راج دھانی۔ سرفراز راجا
ایک سینئر پاکستانی سفارتکار سے لگ بھگ ڈھائی تین سال بعد ملاقات ہوئی،بات چیت یا یوں کہہ لیں بحث کا سلسلہ وہیں سے شروع ہوا جہاں تین سال قبل ملاقات کا اختتام ہوا تھا۔ وہ عمران خان حکومت کے آخری مہینے تھے مہنگائی کے خلاف لوگ سراپا احتجاج تھے اور اس وقت کی اپوزیشن بھی سڑکوں پر آچکی تھی، مہنگائی مکاو مارچ چل رہے تھے۔ ان دنوں انھی سفیر صاحب کے ساتھ بیٹھک کا موقع ملا ،گپ شپ کے دوران یقینا ملکی حالات ہی زیر بحث آئے۔ سفیر صاحب نے پوچھا، آپ کے خیال میں اس وقت پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ کیا ہے؟ جواب دیا، یقینا مہنگائی۔ کہنے لگے مہنگائی عوامی مسئلہ تو ہے قومی مسئلہ نہیں کہا جاسکتا۔ بولے، اس وقت ہمارا سب سے بڑا قومی مسئلہ سفارتی تنہائی ہے۔
ستمبر 2016ءمیں مقبوضہ کشمیر میں فوجی کیمپ پر حملے کے بعد بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے پاکستان کو ایک بڑی خوفناک دھمکی دی جس کو سب نے نظر انداز کیا۔ مودی نے کہا تھا کہ وہ پاکستان کو سفارتی طور پر دنیا میں تنہا کردیں گے۔ یہ کام شاید اتنا آسان نہ ہوپاتا لیکن اس میں ہماری حکومت کی پالیسیوں اور رویوں نے جلتی پر تیل ڈالا اور ایسے دوست ممالک جن کو پاکستان سے دور کرنا شاید بھارت کے لیے ایک مشکل ترین کام ہوتا ہم نے خود کر ڈالا، آپ کوئی یوٹرن لیں اور اپنے حمایتیوں کو مطمئن کردیں کہ پہلے وہ ٹھیک تھا آج یہ ٹھیک ہے، یہ کام مقامی سیاست میں تو چل سکتا ہے، دنیا اسے نہیں مانے گی۔ سیاسی مخالفین کو بدنام کرنے کے لیے سی پیک منصوبوں میں کرپشن کے الزمات لگا کر ان پر کام کی رفتار سست کرکے چین جیسے دوست ملک کی ناراضگی مول لے لی تو ترکی اور ملائیشیا کے ساتھ کانفرنس پلان کر کے سعودی عرب کے کہنے پر شرکت نہ کرکے ترکی اور ملائشیا جیسے اہم ملکوں کو دور کردیا۔ پھر کابینہ کی بھری محفل میں سعودی ولی عہد کے خلاف بات کرکے اس اہم ترین دوست ملک کو بھی ناراض کردیا۔
جاتے جاتے سیاسی مقاصد کے لیے آئی ایم ایف کے ساتھ منتوں ترلوں کے بعد کیا جانے والا معاہدہ توڑ ڈالا۔ ایسے وقت میں روس سے ہاتھ ملانے پہنچ گئے جب دنیا یوکرائن پر حملے کی وجہ سے اسے برا بھلا کہہ رہی تھی اور پھر حکومت جانے کے بعد سائفر پر ’کھیل‘ کر پاک امریکا تعلقات کے ساتھ بھی کھلواڑ کردیا۔ پیچھے بچا کیا تھا؟ صرف دوست ملکوں کو ہی ناراض نہیں کیا بلکہ آپ نے تو دنیا بھر میں اپنے سفارتی نمائندوں کو ہی آن لائن اجلاس میں ہیڈ لائنز بنانے کے لیے ڈانٹ ڈپٹ کرکے ان کا مورال صفر ڈال کر ڈالا۔ تو جو آپ کا دشمن چاہ رہا تھا وہ سب تو آپ نے خود کر دیا۔ بھارتی وزیر اعظم نے تو محض جلسے میں نعرہ لگایا تھا لیکن جو ہوا اس میں تو اس کا کوئی بڑا کردار نہیں۔ آپ نے خود ہی یہ سب کر ڈالا۔
