تلاش منزل
ہو رہے ہیں جس طرح سے حادثوں پہ حادثے
چار جانب لگ رہے ہیں غمزدوں کے جمگھٹے
اک قیامت سی بپا ہے جس طرف بھی دیکھئے
جا بجا ہیں کر بلائیں اٹھ رہے ہیں تعزیے
قتل و غارت کا کہیں پہ ہو رہان ہے ارتکاب
آبرو ریزی کے اغواء کے کہیں ہیں واقعے
کونسا ہے شہر باسی جس کے با آرام ہوں
رونما جب سے ہوئے ہیں نوع بنوع کے سانحے
بستیاں جو پرسکوں تھیں رہنے والوں کے لئے
رہ گئیں گویا بکھر کے دیکھتے ہی دیکھتے
مسجدوں کی سمت جانے والی راہیں چھوڑ کر
لوگ بہکا وے میں ہیں ابلیس کے آئے ہوئے
پاشکستہ ہو کے رک جائے مسافر جب کوئی
چھوڑ کر اس کو نکل جاتے ہیں آگے قافلے
اہل حق کا ہاتھ پھر سے تھا منا ہوگا ہمیں
چھوڑنا ہوں گے ہمیں طاغوت کے سب راستے
اپنے خالق سے بدل کر قربتوں میں سب دوریاں
جوڑنا ہوں گے ضیاء ٹوٹے ہوئے سب رابطے
شرافت ضیاء اسلام آباد