پی آئی اے انکوائری رپورٹ پر اٹھنے والا طوفان!
ہم عجیب قوم ہیں ناجائز منافع خوری کیلئے غذا کی ضروریات ذخیرہ کرتے ہیں بوقت ضرورت جان بچانے والی ادویات غائب کردیتے ہیں۔ رمضان شریف کے مقدس مہینے کو مال بنانے کیلئے ’’سیزن‘‘ قرار دے کر ناقص خورا ک ودیگر مال مہنگے داموں فروخت کرتے ہیں۔ حالانکہ نہ ہی ہمارادین اس کی اجازت دیتا ہے نہ ہی ملک کے قوانین یا ہماری معاشرتی اخلاقیات ۔ اس کے باوجود ہم اس پر شرمندہ ہونے کی بجائے یہ سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں کیونکہ نہ کوئی پوچھنے والا ہے نہ پکڑنے والا ۔ ملک میں پیش آنے والے اچھے بُرے واقعات پر بھی ہمارا ردعمل منافقت پر مبنی ہوتا ہے۔ کوئی قتل ہوجائے توہمیں مقتول کو جلد انصاف دلوانے کی جلدی ہوتی ہے اور جب قاتل کو سزا دینے کا وقت آتا ہے تو ہم اس کی حمایت میں کھڑے ہوجاتے ہیں۔ہم نے سیاست میں بھی اپنے اپنے بت تراش رکھے ہیں۔ اپنی پسندیدہ سیاسی شخصیت ہمارے لیے زمین پر خدا کا اوتار ہے۔ جس سے نہ کوئی غلطی سرزد ہوسکتی ہے نہ ہی وہ کسی جرم کا مرتکب ہو سکتا ہے اوریہی جمہوریت کیلئے ہمارا پیمانہ ہے جس میں عوام الناس کے حقوق کوئی معنی نہیں رکھتے ہم اپنے لیے عدل کا پیمانہ بھی مختلف رکھتے ہیں ۔ ظلم کو قسمت کا لکھا سمجھ کر برداشت کرتے ہیں اور دوسروں پر ظلم کو اپنا حق ، ماڈل ٹائون لاہو ر میں پولیس کے ہاتھوں عوام پر ہونے والا تشدد اور پولیس ہی کی فائرنگ سے بہت سے افراد کا قتل سب نے ٹیلی ویژن چینل پر براہ راست دیکھا اسی طرح ساہیوال میںموٹر وے پر پولیس کے ہاتھوں مرنے والوں کی ویڈیوزبھی سوشل میڈیا پر ہر ایک نے دیکھی لیکن سفاکیت پر مبنی دونوں واقعات پر ہماری رائے سیاسی ضرورت کے تابعہ ہے۔ جس میں ہمیں انصاف نہیں اپنی پسند کا عدل چاہیے ۔ ہم خود قانون توڑ کر خوشی محسوس کرتے ہیں اور دوسروں کو قانون پر عمل کرنے کی تلقین کرتے ہیں۔
ہماری یہی دو عملی ہے جس نے پوری دنیا میں ہمارا تماشہ بنارکھا ہے ،پی آئی اے انکوائری کمیشن کی رپورٹ پر ردعمل دیکھ لیں جس میں حقائق سامنے آنے پر جعلی ڈگریاں و لائسنس رکھنے والے ہوابازوں اور انہیں مسافر برادر طیارے اڑانے کی اجازت دینے والوں کو قانون کے مطابق سزادینے کا مطالبہ کرنے کی بجائے رپورٹ سامنے لانے والوں کو قصور وار قرار دے کر درپردہ جعل سازوں کی حمایت کی جارہی ہے ۔ یہ کس طرح کی سیاست ہے جس میں مسافروں سے زیادہ ان کی زندگی دائو پر لگانے والے مظلوم بناکر پیش کیے جارے ہیں ۔ غصہ اس بات پر نہیں کہ جب پی آئی اے کے پاس اڑان بھرنے کیلئے طیارے صرف 32ہیں تو انہیں اڑانے کیلئے 856ہواباز کیوں ؟ یورپی یونین و برطانیہ کی طرف سے پی آئی اے پر لگائی گئی چھ ماہ کی پابندی پر شرمندگی کا اظہار کرتے ہوئے رپورٹ جاری کرنے والوں کو مجرم قرار دیا جارہا ہے ۔ کہا جارہا ہے کہ رپورٹ کو چھپا لیا جانا چاہیے تھا۔ اس پر آہستہ آہستہ کاروائی عمل میں لائی جانی چاہے تھی تاکہ بیرون ملک پاکستان کی سبکی نہ ہو۔ یہی رپورٹ جب لیک ہوکرٹیلی ویژن ٹاک شو میں سامنے آتی تو پھر حکومت پر جعلی ڈگریاںو پرواز کے جعلی لائسنس رکھنے والے ہوابازوں کو تحفظ دینے کا شور اٹھنا اور دنیا بھر میں پی آئی اے کیلئے زیادہ مشکلات پیدا ہوئیں اور اگر856 میں سے 262کی ڈگریاں یا ہوابازوں مشکوک نکل آئے تو ہمیں اطمینان ہونا چاہیے کہ جب باقی مستند ہوابازوں کے ساتھ جب پی آئی اے کے 32طیارے پرواز کریں گے تو پوری دنیا میں پی آئی اے کی ساکھ بحال ہوگئی اور1960 کی دہائی کی طرح پوری دنیا کے لوگ پاکستان ایئرلائن پر سفرکرنا پسند کریں گے۔ ہم کیوں بھول رہے ہیں کہ چند سال پہلے سعودی عرب کو یت متحدہ عرب امارات اور چند دیگر خلیجی ریاستوں نے پاکستان سے تعلق رکھنے والے ان بہت سے ڈاکٹر حضرات کو یہ کہہ کر فارغ کردیا تھا کہ ان کے پاس موجود Master in Surgery(MS)اور Doctor of Medicine(DM)کی ڈگری ان کیلئے قابل قبول نہیں کیونکہ اس کا موازنہ FCPS،FRCSیا MRCS سے نہیں کیا جاسکتا ، ڈاکٹروں کو نکالے جانے کی خبروں پر نہ تو پاکستان میں اسے پاکستان کی بدنامی سے تعبیر کیا گیا نہ ہی پاکستان میں اپوزیشن پارلیمنٹ وسینیٹ میں اس پر سوال اٹھا ۔ پاکستان میں حکومت اور وزارت خارجہ نے بھی اس پر بات کرنے یا نکالے گئے ڈاکٹروں کی اہلیت کو مدنظر رکھتے ان ممالک سے بات کرنے کی کوشش نہیں کی جہاں سے انہیں نکالایا گیا تھا ۔کچھ عرصے بعد یہ خبر دب کر رہ گئی، لیکن پی آئی اے کا مسئلہ تو سیاسی مداخلت و بھرتیوں کی وجہ سے عرصہ دراز سے ملک میں زیربحث چلاآرہا ہے ۔ پی آئی اے کے تکنیکی معاملات پر باہر کی دنیا بھی تحفظات کا اظہار کرتی رہی ہے لیکن بجائے اصلاح کے ہر گزرتے دن کے ساتھ بگاڑ میں اضافہ ہی ہوتا نظر آیا ۔ پی آئی اے کا جب کبھی کوئی بدقسمت طیارہ کریش ہوتا تو کچھ عرصہ تک قومی ایئرلائن میں موجود خرابیوں پر بات ہوتی، جاں بحق ہونے والے مسافروں و عملہ کیلئے ہمدردی کا اظہار کیا جاتا ۔ کریش کی وجوہات جاننے کیلئے انکوائری کمیشن تشکیل دیا جاتا تاہم رپورٹ آنے تک لوگ حادثے کو بُھلا چکے ہوتے یوں انکوائری رپورٹ منظر عام پر لانے کی ضرورت باقی نہ رہتی۔
