سندھ۔ مسائل کی دلدل
سندھ میں نہری پانی کی کمی سے خریف کی بوائی متاثر ہے۔ مرچ‘ ٹماٹر سبزیاں ایک طرف کپاس کی فصل کو ناقابل تلافی نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے۔ وسطی‘ زیریں اوربالائی سندھ کے کسان سڑکوںپرہیں۔ نارا کینال جوسکھر بیراج سے نکلتی ہے اورسکھر‘ خیرپور‘ نواب شاہ‘سانگھڑ وعمر کوٹ اضلاع کی اراضی کو سیراب کرتی ہے۔مجموعی طورپر8 اضلاع کا وسیع رقبہ کاشت کیلئے اس پر انحصار کرتا ہے۔ ایسا ہی روہڑی کینال‘ پھلیلی کینال اور کئی دیگر کینالوں کا معاملہ ہے‘ جن کاکمانڈ ایریا بہت زیادہ ہے لیکن ا ن کینالوں کے ابتدائی سرے پرپانی چوری عام ہے اور یہ سلسلہ ذیلی نہروں‘ شاخوں اورواٹر کورسوں پربھی ہوتاہے‘ جسے محکمہ آبپاشی کا کرپٹ عملہ کنٹرول نہیں کرتا نتیجتاً خریف کی فصل کی ابتدائی بوائی پر کسانوں نے لاکھوں روپے رشوت دے کر پانی حاصل کیا کیونکہ اس بار برساتیں بھی نہیں ہوئی ہیں‘ ضلع عمر کوٹ کی کنجے شاخ کے آبادگاروں کاموقف تھا کہ ان کی نہر کو 2 ماہ سے فراہمی آب بند ہے لیکن ملحقہ نہروں اصالو اور گینہ کو فراہمی آب جاری ہے کیونکہ ان دونوں نہروں پر بااثر افراد کی اراضی موجود ہے۔ ”فیملی میگزین“ کو سینئرصحافی فتح روز خان نے بتایاکہ اس شاخ پر 15 ہزارایکڑ اراضی موجود ہے لیکن پانی نہ ہونے کی وجہ سے ایک ایکڑ پربھی خریف کی فصل نہیں بوئی جاسکی ہے۔ مجموعی طورپر نارا کینال‘ روہڑی کینال اورپھلیلی کینال کے کسان اور خیرپور گمبو کے آبادگارکئی ماہ سے سراپا احتجاج ہیں۔ قلت آب سے ہٹ کر انٹر کے امتحانات میں نقل کا ایشو ہے۔ پرچوں کا قبل ازوقت آﺅٹ ہونا‘ واٹس ایپ پر حل شدہ سوالات کی موجودگی‘ امتحانی مراکزمیں علی اعلان نقل اورپولیس و امتحانی عملے کی سرپرستی پر وزیراعلیٰ برہم نظر آئے اور انہوںنے یہاں تک کہا کہ اگر نقل ہی کرانی ہے تو کسی امتحان کے بغیر پاس کردیں۔ اگلے روز انہوں نے ڈویژنل و ضلعی حکام کو خصوصی اختیارات دئیے اور چھاپے مارے تو صورتحال کسی حد تک کنٹرول ہوئی لیکن بیشتر طلبہ کا کہنا تھا کہ سیاسی بنیادوں پر بھرتی کئے گئے اساتذہ خود متعلقہ شعبوں میں مہارت نہیں رکھتے۔ فزکس‘ ریاضی‘ سائنس اورانگریزی کے اساتذہ سے آئی بی اے ٹیسٹ لیا جائے تو اکثریت ان مضامین سے نابلد نکلے گی۔ یہی سبب ہے کہ میٹرک‘ انٹر اور دیگر امتحانات میں نقل کے ریکارڈ ٹوٹتے ہیں۔ خود سندھ کے تعلیمی حلقوں ہی کو نہیں قوم پرستوں‘وفاق پرستوں اوردیگر کو بھی ا حساس ہے کہ سندھ کو جان بوجھ کر تعلیمی پسماندگی کی سمت دھکیلا جارہا ہے۔ اینٹی ون یونٹ تحریک سے سندھ کے جمہوری تشخص کو جلا ملی تھی اور ایم آر ڈی نے اسے بام عروج پرپہنچایا تھا لیکن اینٹی ون یونٹ موومنٹ کے بعد نقل کے کلچرکو عام کیا گیا اور درسگاہیں‘ بھتہ خوری‘ مغویوں کوپناہ دینے کے حوالے سے بدنام ہوئیں۔ اسی زمانے میں سندھ یونیورسٹی کے انٹر نیشنل ہاسٹل کوکیٹی جام شورو کہا جاتا تھا۔ یادرہے کہ دریائے سندھ کے کچے میں بااثر افراد سے منسوب علاقے کیٹی کہلاتے ہیں اوراس زمانے میں وہ ڈاکوﺅں کے ٹھکانے تھے۔ ایم آر ڈی کے بعد سندھ میں ڈاکوﺅں کوابھاراگیا‘ باشعور حلقے اسے سندھ کے خلاف مذموم سازش سے تعبیر کرتے ہیں۔ اب پھر نقل عروج پر ہے تو ا سے صوبے کے تعلیمی مستقبل کیلئے خطرہ تصور کیا جارہا ہے‘ ویسے بھی سندھ کی سیاسی قیادت کو کئی عشروں کے بعد میرٹ کی بالادستی یاد آئی ہے لیکن اس وقت تک کروڑوں کیوسک پانی گڈو‘ سکھر اور کوٹری کے بیراجوں سے سمندر کی سمت جا چکا ہے۔ سانپ کے گزرنے کے بعد لکیر پیٹنے کا کوئی فائدہ نظر نہیں آتا۔ ایک رپورٹ کے مطابق سندھ میں 5 ہزار 384 اسکول بند پڑے ہیں اور صوبے میں 27 بچوں کیلئے ایک ٹیچر موجود ہے۔ صوبے کی نصف آبادی خواتین کی ہے لیکن لڑکیوں کیلئے محض 50 ہزار 97 معلمات موجود ہیں اورصوبے کے 35 فیصد بچے اسکول نہیں جاتے اور سندھ کے 50 فیصد سے زائد اسکولوں میں پینے کا پانی موجود نہیں ہے۔ یہی صورتحال چار دیواری‘ بیت الخلائ‘ فرنیچر اور بجلی و دیگر سہولتوں کی ہے۔ سیاست کے میدان میں ایک دوسرے کومطعون کرنے والی لیڈر شپ صحت‘ تعلیم آمدروفت اور بدامنی و غربت کے مسائل کونظرانداز کئے ہوئے ہے۔ نتیجتاً صوبے کے باشندے مسائل کی دلدل میں دھنسے ہیں۔