اچھا کہتے ہیں کہاں تجھ کو
اچھا کہتے ہیں کہاں تجھ کو زمانے والے
ہم نہیں ، عشق ! ترے حال میں آنے والے
کتنے لوگوں نے مجھے بھیجی ہے تصویر مری
دیکھ آئینے ! مرا عکس مٹا نے والے !
مل تو جائیں گے مگر کم ہی ملیں گے ایسے
عمر کے ساتھ یہاں پیار بڑھانے والے
آئے دن کون کرے رسمی ملاقات یہاں
بیٹھنے والے ہی مخلص نہ بٹھانے والے
جی تو جاتے ہیں سبھی ، رہتے ہیں زندہ لیکن
اپنی تقدیر ، یہاں آپ بنانے والے
بعض اوقات سفر ایک ہی کرتے ہیں مگر
ہم سفر صدیوں بنے رہتے ہیں جانے والے
کور چشمی ہے مگر مان کے دیتے ہی نہیں
راستہ دیکھنے والے ، نہ دکھانے والے
ٹوٹ جائے تو بھرم دل میں کہاں رہتا ہے ؟
ہاتھ آنے کے نہیں ، ہاتھ چھڑانے والے
کوئی انگارہ دبا رہتا ہے سینے میں کہیں
اور پھر لوگوں کے طعنے بھی جلانے والے
ٹوٹ سکتی ہے کہیں ضبط کی مالا آخر
روٹھ سکتے ہیں کبھی خود بھی منانے والے
انکو پھر نیند کہاں لاکھ جْھلاو جھولے
جن کے مر جاتے ہیں شانوں پہ سلانے والے
شاذیہ اکبر،اسلام آباد