گزشتہ دنوں لاہور کے ایک معروف نجی تعلیمی ادارے میں چند شیطان صفت اساتذہ کی طرف سے طالبات کو جنسی طور پر ہراساں کیے جانے کے واقعات سامنے آئے ۔ یہ کہانی اگر دور اُفتادہ یا پسماندہ علاقے کے کسی غیر معروف تعلیمی ادارے میں جنم لیتی تو شاید منظر عام پرآنے سے پہلے ہی دبا د ی جاتی لیکن لاہورکے جس ادارے میں یہ واقعات تسلسل سے جنم لیتے رہے ہیں وہ جدید ترین سہولیات اور اعلیٰ تعلیم یافتہ سٹاف کاحامل ادارہ ہے۔ اس ادارے میں بچوں کو جنسی ہراسانی کے خلاف مزاحمت کرنے اور آواز اٹھانے کی باقاعدہ تربیت دی جاتی ہے ۔ اس کے باوجود یہ واقعات آشکار ہونے میں خاصا وقت لگا ہے ۔ معاملہ صرف لاہور کے ایک نجی تعلیمی ادارے تک ہی محدود نہیں بلکہ وطن عزیز کے طول و عرض میں پھیلی ہوئی ان گنت درس گاہوں میں آئے روز ایسے واقعات رُونما ہوتے ہیں ۔ دوسال قبل کراچی کے ایک معروف سکول میں ایسی ہی داستان سامنے آئی ۔ گومل یونیورسٹی ڈیرہ اسمٰعیل خان میں صدر شعبۂ علومِ اسلامی رنگے ہاتھوں پکڑے گئے، بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی ملتان کے اساتذہ کا شرمناک کردار بھی میڈیا کی زینت بنا ۔
ہمارا نظام تعلیم زوال کی آخری حدوں کو چھو رہا ہے۔مرد اساتذہ کی طرف سے گریڈز اور نمبروں کے نام پر طالبات کا استحصال ایک کھلی حقیقت ہے جس کا اظہار وقتاََفوقتاََمختلف فورمز پر ہوتا رہتا ہے۔ زیادہ تر واقعات پر طالبات بیچاری خاموشی میں عافیت سمجھتی ہیں ۔ اگر کوئی اظہار کی جرأت کر بیٹھے تو ایسے میں مؤردِ الزام شکایت کنندگان ہی کو ٹھہرایا جاتاہے یا پھر کمیٹیاں بناکر معاملہ فائلوں کی نذر کردیا جاتا ہے اور زیادہ سے زیادہ کوئی فرضی سی کارروائی کر کے متأثرہ فریق کامنہ بند کر دیاجاتاہے۔ مجرمانہ ذہنیت رکھنے والے اساتذہ اور منتظمین کڑے وقت میں ایک دوسرے کے خوب کام آتے ہیں ۔ بھلا اس طرح کے جرائم پورے اعتماد و تیقّن کے ساتھ باہمی گٹھ جوڑ کے بغیر کیوں کر رُونما ہوسکتے ہیں؟
دیکھا جائے تو معاشروں کوبنانے اور سنوارنے میں اہم ترین کردار استاد کا ہوتا ہے ۔ ہماری مشرقی روایت میں اساتذہ کرام انتہائی معتبر مقام کے حامل تھے۔ لیکن آج کے اس مشینی دور نے جہاں اور بہت سی روایات کا جنازہ نکالا ہے ، وہیں اساتذہ کا کردار بھی اب پہلے جیسانہیں رہا ۔ استاد کے حقیقی کردار کو سمجھنے کے لیے اشفاق احمد مرحوم کا افسانہ ’’گڈریا ــــ‘‘ پڑھنے سے تعلّق رکھتا ہے۔ استاد کاکام اپنے طالب علموں کو نصابی علم مہیاکرنے کے ساتھ ساتھ اخلاقی اور روحانی تربیت فراہم کرنا بھی ہے ۔بچوں کی شخصیت کی تکمیل کرنا، زندگانی کے رموزوغوامض سے آگاہ کرنا اور مستقبل کے دبیز پردوں میں لپٹے ہوئے تلخ حقائق آشکار کرکے ان سے نبردآزما ہونے کا گُر سکھانا ایک ا ستاد کے بنیادی فرائض میں سے ہے ۔ ایک کمرۂ جماعت میں مختلف پس منظر رکھنے والے بچے ہوتے ہیں جن کے معاشی اور خاندانی پس ِمنظر میں خاصاتفاوت ہوسکتاہے۔ اچھا اُستاد جہاں طالب علموں کو زندگی کے بڑے خوابوں سے آشنا کرتا ہے وہیں ان میں عمل کا صور بھی پھونکتا ہے۔ وہ عزمِ ِبلند ہمت کی تلقین کرتا ہے اور سوزِ جگر آور سے شناسائی بخشتا ہے۔یہ باتیں تو خیر اب قصۂ پارینہ ہیں اور معدودے چند بڑے بوڑھوں کے احساسات کا حصہ ہیں ۔ بھلا جہاں ذہن سازی کرنے والے ہی بیمار ذہنیت کے حامل ہوں ، وہاں سے کیا خیر برآمد ہوگی؟
