حکومت کے لئے جمہوریت کی قربانی اور مکافات عمل
حکومتی نا¶ بھنور میں ہے۔ کسی کو نظرآ تا ہے تو کسی کو نہیں۔ حکومت اپنے حکمرانی کے آخری سال میں سرخرو ہونا چاہتی ہے جس کے لئے کوشاں بھی ہے اور ثمرات نظر بھی آتے ہیں مگر حالات سکرین پر ۲۰۱۳ءوالے ہی نظر آتے ہیں۔ ہر طرف تصادم اور تحفظات کی یلغار نظر آتی ہے۔ کچھ نادان سیاستدان اور جماعتیں اپنے ذاتی اختلاف کو انتشار کا رنگ دے رہی ہیں اور اقتدار کی ہوس میں دور تک جانا چاہتی ہیں۔ اس میں کون کونسے مکروہ چہرے اور کردار آگئے ہیں اور مزید آتے رہیں گے۔ شتر بے مہار سوشل میڈیا اور مین میڈیا کی مہار کس کے ہاتھ میں ہے؟ جس کا نشانہ و ہدف محض جمہوریت اور سیاست ہے جس میں جتنی تضحیک و تذلیل جمہوریت کی ہوئی کسی اور کی نہیں۔
میاں صاحب ۲۰۱۳ءمیں آپ نے صرف حکمرانی کا تاج پہنا تھا اس پر کانٹے اب اگے ہیں۔ پانامہ اک نشانہ ہے اگر اس کی حیثیت اس سے زیادہ ہوتی تو چین اور روس جیسے ملکوں کی بھی عدالتیں اپنا وقت اور توانائیاں صرف کر رہی ہوتیں۔ پانامہ کا پاجامہ خان صاحب کو کس نے پہنایا؟ یہ وہی نادیدہ قوتیں ہیں جو خان صاحب کو ”ڈی چوک“ لے آئی تھیں اور ڈی چوک سے وزیراعظم ہا¶س کا سفر طے کروا رہی تھیں۔ پوری قوم کی طرح ہمیں بھی یاد ہے آپ نے فرمایا تھا کہ بجلی کی پیداوار ہی ہمارا اولین حاصل ہو گا اور لوڈشیڈنگ کا خاتمہ مقصدِ اقتدار۔ ایک سے زیادہ منصوبوں پر کام بھی ہوا۔ بجلی کی پیداوار بھی کی گئی۔ کئی زیر تکمیل منصوبے بھی ہیں۔ لوڈشیڈنگ کا عذاب کافی حد تک کم بھی ہوا۔ مشرف کے دور میں پروان چڑھنے والی دہشت گردی کا خاتمہ بھی ہوا۔ معاشی ترقی کے تقریباً تمام اہداف حاصل بھی کئے گئے۔ مہنگائی کا جن بھی بوتل میں بند ہوا۔ مگر پھر بھی اپنی خدمت کے آخری سال میں الزامات کی کیچڑ میں ایسے لت پت ہو گئے ہیں کہ اس گند اور کیچڑ سے آپ کاعظیم دیوار چین جیسا منصوبہ سی پیک آپ کو چھٹکارا نہیں دلوا سکا۔ اسی سی پیک کے سائے میں لگی ہوئی جے آئی ٹی کی عدالتوں میں آپ کی اولادیں تقریباً ذلت کا سامنا کر رہی ہیں۔یہ مکافات عمل ہے یا کچھ اور؟ دنیا کی پہلی اسلامی ریاست کو ایٹمی ریاست بنانے والے نوازشریف کو آج گو نواز گو کا سامنا ہے اور ایک منتخب وزیراعظم جے آئی ٹی کو مطلوب ہے۔ ۲۰۱۳ءمیں آپ پر اعتماد کرنے والی عوام قرب میں ہونے والے انتخابات میں دور ہوتی نظر آتی ہے۔ میاں صاحب ! اگر آپ کے پاس غور کرنے کی فرصت ہو تو غور فرمانا کہ یہ مکافات عمل ہی ہے۔ حکومت میں مکافات عمل کب شروع ہوتا ہے۔ جب آپ حکومت بچانے کے لئے جمہوریت کی قربانی دیں گے۔ آپ حکومت کرتے کرتے یا دوسرے لفظوں میں عوام کی خدمت میں جمہوریت کی خدمت کرنا بھول گئے۔ ۲۰۱۳ءکے انتخابی وعدوں میں ایک وعدہ آرٹیکل ۶ کا مقدمہ بھی تھا۔ ایفائے عہد بابت قرآن فرماتا ہے کہ وعدہ کے متعلق پوچھا جائے گا۔ حدیث نبوی ہے کہ وہ وعدہ کرو ہی نہ جو ایفا نہ کر سکو۔ قرآن و حدیث کی روگردانی کر کے عزت و تکریم کا خواہاں ہونا عبث ہے پھر تو قیر نہیں رہتی وہی ہوتا ہے جو اب ایک منتخب وزیراعظم کے ساتھ ہو رہا ہے۔ آپ کو یہ حکومت جمہوریت کی جدوجہد میں ملی۔ آپ کی حکومت میں آرٹیکل ۶ کا ملزم کہاں ہے؟ یہ جمہوریت آج بھی سوال کرتی ہے۔ ملزم آزاد ہے اور آپ اپنی ہی حکومت میں قید ہیں۔ یہی مکافاتِ عمل ہے۔ جمہوریت کے دشمن کیلئے نرم گوشہ رکھنا اور پھر جمہور میں اونچے شملے کے ساتھ زندہ رہنا ممکن نہیں رہتا۔ حکومت جمہوریت کے لئے کرنی ہوتی ہے وگرنہ حکومت کا مزہ تو آمر بھی اٹھا لیتے ہیں۔ جن کے ساتھ مشرف تھا یا جو مشرف کے ساتھ تھے۔ چودھری برادران آج کہاں ہیں؟ ان کے پاس گمنامی و بدنامی کے سوا کیا ہے۔ مشرف کو شرف قبولیت بخشنے والی پی پی پی کی زنجیر اب سندھ کا احاطہ نہیں کر سکتی۔ اتنی چھوٹی اور بے بس سب کو نظر آرہی ہے۔اب بھی کچھ نہیں بگڑا فرض کو قضا کرکے ادا کر دیں جمہوریت کی دیوی مہربان ہو جائے گی۔ جمہوریت زندہ ہو جائے گی اور آپ زندہ جاوید۔ بات یہیں نہیں ختم ہوتی۔ ہماری معزز عدلیہ بھی سوموٹو ایکشن کے ذریعے اپنی گمشدہ خصوصی عدالت کا پتہ لگا سکتی ہے۔ اور اسے فعال بنا کر آئین و قانون پر عمل درآمد کروا سکتی ہے۔ کیوں؟ عدالت عالیہ آئین و قانون پر عمل درآمد کروانا جانتی ہے۔ تجویز ہے کہ بجلی کی پیداوار صوبوں کو دی جانی چاہئے۔ صوبے اپنے طور پر شمسی توانائی‘ ہوائی طاقت‘ سمندری لہروں اور نہری پانی کی روانی سے بجلی پیدا کر کے لوڈشیڈنگ کی قلت اپنے اپنے صوبوں میں دور کر سکتے ہیں۔ وفاقی پن بجلی کے منصوبے‘ ڈیموں کی تعمیر اور پاور سپلائی ایسے تمام معاملات بھی مکمل ہم آہنگی سے صوبوں کے سپرد کر دئے جائیں۔ وفاق کمزور نہ ہو اس کے لئے ضروری ہے کہ تمام صوبے مقرر کردہ میگاواٹ نیشنل گرڈ میں سسٹم میں لانے کے پابند ہوں گے۔ جس سے وفاق اپنی ضرورتیں پوری کرے گا۔ بات ہے وفاق کے کمزور ہونے کی۔ وفاق بجلی ہونے سے نہیں بجلی نہ ہونے سے کمزور ہو گا۔