صدر مملکت کی خفیہ ملاقاتوں کی دُرفنطنی
چیف الیکشن کمشنر کی صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی سے مبینہ خفیہ ملاقاتوں کی حقیقت کیا ہے افسانہ کیا ہے اس بے پر کی اڑانے کے مقاصد کیا ہیں۔
نیب کے سربراہ جسٹس جاوید اقبال کے ساتھ اب چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کو بھی ہدف بنالیا گیا ہے ان کی صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی جیسے اجلے شخص سے ‘‘خفیہ ملاقاتوں‘‘ کی جاسوسی کہانی سیریز چلائی جارہی ہے۔ اسے کہتے ہیں مافیا !!! شاباش کہ انہوں نے نہایت خوبصورتی اور فن کاری سے اپنے خلاف مہم دفن کر ڈالی۔ احتساب کا نعرہ میڈیا کی چیخ وپکار، مفادات کے ڈھول باجے اور سیاسی رنگ رلیوں میں کھوچکا ہے۔ نوازشریف، آصف زرداری اور ان کے ساتھیوں کی کرپشن، پاپڑ، کلفی اور ٹی ٹی والے، لنگڑے، کانے ، چینی سب بھلا دئیے گئے، نشانے پر جسٹس (ر) جاوید اقبال اور نیک نام سکندر سلطان راجہ رہ گئے ہیں۔ عوامی رائے عامہ کی آندھی چلا کر اندھیر نگری اور چوپٹ راج کا کھیل کھیلا جارہا ہے۔
ستم ظریفی ہے کہ پاکستان میں قریب المرگ اور آخری سانسوں پر دکھائی دینے والے نوازشریف لندن کے چائے خانوں میں مزے کررہے ہیں، چہل قدمی سے دل بہلا رہے ہیں انکی بیماری ‘‘نظر کا دھوکہ’’ ثابت ہوئی۔ شہبازشریف ’کورونا کو بھگانے ‘ کے بہانے ملک میں آگئے، نعرہ قوم کی خدمت کا لگایا اور قانونی تقاضا بھی پورا کرلیا کیونکہ وہ خود سراپا ضمانت تھے، وہ چلتے پھرتے ضمانتی مچلکے تھے، باہر رہ جاتے تو دونوں بھائی اندر ہوجاتے۔
ستم ظریفی دیکھئے کہ خود حکومت کے وزیر دہائیاں دیتے پھرتے ہیں کہ پلیٹ لیٹس کی رپورٹ دراصل کسی اور کی تھی، وفاقی وزیر سائنس وٹیکنالوجی فواد چوہدری شور مچاتے ہی رہ گئے، اصل بات راز ہی رہ گئی۔
سرکاری زمین ہڑپ کرنے والوں کے ’’بچاو‘‘ کی مہم کی خوب کوریج ہوتی ہے، شہہ سرخیاں بھی بنتی ہیں، کھڑے قدموں جنہیں دفتر سے نکال باہر کیاجاتا ہے، ایسے ’ملازمین‘ کے نعرہ لگاتی ’فوٹیج‘ باربار جنگی موسیقی کے ساتھ نشر ہوتی ہے۔ آزادی صحافت زندہ باد۔ میلوڈی اسلام آباد میں وہ منظر اب بھی حافظے میں محفوظ ہے جب پاگل پن کی حد تک دلیری سے سوال کرنے والے اسلم بٹ نے للکارا تھا کہ کیا آپ ضمیر فروشی نہیں کرتے رہے؟؟ کسی فلمی انداز میں آنسو بہاتے اعتراف کیاتھا کہ ’’ہاں! ہاں! میں ضمیر فروشی کرتا رہا ہوں۔‘‘اب ایک چھچھورے کو’’تازہ کلام‘‘ کے ساتھ میدان میں اتارا گیا کہ چئیرمین نیب کو صدر ڈاکٹر عارف علوی ’قابو‘ کررہے ہیں جبکہ چیف الیکشن کمشنر سکندرسلطان راجہ کے لئے ذمہ داری بھی صدرمملکت کو سونپی گئی ہے۔ سکندر سلطان راجہ کوبدنام کرنے کی غرض سے یہ تک لکھ دیاگیا کہ وہ راتوں کو صدر سے مل رہے ہیں۔ ’’چیف الیکشن کمشنر اکثر رات کو ایوان صدر میں خفیہ ملاقاتیں کرتے نظرآتے ہیں۔ لگتا ہے کہ نئے چیف الیکشن کمشنر سردار رضا کے ریکارڈ توڑیں گے۔‘‘
یہ ہے صحافت؟؟ مالکان کی محبت اور عمران خان کی نفرت میں سچائی، اصول اور ضابطوں کی ہر لکیر مٹادیں؟؟ ثبوت، شواہد، حقائق، آداب سب بھلا دیں؟؟ مفادات کے لئے ’خودکش بمبار‘ بن جائیں۔ زمیں جنبد نہ جنبد گل محمد۔۔
