چور کی سزا کیا ہونی چاہیئے
پاکستان میں آجکل یہ بحث چل رہی ہے کہ پی آئی اے میں اگر اتنی زیادہ تعداد میں جعلی پائلٹ تھے تو اس بات کا اس قدر واویلا نہیں ہونا چاہئیے تھا کہ ساری دنیا کو یہ بات پتہ چلتی۔ کہنے والے یہ کہہ رہے ہیں کہ اسطرح ساری دنیا میں پاکستان کی بدنامی ہوئی ہے۔ ایک بات قابلِ غور ہے کہ یہ بات کون لوگ کر رہے ہیں ؟ یہ بات وہ لوگ کر رہے ہیں جن کی حمایت یافتہ حکومتوں میں پی آئی اے جیسے حساس ادارے میں جعلی ڈگریوں پر یہ جعلی پائلٹ بھرتی ہوئے تھے۔ یعنی کہ چور کی چوری کو چھپایا جاتا تاکہ پاکستان میں لوگ چوری آسانی سے کر سکیں کہ بدنامی تو ہونی نہیں ہے۔ اس سے پہلے جب پچھلے سال وزیراعظم نے امریکہ میں خطاب کے دوران کرپٹ سیاستدانوں کا ذکر کیا تھا تو کچھ لوگوں کو یہ بات انتہائی ناگوار گزری کہ انکے چہیتے لیڈروں کی ساری دنیا میں بدنامی کروا دی گئی۔ حالانکہ یہ بات تو کرپشن یا چوری کرنے سے پہلے چور اور کرپٹ شخص کو سوچنی چاہیئے کہ اگر دنیا کو اسکی چوری اور کرپشن بارے معلوم ہو گیا تو اسکی کیا عزت رہ جائے گی مگر اس وقت یہ کون سوچتا ہے اس وقت انکا مقصد دولت اکھٹی کرنا ہوتا ہے۔ہمارے مذہب اسلام میں جرائم کی جو بھی سزائیں مقرر کی گئی ہیں جنکا مقصد صرف اور صرف معاشرے کو سْدھارنا ہے ، تاکہ نفسیاتی طور پر دوسرے لوگ اس سزا سے سبق حاصل کریں اور اس طرح معاشرے میں سے جرائم کا خاتمہ ممکن ہو سکے اسی لیے تمام سزائیں چاہے وہ کسی بھی جْرم کی ہوں سرِعام دینے کا حکم ہے تاکہ دوسرے لوگوں کو عبرت حاصل ہو۔ اس لیے ضروری ہے کہ کسی بھی جْرم پر پردہ نہ ڈالا جائے چاہے وہ جرم کتنا ہی بڑا یا کتنا ہی چھوٹا کیوں نہ ہو۔ مذکورہ پی آئی اے کا معاملہ ہو یا پھر پاکستان میں دوسرے کرپشن کے کیسز ہوں سب کا منظرِعام پر آنا اسی لیے ضروری ہے تاکہ ہمارے ملک میں سے کرپشن اور اقربا پروری کی حوصلہ شکنی کی جائے اور آئندہ کوئی بھی بااثر یا بااختیار شخص اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال نہ کر سکے۔ سزا اور جزا کے نظام کے بغیر کسی بھی معاشرے کا ترقی کرنا نا ممکن ہے۔پاکستان میں تقریباً تمام سرکاری اداروں کا حال پی آئی اے جیسا ہی ہے جن میں نہ صرف جعلی ڈگری ہولڈرز کی بھرمار ہے بلکہ بوگس ملازمین کی بھی لْوٹ سیل لگی ہوئی ہے۔ بوگس اور گھوسٹ ملازمین میں میرے خیال میں تعلیم کا شعبہ نمبر ایک پر ہو گا۔تعلیم کا شعبہ چونکہ صوبائی شعبہ ہے اس لیے اسکا چیک اینڈ بیلنس بھی تمام صوبائی حکومتوں کی ذمہ داری ہے مگر خود صوبائی حکومتوں کی نمائندے ان غیر قانونی بھرتیوں میں شریک جرم ہوتے ہیں اسلیئے وہ اس جرم پر پردہ ہی ڈالنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ہمارے سیاستدانوں کی یہ تاریخ رہی ہے کہ وہ جس بھی پارٹی سے تعلق رکھتے ہوں سرکاری اداروں کو گھر کی باندی سمجھ کر استعمال کرتے رہے ہیں۔ ہر سیاستدان نے حسبِ استطاعت سرکاری اداروں کو نقصان پہنچایا ہے۔ جن سیاستدانوں کی پہنچ ذرا زیادہ تھی انہوں نے بڑے بڑے اداروں کو بگاڑا ہے جبکہ جو ذرا سیاسی طور پر کم قد کاٹھ والے سیاستدان رہے ہیں انہوں نے اپنے اپنے لیول پر اداروں کی تباہی کی ہے۔ پولیس کے محکمے کو ہر صوبائی حکومت نے اپنے اپنے سیاسی مقاصد حاصل کرنے کے لیے سیاست زدہ کیا ، چاہے سندھ پولیس ہو یا پنجاب پولیس دونوں اداروں کو دو بڑی سیاسی جماعتوں نے اپنے اپنے ذاتی مفادات کے لیے استعمال کیا۔ جب جب بھی پولیس میں نئی بھرتیاں کی گئیں صوبائی وزارا اور ممبران صوبائی اسمبلیوں نے اپنے من پسند لوگوں کو خلافِ میرٹ نوازا۔ یہاں تک بھی کہا جاتا ہے کہ پولیس کے اندر مجرم بھرتی کروائے گئے ،
سیاسی مخالفین اور کمزور طبقے کو کچلنے کے لیے بھی اسی پولیس کو استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ قبضہ گروپس ، اشتہاری مجرمان ، بھیک مافیا ، ڈاکوؤں اور چوروں کے گروہوں کے ہماری پولیس کے ساتھ مالی مراسم قائم ہیں ، جب جب بھی کوئی سیاسی بھرتی شدہ اہلکار کسی جرم میں پھنستا ہے تو اسے بھی ہمارے سیاستدان ہی نکلواتے ہیں۔ اسی طرح پاکستان ریلوے ، پاکستان اسٹیل ملز ، واپڈا کی تمام کمپنیاں ، تمام شہروں کی ڈیولپمنٹ اتھارٹیز ، اور دوسرے چھوٹے بڑے صوبائی سرکاری محکمے سب کے سب کو مکمل کانٹ چھانٹ کی ضرورت ہے۔موجودہ حکومت اگر قومی اداروں کو صاف اور شفاف بنانا چاہتی ہے تو اسے تمام سرکاری اداروں کا شفاف آڈٹ کروانا پڑے گا تاکہ تمام تر بے قاعدگیاں اور بے ضابطگیاں عوام کے سامنے آ سکیں اور عوام کو اپنے لیڈروں کے کارنامے بھی نظر آ سکیں۔