جمعرات‘ 17؍ذیقعد 1441 ھ‘ 9؍جولائی 2020ء
کشمیریوں پر مظالم بے نقاب کرنے والے 3 فوٹوگرافرز کیلئے عالمی ایوارڈ
مولانا فضل الرحمن بھی خاصے کی چیز ہیں۔ ان میں وہ تمام صفات پائی جاتی ہیں جو ایک جنونی لیڈر میں ہونا ضروری ہیں۔ شکست یا فتح ان کیلئے کوئی معنی نہیں رکھتی۔ وہ حقیقی معنوں میں تخت یا تختہ کے اصول پر عمل پیرا رہتے ہیں۔ بزلہ سنجی بھی ان میں کوٹ کوٹ بھری ہے۔ اب انہوں نے مائنس ون‘ مائنس تھری‘ مائنس 160 ڈگری کے مقابلے میں ایک نیا شگوفہ مائنس آل کی شکل میں چھوڑا ہے۔ ویسے تو مائنس آل کا مطلب بھی یہی نکلتا ہے کہ موجودہ سیاستدانوں کو خواہ حکمران ہوں یا حزب اختلاف والے اٹھا کر دریا برد کیا جائے اور پھر ایک نئی فوج ظفر موج کو تیار کیا جائے کہ وہ آکر زمام حکومت سنبھالے۔ اب اس بات کی بھی کوئی گارنٹی نہیں کہ نئے آنے والے سب گنگا نہائے ہونگے۔ دودھ کے دھلے ہونگے۔ چلیں قصہ مختصر کرتے ہیں۔ آج جو مولانا نے اے پی سی بلائی ہے‘ کیا اسے اے پی سی کہتے ہیں کیونکہ اپوزیشن جماعتوں کا انتشار تو ابھی سے نمایاں ہو گیا ہے۔ مسلم لیگ (ن) والوں کا کہنا ہے اے پی سی اس ماہ کے آخر میں ہوگی۔ اگر یہ بات درست ہے تو جو آج ہو رہی ہے‘ وہ کیا اے بی سی ہے۔ ایسی باتوں کی وجہ سے اپوزیشن کی کمزوری ظاہر ہورہی ہے جو حکومت کیلئے باعث اطمینان ہے اور وہ اپوزیشن کے ٹکڑے ٹکڑے ہونے پر؎
پہلے اس نے مس کہا پھر تق کہا پھر بل کہا
اس طرح ظالم نے مستقبل کے ٹکڑے کر دیئے
والی پھبتی کس رہی ہے۔ عام لوگ بھی اب بھان متی کا کنبہ والے محاورہ کے معنی بخوبی سمجھنے لگے ہیں مگر اپوزیشن والوں کو سمجھ نہیں آتا۔ اب دیکھتے ہیں آج کی اے پی سی کیا کرتی ہے۔
٭٭٭٭٭
نمبر ون سے لگائو‘ خاتون نے گاڑی سے زیادہ کی قیمت دیکر خرید لیا
بے شک شوق نفع و نقصان سے بے نیاز جذبہ ہے مگر اس شوق کو پورا کرنے کیلئے جیب کا بھاری ہونا بھی ضروری ہے۔ پنجابی کا ایک شعر ہے…؎
جس بندے دے ہتھ وچ سو دے
اس بندے دی بولی پیسہ بولدا اے
سچ بھی یہی ہے کہ جس کے ہاتھ میں پیسہ ہو‘ پیسہ اس کی زبان میں بات کرتا ہے۔ اس خاتون نے بھی گاڑی کی قیمت سے زیادہ پیسے دیکر اپنی گاڑی کیلئے ایک نمبر خریدا۔ لگتا ہے انہیں نمبر ون کہلانے کا شوق ہے۔ خدا کرے وہ بیٹی بھی نمبر ون ہو‘ ماں بھی نمبر ون اور بیوی بھی نمبر ون۔ یہ چکر سمجھ سے بالاتر ہے کہ ایک کم قیمت گاڑی کیلئے نمبر ون کی نیلامی میں اتنی بڑی رقم خرچ کرنا کہاں کی دانشمندی ہے۔ مگر وہی بات ’’شوق دا کوئی مُل نہیں‘‘ ہو سکتا ہے جب خاتون نے گاڑی لی‘ اس وقت ان کے پاس زیادہ پیسے نہ ہوں‘ اب آگئے ہوں۔ کشمیری زبان کی ایک مثال ہے ’’چھس نہ کرئی کیہ‘‘ ’’جب ہو تو کیا کروں‘‘ یعنی پیسے آجائیں تو خرچہ نہ کروں تو اور کیا۔ دولت تو نمودونمائش کا ذریعہ ڈھونڈتی ہے۔ بہت کم لوگ اسے چھپا کر رکھتے ہیں یا صحیح راستے پر خرچ کرتے ہیں۔ اکثر لوگ اس طرح جیسے آتے ہیں‘ خرچ کرتے ہیں۔
