کے ساتھ داعش کے لوگ کافی مضبوط ہیں۔ ناکامی کی ایک سب سے بڑی وجہ افغان فوج ہے جو تمام تر تربیت اور بہترین ہتھیاروں کی سپلائی کے باوجود ایک پیشہ ور فوج نہیں بن سکی۔ فوج سے بھگوڑاہوجانا۔ کرپشن کرنا اور طالبان کے ساتھ مل جانا عام شکایات ہیں۔ماہ اپریل میں مزار شریف چھائونی پر ہونے والے حملے میں جس میں افغان فوج کا بہت زیادہ نقصان ہوا تھا۔ اب انکوائری سے پتہ چلا ہے کہ چھائونی کے اندر سے کچھ افغان سولجرز طالبان کے ساتھ ملے ہوئے تھے جنہوں نے ان کی راہنمائی کی۔ طالبان سے تعاون کے شبہ میں اب تک 35سولجرز کو زیر حراست لے لیا گیا ہے ‘‘ ان حالات سے ظاہر ہوتا ہے کہ کابل حکومت طالبان کے خلاف فوجی فتح حاصل کرنے کی پوزیشن میں قطعاً نہیں۔ کابل کی حتی الوسع کوشش ہے کہ کسی طریقے سے طالبان کے ساتھ صلح صفائی سے معاملہ طے ہوجائے۔ اب تو انہیں کابل میں اپنا دفتر کھولنے کی آفر بھی دے دی گئی ہے۔سیاسی حل کے لئے بیتابی کی ایک دوسری وجہ ملک میں داعش کا بڑھتا ہوا اثر رسوخ بھی ہے۔گو اقوام متحدہ کے مطابق طالبا ن ایک دہشت گرد گروپ جانا جاتا ہے لیکن حقیقت میں یہ محب وطن لوگ ہیں۔یہ لوگ صرف غیر ملکی فوجوں (امریکی)کو ملک سے نکال کر کابل پر حکومت کرنا چاہتے ہیں۔ ان کی کسی غیر ملک کو فتح کرنے کی خواہش بھی نہیں اورنہ ہی یہ لوگ افغانستان کی سرحدیں کسی خاص طرف بڑھانا چاہتے ہیں جبکہ ان کے مقابلے میں داعش کے لوگ کافی خطرناک ہیں۔ یہ لوگ صوبہ خراسان بنانا چاہتے ہیں جس میں موجودہ افغانستان، وسط ایشیا،۔چین کا صوبہ سنکیانگ خصوصاً ایغور مسلمانوں کا علاقہ شامل ہوگا۔
31مئی کو کابل کے سفارتی علاقے صدارتی محل کے قریب’’ٹرک بم‘‘ کے ذریعے بہت بڑا خود کش دھماکہ ہوا جس سے 90آدمی لقمہ اجل بنے اور380زخمی ہوئے۔ ان میں کچھ پاکستانی اہلکار بھی شامل تھے۔ پاکستان جرمنی اور فرانس سمیت کئی سفارتخانوں کو بھی نقصان پہنچا۔ داعش نے اس دھماکے کی ذمہ داری قبول کی لیکن بد قسمتی سے کابل نے الزام پاکستان پر لگادیا۔ کابل حکومت کے مطابق یہ منصوبہ بندی پاکستان میں ہوئی اور حملہ آور بھی پاکستان سے آئے۔ کابل بھارت کی زبان بولنے سے باز نہیں آتا اور بھارت ہر معاملہ میں پاکستان پر الزام تراشی سے باز نہیں آتا۔جب تک پاکستان اور افغانستان مل کر دہشتگردی کا مقابلہ نہیں کرتے دہشتگردی رک نہیں سکتی اور جب تک افغانستان بھارت کے ایما پر پاکستان کے خلاف بہتان تراشی کرتا رہیگا تو دونوں ممالک کا تعاون ممکن نہیں ہوگا۔داعش آجکل پاکستان میں بھی اور افغانستان میں بھی متواتر خود کش حملے کرارہی ہے جس سے دونوں ممالک کا بہت نقصان ہو رہا ہے۔ مزید بدقسمتی یہ ہے کہ دونوں ممالک بجائے اصل ناسور کو ختم کرنے کے الزام ایک دوسرے پر لگادیتے ہیں اور یوں دونوں ممالک کی چپقلش دور نہیں ہوتی۔ نتیجتاً باہمی عداوتیں اور نفرتیں بڑھ رہی ہیں۔ بھارت دونوںطرف سے فائدہ اٹھا رہا ہے۔ مرنیوالے دونوں طرف مسلمان ہیں۔ افغانستان ہم سے بھی زیادہ دہشتگردی کا شکار ہے۔ بجائے پاکستان پر الزام تراشی کے بہتر ہوگا کہ افغانستان اپنی سرزمین پر موجود گروپس کے خلاف کاروائی کرے اور پاکستان سے مل کر دہشتگردی کا مقابلہ کرے۔ افغانستان کو جوش نہیں ہوش سے کام لینا چاہیے۔ہر وقت پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی سے کچھ فائدہ نہیں ہوگا۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38