امریکی صدر کے دورہ سعودی عرب کے دو ہفتے کے اندر اندر سعودی عرب اور ا سکے قریبی اتحادی ممالک بحرین ، متحدہ عرب امارات اور مصر نے اچانک قطر کے ساتھ ہر قسم کے سفارتی تعلقات منقطع کرنے کا اعلان کر دیا۔ ان ممالک نے قطر کے ساتھ زمینی، فضائی اور بحری سرحدیں بند کرنے اور ہر قسم کی تجارت ختم کرنے کے ساتھ اپنے اپنے ملک میں موجود تمام قطری باشندوں کو حکم دیا ہے کہ وہ 14 دن کے اندر ان کے ملک سے نکل جائیں۔ قطر سعودی فوجی اتحاد کا بھی حصہ ہے ( یا تھا) اور اسکی افواج یمن میں خدمات انجام دے رہی ہیں۔ موجودہ اقدامات کے ساتھ قطر کو سعودی فوجی اتحاد سے بھی نکال دیا گیا ہے اور اسکے فوجی دستوں کو یمن سے واپس جانے کا کہا گیا ہے۔سعودی اقدامات کے چند گھنٹوں کے اندر لیبیا، یمن اور مالدیپ نے بھی قطر کے خلاف سعودی عرب کا ساتھ دینے کا اعلان کر دیا۔ یاد رہے کہ اس سے قبل 2014 میں بھی قطر کے خلاف اس سے ملتے جلتے اقدامات کئے گئے تھے اور سعودی عرب بحرین اور متحدہ عرب امارات نے اپنے سفیر قطر سے بلا لئے تھے۔
ان اقدامات کی وجہ جاننے کوکوشش کریں تو کوئی ایک ایسا بڑا واقعہ نظر نہیں آتا جو ایک دم اتنے انتہائی اور سخت اقدامات کی وجہ بنا ہو۔ 23 مئی کو قطر کی سرکاری خبر رساں ایجنسی نے مبینہ طور پر یہ رپوٹ کیا کہ قطر کے امیر شیخ تمیم بن حماد نے بیان دیا ہے کہ ’’ ایران اسلامی دنیا کا ایک طاقتور ملک ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا‘‘۔ اس بارے میں قطر کی حکومت نے کہنا ہے کہ انکی سرکاری خبر رساں ایجنسی کی سائیٹ ’’ ہیک‘‘ کر لی گئی تھی اور قطر کے امیر سے منسوب بیانات جعلی ہیں۔ انکے مبینہ بیانات اصلی تھے یا جعلی یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ کسی کو پسند ہو یا نہ ہو لیکن بہرحال ایران مسلم دنیا کا ایک طاقت ور ملک ہے اور کوئی بھی ملک بشمول امریکہ کے ایران کو نظر انداز نہیں کر سکتا۔ امریکی صدر کے دورہ سعودی عرب کے دوران انکی تقریر اور سعودی عرب کے امریکہ کے ساتھ تین سو بلین ڈالر کے دفاعی معاہدے اس بات کا ثبوت ہیں۔
قطر کی آبادی کی غالب اکثریت سنی مسلک سے تعلق رکھتی ہے لیکن اسکے باوجود قطر کے ایران سے اچھے دوستانہ تعلقات ہیں جو عرب دنیا کی اکثریت کو پسند نہیں۔ ان تمام باتوں کے تناظر میں قطر پر الزام ہے کہ قطر کی حکومت ’’ اخوان المسلمین‘‘، ’’ دولت اسلامیہ‘‘ اور دیگر دہشت گرد تنظیموں کی مالی امداد کرتی ہے۔ اس الزام کو ثابت کرنے کے لیے کوئی ٹھوس ثبوت نہ تو دیے گئے ہیں اور نہ کسی نے طلب کئے ہیں۔ اس کے علاوہ اخوان المسلمین کے ساتھ عرب دنیا کے تعلقات بھی اتار چڑھائو کا شکار رہے ہیں ۔ پچاس اور ساٹھ کی دہائی میں سعودی عرب اخوان المسلمین کا اہم حامی تھا اور ریاض میں اخوان المسلمین کا دفتر بھی تھا۔ افغان جنگ کے دوران یہ تنظیم سویت یونین کے خلاف افغان جہاد کے لیے ’’ مجاہدین‘‘ فراہم کرنے کا اہم ذریعہ تھی ۔ آنے والے وقت میں خلیجی جنگ کے دوران سعودی عرب کے کردار پر نقطہ چینی کرنے پر اس تنظیم اور سعودی حکومت ( اور کچھ دیگر عرب ممالک )کے درمیان خلیج پیدا ہوئی جو بڑھتے بڑھتے شدید اختلافات کی شکل اختیار کر گئی ۔ یہاں تک کہ اب اخوان المسلمین اور حماس کو سعودی عرب اور مغرب دنیا دہشت گرد تنظیمیں مانتی ہے۔