سکندر سلطان راجہ کا ماضی اور ان کی سروس پر شاید اعتراض ہوسکتا ہے، جسٹس (ر) جاوید اقبال سے سو اختلاف ہوسکتے ہیں، ان کے فیصلوں پر معترض ہواجاسکتا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ ’احتساب، احتساب‘ کے نعرے لگانے، ماضی کے حکمرانوں کی کرپشن کے سکینڈل کا انکشاف کرنے والے آج ان کے بالواسطہ دفاع میں کیوں نکل آئے ہیں؟ ان کی سوچ، تجزئیے، حقائق سے آگہی اور انسانوں کو پرکھنے کی کمزوری مسئلہ ہے یا پھر مفادات کے ہاتھوں مجبوری ہے؟ سکندر سلطان راجہ کے والد فوج میں میجر تھے۔ چار بھائی اور چاربہنوں میں سب سے بڑے ظفر سلطان راجہ آرمی سے بطور کرنل ریٹائر ہوئے ہیں۔ بھیرہ سرگودھا میں پیدا ہونے والے سکندر سلطان راجہ نے بھیرہ ہائی سکول سے ابتدائی تعلیم حاصل کی اور پھر کیڈٹ کالج حسن ابدال اور پھر کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی سے وابستہ ہوئے۔ میڈیسن میں ڈگری کے علاوہ انہوں نے پنجاب یونیورسٹی سے ایل ایل بی بھی کیا۔ 1989 میں وہ اسلام آباد میں اسسٹنٹ کمشنر تھے۔
اسی طرح جسٹس (ر) جاوید اقبال کوئٹہ شہر سے ہیں، ان کی پیدائش اور ابتدائی تعلیم کوئٹہ سے ہے۔قانون کی تعلیم کے لئے لاہور آگئے۔ 1968ء میں ایل ایل بی پنجاب یونیورسٹی سے کرنے کے بعد ایم اے سیاسیات کیا۔ یونیورسٹی آف ویسٹرن آسٹریلیا سے اعلی تعلیم پائی۔ 1971 میں عالمی قانون میں ایل ایل ایم کیا۔ 1985 میں بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی سے قانون اسلامی میں ماسٹرز کی ڈگری لی۔ ان کا مقالہ اسلامی فقہ اور شرعی قوانین پر تھا۔وہ بلوچستان یونیورسٹی میں پڑھاتے بھی رہے ہیں۔ جسٹس جاوید اقبال سپریم کورٹ کے سینئر جج اور کچھ عرصہ قائمقام چیف جسٹس بھی رہے۔
یہ تمام باتیں لکھنے کا مقصدسوائے اس کے اور کچھ نہیں کہ ایک تقابل کیاجائے۔۔ اعلی ترین مناصب پر بیٹھے لوگ اگر اتنے ہی ناقص کردار کے ہیں تو ہمیں سوچنا چاہئے کہ انکی مسلسل ترقی کی وجوہات کیا تھیں؟ کیا محض مناصب پر بیٹھے لوگ ہی غلط ہیں؟ کیا ان کوترقی دینے، ان سے پڑھنے والے، ان کو ڈگریاں دینے والے، ان سے ملنے ملانے والے سب لوگ ہی ’’ناقص کردار‘‘ کے لوگ ہیں، وہ سب بے اصول ہیں اور ایک آپ ہی وہ ’’ہیرے‘‘ ہیں جو چند بے ربط تحریریں شائع کروانے پر خود کو ’ہیرو‘ سمجھنے لگے ہیں؟؟ خبط عظمت کے کیا کہنے؟؟
مافیا جیت گیا کیونکہ مافیا سرمائے کا پٹہ لے کر چلتا ہے۔ اصولوں کی خاردار جھاڑیاں کپڑے پھاڑتی، جسم چیرتی اور زندگی کو اذیت ناک بناتی ہیں۔ بڑی گاڑیوں میں گھومنا، غربت سے امارت کا سفر اور ’معمولی‘ سے ’’خاص‘‘ کی ہوا بھرجانے کے عمل کی قیمت آنکھیں بند کرنا ہوتا ہے۔
سکندر سلطان راجہ نے ٹویٹ کرنے والے شخص کو چیلنج کیا ہے کہ وہ اپنا دعویٰ سچ ثابت کردے تو وہ مستعفی ہوجائیں گے۔ صدرمملکت آئینی عہدہ ہے، ان سے ملاقات کے لئے خفیہ اور رازداری کی کیا ضرورت ہے؟؟ انہوں نے دعوے کو مسترد کرتے اور بے بنیاد قراردیتے ہوئے کہاکہ انہوں نے زندگی میں قانون اور قاعدے پر عمل کیا ہے، ’ایسی ایڈوائس لینے کی مجھے عادت نہیں۔‘ صدر سے ایک بار چند منٹ کی رسمی ملاقات ہوئی تھی۔
سکندر سلطان راجہ کے قانونی اور آئینی منصب کے عہدے کا تقاضا ہے کہ وہ قانون کی راہ اپنائیں، پیمرا کا دروازہ کھٹکھٹائیں، پاکستان براڈکاسٹرز ایسوسی ایشن (پی۔بی۔اے) کو لکھیں، ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ سے تقاضا کریں کہ ’ٹویٹر گردی‘ پر انہیں انصاف دیاجائے۔ ساری دنیا کو صادق اور امین کا درس دینے والوں کو کٹہرے میں کون کھڑا کرے گا؟؟