نجانے کیوں انسان ’’لگائی نہیں زیادہ جمع کرنے کی حسرت‘‘ پر غور نہیں کرتا۔
٭٭٭٭٭
نوازشریف جان بوجھ کر مفرور‘ عدالتی اشتہار عوامی مقامات پر چسپاں
ویسے بھی سیاستدان ہوں یا فنکار‘ وہ پبلسٹی کے شوقین ہوتے ہیں۔ اگر یہ پبلسٹی مفت ہو رہی ہو تو اس میں کیا مضائقہ۔ کسی بھی شہر یا دیہات میں چلے جائیں‘ ہر دیوار ان پبلسٹی والے اشتہارات سے بھری ہوتی ہے۔ اشتہار لگانے والے رتی بھر بھی پروا نہیں کرتے اور اچھی بھلی دیوار کا بیڑہ غرق کر دیتے ہیں۔ ایک زمانہ تھا فلموں کے اشتہار تانگوں پر لگا کر سڑکوں پر گھمایا جاتا تھا۔ اسی طرح پہلوانوں کے دنگل کی پبلسٹی بھی ایسے ہی کی جاتی تھی۔ فلمی اشتہاروں پر دھماکہ خیز افتتاح اور پہلوانوں کے دنگل پر عظیم الشان دنگل لکھا جاتا تھا۔ پھر یہ کام اشتہارات والی کمپنیوں نے سنبھال لیا جو آجکل ٹی وی اور فلموں پر راج کر رہی ہیں۔ اب لاہور کی ایک عدالت نے پیش نہ ہونے پر سابق وزیراعظم میاں نوازشریف کے مفرور ہونے کا اشتہار عوامی مقامات پر چسپاں کرنے کا جو کہا ہے‘ اس پر مسلم لیگ (ن) والے ناخوش ہونگے اور اس کے خلاف بولیں گے۔ ہو سکتا ہے مظاہرے بھی کریں۔ لگتا یہی ہے کہ اس سے آگ مزید بھڑک اٹھے گی ‘ کم نہیں ہوگی۔ مگر چونکہ عدالتی حکم ہے‘ اس لئے مشتری ہوشیار باش۔
٭٭٭٭٭
برسلز میں حجاب پر پابندی کے خلاف عورتوں کا مظاہرہ
کئی یورپی ممالک میں بنا سوچے سمجھے حجاب کا تعلق بھی دہشت گردی کے ساتھ جوڑا جا رہا ہے جبکہ حجاب کا دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں۔ اگر سر اور جسم ڈھانپنا دہشت گردی ہے تو پھر یورپ میں ان لاکھوں راہبوں کو کیاکہا جائے گا جو نن بن کر کلیسا اور دین کی خدمت کر رہی ہیں۔ وہ سب بھی لمبا عبایا پہنتی ہیں۔ سر ان کے بھی ڈھانپے ہوتے ہیں۔ مگر آج تک کسی نے ان کے عبایا اور سکارف پر اعتراض نہیں کیا۔ پھر ایک مسلمان عورت کے اس طرح یا اس سے ملتے جلتے لباس پر اعتراض کیوں۔ کیا صرف مسلم عورت ہونے کی وجہ سے یورپ میں باحجاب خواتین کو نفرت کا نشانہ بنانا درست ہے۔ یورپ میں تو ہر ایک کو آزادی حاصل ہے۔ وہ جو چاہے کہے پہنے‘ کھائے‘ پیئے اور جو چاہے کرے تو پھر یہ زیادتی کیوں کی جا رہی تھی۔ برسلز میں حجاب پر پابندی عائد کی گئی۔ آج وہاں کی عورتیں ہی اس پابندی کے خلاف مظاہرہ کر رہی ہیں۔ اسے ختم کرنے کا مطالبہ کر رہی ہیں۔ یہ اس معاشرے میں ہو رہا ہے جہاں ستر پوشی پر زیادہ زور نہیں دیا جاتا۔
اگر وہاں بھی حجاب کی اجازت کیلئے زور ڈالا جا رہا ہے تو یہ اس بات کی علامت ہے کہ یورپ میں بھی اسلام کے خلاف کیا جانے والا منفی پراپیگنڈا دم توڑ رہا ہے۔ حجاب کا دہشت گردی سے جوڑا گیا طلسم بھی ٹوٹ رہا ہے۔
٭٭٭٭٭