دوسری جانب سعودی عرب کے ساتھ ساتھ قطر بھی امریکہ کا قریبی اتحادی ہے (یا رہا ہے)۔ دوہا کے نزدیک ’’ العدید‘‘ میں گزشتہ کئی برس سے امریکہ کا اہم فوجی اڈہ ہے جہاں دس ہزار سے زیادہ امریکی فوجی موجود ہیں۔ یہ فوجی اڈہ تمام عرب علاقے اور خاص طور پر اعراق اور یمن میں امریکی کاروائیوں اور جاسوسی کے لیے اہم ترین مانا جاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ ایسی صورتحال میں سعودی عرب قطر کے خلاف اتنے سخت اقدامات امریکہ سے مشورہ کیے بغیر نہیں کر سکتا۔ کیا اسکا یہ مطلب ہے کہ امریکہ قطر سے جو کام لینا چاہتا تھا لے چکا ہے اور اب ’’دوسری آپشنز‘‘ میسر آنے کے بعد امریکہ بہادر کو کوئی فرق نہیں پڑتا کہ قطر کے ساتھ اسکے ہمسائے کیا کریں۔ یا پھر سعودی عرب کو یقین ہے کہ امریکہ کے ساتھ ہونے والی حالیہ اربوں ڈالر کے سودے کے تناظر میں امریکہ اس سلسلے میں خاموش رہے گا؟ اس سلسلے میں جہاں امریکی دفتر خارجہ نے سعودی قطر اختلافات کے بارے میں محتاط رویہ اختیار کیا ہے امریکی صدر ٹرمپ نے ٹوئیٹر پر پیغام دیا ہے کہ انہوں نے سعودی عرب کے دورہ کے دوران یہ واضح کیا تھا کہ اب دہشت گردوں کی سپورٹ کرنے والے ممالک کے خلاف اقدامات کئے جانے چاہئیں۔ اور انکے پیغام کے ثمرات ظاہر ہونے شروع ہو گئے ہیں۔ یاد رہے کہ انہی دنوں میں سعودی عرب نے مصر کو پانچ بلین ڈالر، کویت کو چار بلین ڈالر اور متحدہ عرب امارات کو تین بلین ڈالر کی امداد دینے کا اعلان بھی کیا ہے۔
موجودہ صورتحال پاکستا ن کی خارجہ پالیسی کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج ہے ۔ اور ہمیں آنے والے دنوں میں اس سلسلے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ایک جانب سعودی عرب کے ہمارے تعلقات ہمیشہ سے بہت اچھے رہے ہیں اور سعودی عرب نے ہر مشکل گھڑی میں ہمیشہ پاکستان کا ساتھ دیا ہے ۔ لیکن پہلے ایران اور اب قطر کو لے کر پاکستان سعودی تعلقات کو ایک پیچیدہ صورتحال کا سامنا ہو سکتا ہے۔ سعودی عرب کی زیر قیادت تشکیل پانے والے فوجی اتحاد کو لیکر پاکستان کی پالیسی اورکوشش یہی ہونی چاہئیے کہ ایسے فوجی اتحاد تشکیل پائیں جو درحقیقت دہشت گردی کے خلاف ہوں نہ کہ کسی دوسرے اسلامی ملک کے، خاص طور پر جب اس اسلامی ملک سے ہمارے اچھے تعلقات ہوں اور ہمارے سرحدیں بھی اس ملک سے ملتی ہوں۔ پاکستان کسی طور اس بات کا متحمل نہیں ہو سکتا کہ اس کی ایک اور سرحد پر کشیدگی پیدا ہو جائے ۔ دوسری جانب قطر نے بھی ہمیشہ ہر مشکل گھڑی میں پاکستان کا ساتھ دیا ہے ۔اس کی ایک مثال 2010ء کے سیلاب میں دیکھنے کو ملی جب قطر نے پاکستان کی بروقت امداد کی۔پاکستان اور قطر کی حکومت کے مابین دسمبر 2015 میں ہونے والے معاہدے کے تحت قطر آنے والے دنوں میں پاکستان کو تقریباََ ۱۶ بلین ڈالر کی نیچرل گیس (LNG) فراہم کرے گا۔ یہ پاکستان کی توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے بہت اہم ہے۔ اس کے علاوہ تقریباََ سوا لاکھ پاکستانی باشندے قطر میں کام کر رہے ہیں۔ ان کی جانب سے بھیجی جانے والی رقوم پاکستان کے لیے زر مبادلہ کا اہم اور بڑا ذریعہ ہیں۔
ایسی صورتحال میں دونوں میں سے کسی بھی ملک کی سائیڈ لینے کی بجائے پاکستان کو اپنا مثبت کردار ادا کرنے کی کوشش کرنی چاہئیے اور ایسے سفارتی اقدامات کرنے چاہئیں کی تمام اسلامی دنیا تقسیم ہونے کی بجائے اکٹھی ہو اور دہشت گردی سمیت تمام عالمی چیلنجز کا مل کر مقابلہ کرے۔ ہمیں ترکی کے ساتھ مل کر اسلامی دنیا میں اختلافات ختم کروانے کی سنجیدہ اور تیز کوششیں کرنی چاہئیں اس سے قبل کہ بہت دیر ہو جائے۔ وگرنہ اسلام دشمن طاقتیں اس وقت اسلامی دنیا کو ( خدانخواستہ ) کسی اسلامی جنگ کی جانب دکھیل رہی ہیں جس میں مختلف اسلامی ممالک ایک دوسرے کے خلاف امریکی اور مغربی اسلحہ استعمال کرتے نظر آ رہے ہیں۔
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024