تین سال پہلے والی یہ ملاقات مایوسی کی باتوں سے شروع ہوکر بہتری کی امید اور دعا پر ختم ہوئی جس کی انھیں اس وقت امید کم کم ہی دکھائی دے رہی تھی۔ تین سال بعد ہونے والی ملاقات میں بھی بات مہنگائی سے ہی شروع ہوئی ویسے احتجاج ویسے دھرنے فرق یہ تھا کہ اس وقت کے حکمران جو مہنگائی کو عالمی مسئلہ قرار دے کر بری الذمہ ہورہے تھے۔ آج اپوزیشن کی حیثیت سے اسے عوامی مسئلہ قرار دے کر حکومت کو ذمہ دار ٹھہرا رہے ہیں۔لیکن اس ملاقات میں سفیر صاحب کی آنکھوں میں ناامیدی نہیں بلکہ ایک امید دکھائی دے رہی تھی۔ بولے، اللہ کا شکر ہے کہ دشمن ناکام ہورہا ہے، ہماری سفارتی تنہائی ختم ہورہی ہے۔ دنیا میں جہاں جس سے بات ہو اچھا ردعمل مل رہا ہے جو کسی بھی سفارتکار کو اطمینان کا احساس فراہم کرتا ہے۔
سفارتکاروں کی گفتگو میں اکثر سیاسی پہلو سفارتی پہلووں پر حاوی نہیں ہوتا۔ وہ سیاست کو بھی سفارتی نکتہ نظر سے دیکھتے ہیں۔ لیکن یہاں انھوں نے وزیراعظم شہباز شریف کی تعریف کی اور کہا کہ پی ڈی ایم کی سولہ ماہ کی حکومت میں جس طرح انھوں نے تیرہ جماعتوں کے اتحاد کو چلایا کسی کو ناراض یا دور نہیں ہونے دیا محسوس ہورہا تھا کہ وہ سفارتی سطح پر بھی ایسا کرسکتے ہیں ،اگرچہ یہ بڑا چیلنج تھا سفارتی تعلقات میں دراڑوں کو بھرنا مشکل کام ہوتا ہے بطور سفارتکار ہم نے ان کے سفارتی رویوں اور حکمت عملی کو بغور دیکھا۔ انھوں نے غیر ملکی اور دوست ممالک کے سربراہان سے روایتی اور شیڈولڈ ملاقاتوں سے ہٹ کر موقع دیکھ کر جس طرح غیر رسمی انداز اور غیر روایتی انداز میں ملاقاتیں اور گفتگو کی اس نے سفارتی تناو اور غلط فہمیاں دور کرنے میں بڑی مدد دی اور اب ہم کہہ سکتے ہیں کہ چین ،سعودی عرب، یو اے ای جیسے دوست ملکوں کے ساتھ تعلقات بحالی کی جانب گامزن ہیں۔ تو شہباز کی پروازوں نے بڑا کام دکھایا ہے،دراصل مہنگائی عوامی اور علاقائی مسئلہ ہے جس کا دیرپا حل لوگوں کے لیے ذرائع روزگار اور وسائل پیدا کرنے سے ہی ممکن ہے اور حالات اس طرف جارہے ہیں کہ ملک میں غیر ملکی سرمایہ کاری آسکے،تو تین سال بعد ہونے والی یہ ملاقات اب مایوس کن نہیں بلکہ امید افرا تھی جو اس دعا کے ساتھ ختم ہوئی کہ آئندہ ملاقات مزید اچھی امیدیں کے ساتھ ہو۔