کراچی میں ایرپورٹ پر رن وے سے تھوڑا قبل ماڈل کالونی کی آبادی پر 22مئی کو گرنے والی پی آئی اے کی ایئر بس ایک ایسا سانحہ تھا جس میںپرانے زمانے کا فوکر یا ATRجہاز نہیں بلکہ عالمی شہریت یا مسافر بردار طیارہ ساز ادارے سے European Multinational Aerospace Corporation کی ساکھ جڑی ہوئی تھی۔ جس کے تیار کردہ Airbus طیارے دنیا کی تمام عالمی شہرت یافتہ فضائی کمپنیوں کے زیراستعمال تھے۔ طیارے کو حادثہ پیش آتے ہی اس کی وجوہات پر بحث شروع ہوگئی ۔پی آئی اے ، سی اے اے یا کراچی ایرپورٹ سے کسی نے بھی یہ نہیں بتایا کہ طیارہ گرنے سے قبل لینڈنگ کی ایک کوشش میںپہیے نہ کھلنے کے باوجود رن وے پر رگڑ یں کھا چکاتھا۔ یہ انکشاف سب سے پہلے حادثے میں زندہ بچ جانے والے 2مسافروں میں سے ایک نے ٹیلی ویژن پر نشر ہونے والے اپنے بیان میں دیا۔ تکنیکی طور پر حادثے کی وجوہات سے عوام تک آگاہی اس وقت پہنچی جب پاکستان سے باہر ایک سابق ہوا باز اور فضائی سیکورٹی کے ایکسپرٹ نے اپنی 9منٹ کی ویڈیو میں حادثے کی بظاہر سامنے آنے والی وجوہات پر تفصیل کے ساتھ روشنی ڈالی ۔ جس سے یہ ثابت ہوگیا کہ طیارہ فنی خرابی سے زیادہ انسانی غلطی کا شکار ہوا تھا۔ اس پر ہوا بازوں کی یونین اپنی ساکھ بچانے اور پی آئی اے اورسی اے اے والے خود کو بری الذمہ ثابت کرنے کی تگ و دو میں لگ گئے۔ حکومت نے واضح کیا کہ انکوائری رپورٹ کو ماضی کی طرح نہیں چھپایا جائے گا۔ جب تک رپورٹ نہیں آئی اس پر سیاسی بیان بازی جاری رہی۔ ساتھ ہی پی آئی اے جیسے قومی ادارے کی تباہی کے ذمہ داران کی بابت بھی ماضی کے قصے سوشل میڈیا پر وائرل ہوتے رہے ۔ اس طرح نئی نسل کو بھی اندازہ ہواگیا کہ کس طرح پی آئی اے ، اسٹیل مل و ریلوے کو کیسے گھرکی لونڈی سمجھ کر پامال کیا جاتا رہا ہے کہ جس سے ہونے والا خسارہ پوری قوم کے وسائل کو دیمک کی طرح اندر سے چاٹ کر کھوکھلا کر چکا ہے ۔ رپورٹ آئی تو حکومت نے اس کے ساتھ جعلی ڈگریوں و مشکوک طریقے سے حاصل کردہ ہوابازی کے لائسنسوں کی تفصیلات بھی پارلیمنٹ میں پیش کردیں۔ تواس پر طوفان کیوں برپا ہے۔ آج نہیں توکل یہ پنڈوراباکس کھلنا ہی تھا۔ مشکوک ہوابازوں پر پابندیوں سے پوری دنیا کو پیغام دیا گیا کہ پی آئی اے اپنے مسافروں کے تحفظ کو اولیت دیتی ہے ۔ اب وہی ہواباز جہاز کو فضا میں بلند کر پائے گا جو 100فیصد معیار پر پورا اترے گا۔ اس وقت پوری دنیا میں فضائی کمپنیاں کرونا وائرس کی وجہ سے مالی نقصان اور خسارے کی وجہ سے پابندیوں کا شکار ہیںبرٹش ایئرویز جیسا برطانوی فضائی ادارہ بندکردیا گیا ہے۔ یہ بھی اچھا ہوا کہ ان حالات میں پاکستان کوپی آئی اے کے معاملات درست سمت میںلانے کا موقع ملا ہے تواس سے مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ۔ پی آئی اے قومی ادارہ ہے کسی فرد یا جماعت کا ذاتی کاروبار نہیں پاکستان کی شناخت اس ادارے کی ساکھ سے جڑی ہے۔ اس ادارے کو پاکستان کے شایانِ شان بنانا ہم سب کی ذمہ داری ہے ۔