جنت کا ٹکرا ہے قدر کیجیے
ہم پاکستانی آزاد فضا میں سانس لے رہے ہیں اس لیے آزادی کی قیمت سمجھنے سے قاصر ہیں کہ آزادی وہ نعمت ہے جس کے لیے آج ہمارے کشمیری بھائی جدوجہد کررہے ہیں جسے حاصل کرنے کے لیے ہمارے آبائواجداد نے جدوجہد کی اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرکے ہمیں پاکستان جیسا ملک دیا تاکہ ہم آزاد فضا میں سانس لے سکیں ۔مگر آفسوس آج ہم اس ملک کی قدر کرنے کو تیار نہیں ہم ہر وقت کہتے رہتے ہیں آخر کو اس ملک میں ہے کیا ٹوٹی پھوٹی سڑکیں ،کچروں کے ڈھیر،بجلی کی لوڈشیڈنگ،گیس کی لوڈ شیڈنگ،مہنگائی،مہنگی تعلیم،چوری چکاری اس ملک میں اتنے مسئلے ہیں کہ ہمیں موقع ملے تو امریکہ ،برطانیہ میں ہی جاکر بسیں مگر بس کیا کریں وسائل نہیں ۔کیا یہ سارے مسائل ہمارے اپنے پیدا کردہ نہیں کچراکونڈیاں صاف ہوتی ہیں ہم پھر اِدھر ادھرکچرا پھینکنا شروع کردیتے ہیں اور گندگی ہوجاتی ہے‘ بجلی نہیں ہوتی تو شور مچاتے ہیں اور ہو تو کمروں کے پھنکے کھلے چھوڑ دیتے ہیں گیس نہیں ہو تو روتے ہیں اور ہو تو چولہا بند کرنا بھول جاتے ہیں ہم ان سارے معمولی مسائل میں یہ بھول جاتے ہیں کہ پاکستان وہ ملک ہے جہاں کاشت کاری کی ذریعے بہترین پھل اور سبزیاں اگائی جاتی ہیں ۔پاکستان میں پھلوں کا بادشاہ آم اگتا ہے جس کی ایک نہیں بلکہ دس سے بارہ اقسام صرف پاکستان میں ہی اگتی ہیں گرمیوں میں پھلوں کی لائن لگ جاتی ہیں جس میں آڑو،خوبانی ،آلوچہ،آنگور،ناشپاتی،تربوز،خربوزہ،کشمیری سیب ،کیلا،لیچی،چیری اور دیگر پھل شامل ہیں دیگر ممالک یہ پھل امپورٹ کرتے ہیں تاکہ ان کے شہری یہ پھل کھاسکیں۔ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ پاکستان میں کے ٹو ہے جو دوسری بڑی پہاڑی چوٹی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ دیگر پہاڑی سلسلے میں موجود ہیں جنہیں سر کرنے لوگ پاکستان کا رخ کرتے ہیں۔ہمارے پاسشمالی علاقی جات ہیںجو پاکستان کا سوئزرلینڈ ہیں ۔ہم یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ ہمارے گھروں میں قدرتی گیس یعنی سوئی گیس پہنچ رہی ہے جو نایاب ہے۔ہم یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ اس پاکستان کا قومی جانور مارخور وہ واحد بکرا ہے جو پہاڑی پر چل سکتا ہے اور صرف پاکستان میں ہی پایا جاتا ۔ہم یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ ہمیں ایٹمی طاقت بنانے والے سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان اکیلے نہیں بلکہ ان جیسے کئی جوہر نایاب اس ملک میں سانسیں لے رہے ہیں اور ہر گزرتے دن کے ساتھ کارنامے انجام دے رہے ہیں۔پاکستان وہ ملک ہے جو ہر قسم کے قدرتی ذخائر سے بھرا ہوا ہے اس ملک کو قدردانوں کی ضرورت ہے پھر چاہے وہ سیاست دان ہو یا عوام ۔( مبشرہ خالد۔کراچی )