جب رہزن رہنما ہوجائیں، امین خائن بن جائیں، مسیحا اپنا کردار بھول کر شیطنت کا مظہر ٹھہریں اور جن پہ تکیہ ہو وہی پتے ہوا دینے لگیں تو معاشروں کابننا اور سنورنا تو دور کی بات، تباہی اور بربادی مقدر ہوجاتی ہے۔
اگر تعلیمی ادارے ہی تعفّن اور گھٹن کا مرکز ہوںگے توہمارے مستقبل کے متعلق جانکاری کے لیے منجّم کی تقویمِ فردا کو پرکھناضروری نہیں بلکہ اس جرم کی سزا مرگِ انبوہ کی صورت میںطے شدہ ہے جس کے لیے ہمیں بہر صورت تیار رہنا چاہیے۔ ایک بچہ جسے فطرت نے ناز و نعم میں پالاہو،جو باپ کے سینے کی ٹھنڈک اور ماں کے دل کی دھڑکن ہو، اگر اپنے ہی استاد کے ہاتھوں جنسی ہراسانی کاشکار ہوتا رہے تو اس کی افتادِ طبع پہ مرتّب ہونے والے اثرات اس کی پرواز میں کوتاہی کا یقینی سبب بنتے ہیں ۔ جنسی ہراسانی کے نتیجے میںبچے کے مزاج میں ڈر، خوف، چڑچڑاپن اور عدم برداشت جیسے مسائل جنم لیتے ہیں۔ محرومیاں اور مایوسیاں بڑھتی جاتی ہیں ۔ اعلیٰ نصب العین اور حیات بخش جذبات کی امنگیں دم توڑنے لگتی ہیں ۔ آرزوؤں کا لہو ہونے لگتا ہے اور امیدیں زنگ آلود ہوکے رہ جاتی ہیں ۔
آرزو اوّل تو پیدا ہو نہیں سکتی کہیں
ہو اگر پیدا تو مرجاتی ہے یا رہتی ہے خام
جنسی ہراسانی کا ارتکاب کوئی بھی کرے، کہیں بھی کرے ،قطعی ناقابل ِ برداشت ہے۔ یہ اگر کسی بازار یا چوک چوراہے میں ہوتو بھی جرم ہے لیکن وہاں تاویل یہ کی جاسکتی ہے کہ بازار اور چوراہے تو بد قماشوں اور اٹھائی گیروں کی آماجگاہیں ہیں ، وہاں شرفاء کو خود اپنا دامن بچا کر نکل جانا چاہیے ۔ اگر چہ یہ تاویل بھی نہایت بھونڈی اور بے وزن ہے تاہم وقتی طور پر تسلیم کر لیتے ہیں ۔ تعلیمی اداروں میں تو یہ جرم ہر نوعیت سے ایک سنگین ترین جرم ہے اور بدترین اثرات کا حامل ہے۔ یہ محض اخلاقی یانفسیاتی ہی نہیںبلکہ سماجی ، قانونی اور قومی نوعیت کا جرم ہے۔ والدین اپنی اولاد کے بہتر مستقبل کے لیے رُتجگے کرتے ہیں، اپنے ذہن کا رس نچوڑتے ہیں ، بہت سی وقتی خوشیاں قربان کرتے ہیں، شخصی آسودگیا ں اور راحتیں نچھاور کرتے ہیں، اپنی خواہشات سینوں میں دبائے رکھتے ہیں ، صرف اس لیے کہ اولاد کا مستقبل خوب سے خوب تر ہوسکے۔
سرکاری سکولوں اور کالجوںکا تو اللہ ہی حافظ ہے۔والدین بدتر نظام کے ہاتھوں مجبور ہو کر اپنے بچوں کو’’ پرائیویٹ کمپنیوں‘‘ میں بھیجتے ہیں ۔ جی ہاں ! اب نجی شعبے میں تعلیم کے نام پر بڑی بڑی کمپنیاں اور گروپس وجود میں آچکے ہیں جو کہ خالص کاروباری بنیادوں پر اپنا سلسلہ استوار رکھے ہوئے ہیں ۔ ان اداروں میں اساتذہ کی تعیناتی کا کیا طریقۂ کار ہوتاہے اور یہاں موجود اصحابِ علم وفضل کی علمی استطاعت کیاہوتی ہے یہ ایک الگ داستان ہے۔ ان کا مقصد صرف آمدنی کو بڑھانا اور زیادہ سے زیادہ منافع کا حصول ہے۔یہی وجہ ہے کہ یہ ادارے ہر وہ حربہ آزماتے ہیں جس سے’’ ـکسٹمرزـ ‘‘کو راغب کیا جاسکے۔ حتیٰ کہ یہ تعلیم جیسے مقدس شعبے کو گلیمرائزکرنے سے بھی باز نہیں آتے۔ (جاری)
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024