کرونا بحران اور تعلیمی ادارے
کیا تعلیم کبھی ہماری ترجیح رہی ہے؟یہ وہ سوال ہے جسے ہمیں بحیثیت قوم اپنے آپ سے کرنا چاہیئے اور اس بات کا جائزہ لینا چاہیئے اگر تعلیم ہماری ترجیح رہی ہوتی تو وطن عزیز کے اڑھائی کروڑ بچے سکولوں سے باہر سڑکوں پر محنت مزدوری کرتے نظر نہ آتے،اقوام متحدہ کی 2018 کی سروے رپورٹ کے مطابق آئندہ 20سال میں صرف پنجاب میں 35000 اور ملک بھر میں 46000نئے سکول درکار ہوں گے۔شرح خواندگی کے لحاظ سے پاکستان کا اس وقت دنیا بھر میں 113 واں اور جنوبی ایشیا میں آخری نمبر ہے۔ اگرچہ آرٹیکل25-Aکے تحت ہر بچے کو مفت تعلیم فراہم کر نا حکومت کی ذمہ داری ہے لیکن یہ ذمہ داری آج تک پوری ہوتی نظر نہیں آرہی ہے آج بھی سکول جانے کی عمر کے بچے معاشرے میں جا بجاورکشاپوں،ہوٹلوں،دوکانوں ،اینٹوں کے بھٹوں اور گھریلو ملازم کے طور پر کام کر تے نظر آتے ہیں اوران کاروباروں کے مالکان بچوں کے تحفظ کے لیے بنائے گئے چائلڈ لیبر قوانین اور آرٹیکل25-Aکا منہ چڑارہے ہیں،ملک میں تعلیمی شعبے کی کسمپرسی کی بڑی وجہ اٹھاریوں آئینی ترمیم کے بعد تعلیم کے شعبے کا صوبوں کے پاس جانا بھی ہے دنیا بھر میں کورونا وائرس کی موذی وبا کے پھیلنے کے بعد سب سے زیادہ متاثر بچے ہوئے ہیں جہاں ایک طرف غریب طبقے کی حالت مزید بگڑنے سے بچوں کی خوراک اور دیگر سہولیات زندگی تک رسائی کم ہوئی ہے وہاں تعلیمی اداروں کی بندش کی وجہ سے ان کی تعلیم شدید متاثر ہوئی ہے،کورونا وائرس کی صورتحال میں سب سے زیادہ نجی سکول متاثر ہوئے ہیں اور حکومت کی طرف سے ان سکولوں کے لیے کسی قسم کے پیکیج کا اعلان نہ کر نا تعلیم کے شعبے کے حوالے سے ہماری ترجیحات کی واضح عکاسی کرتا ہے ۔نجی تعلیمی اداروں میں ملک کے60فیصد سے زائد بچے زیور تعلیم سے آرائستہ ہو رہے ہیں حکومت اپنے وسائل سے صرف 40فیصد بچوں کو تعلیم دے پارہی ہے کم وسائل کے باوجود اگر تعلیمی بورڈ میں پوزیشنز کو دیکھا جائے تو نجی ادارے سب سے آگے نظر آتے ہیں ،ایک صحافی اور خصوصا تعلیم کے شعبے کو کور کر نے والے رپورٹر کے طور پر میں نے نجی سکولوں کو انتہائی قریب سے دیکھا ہے،جب ہم نجی سکولوں کی بات کرتے ہیں تو ہمیں اپنے ذہن میں یہ بات واضح رکھنی چاہیئے کہ ہمارے ہاں نجی سکول دوقسم کے ہیں ایک وہ نجی سکول جو والدین سے ہزاروں روپے ماہانہ فیسیں وصول کر تے ہیں اور ان سکولوں میں صر ف اشرافیہ کے بچے تعلیم حاصل کر سکتے ہیں عام طبقہ ان سکولوں میں اپنے بچوں کو داخل کرانے یا ان کی فیسیں ادا کر نے کا سوچ بھی نہیں سکتا،ان سکولوں کی اپنی بڑی بڑی عمارتیں ہیں اور ملک بھر میں ان کی شاخیں پھیلی ہوئی ہیں جہاں امیر طبقہ اپنے بچوں کو داخل کراتا ہے یہ تمام کے تمام انگلش میڈیم سکول ہیں نجی سکولوں میں ان کی شرح 10فیصد سے زیادہ نہیں ہے جبکہ 90فیصد وہ نجی سکول ہیں جو گلی محلوں میں کرائے کی عمارتوں میں قائم ہیں ان کی فیس پانچ ہزار سے کم ہے ،کورونا کی وبا سے پیدا ہو نے والے بحران نے سب سے زیادہ ان سکولوں کو متاثرکیا ہے۔کرونا وبا پھیلنے کے بعد حکومت کی طرف سے اعلان کیا گیا کہ نجی تعلیمی ادارے اپنی فیسوں میں کمی کریں ،ایسے حالات میں جب ان اداروں غیر معینہ مدت کے لیے چھٹیاں کر دی گئیں اور صرف پندرہ سے بیس فیصد والدین فیسیں ادا کر ہے تھے ،فیسوں میں کمی کا فیصلہ نا صرف نا مناسب تھا بلکہ غیر دانشمندانہ اور غیر مصفانہ تھا ،ہاں!بڑے ایلیٹ کلاس کے تعلیمی اداروں کے لیے اس پر عمل کرنا ممکن تھا لیکن چھوٹے اداروں کے لیے یہ ممکن نہ تھا لیکن اس فیصلے پر عملدرآمد کیا گیا ،کرونا وائرس وبا کے دوران فیصلہ سازی میں نجی سکولوں کو شامل کیا گیا نہ ہی ان کے مسائل پر کوئی توجہ دی گئی ،کسی نے یہ نہ سوچا کہ اس فیصلے سے نجی تعلیمی اداروں کا وجود قائم رکھنا ناممکن ہوجائے گا، کم آمدن اور کم فیس لینے والے تعلیمی اداروں کو عمارات کے کرائے،یوٹیلٹی بلز اور اساتذہ سمیت دیگر ملازمین کو تنخواہوں کی ادائیگی مشکل ہونے سے سنگین مسائل پیدا ہوں گے،زیادہ تر چھوٹے نجی تعلیمی ادارے کرائے کی عمارتوں میں ہیں ان کا ماہانہ کرایہ،یوٹیلٹی بلز،اساتذہ اور دیگر عملے کی تنخواہیں ادا کرنے کے لیے فیسوں پر ہی انحصار کیاجاتاہے، حکومت کی طرف سے صنعتکاروں ،تاجروں،کسانوں سمیت ہر کاروباری طبقے کے لیے ریلیف پیکیجز کے اعلانات ہوئے کسی کو بجلی کے بلوں میں چھوٹ اور قسطوں کی سہولت دی گئی تو کسی کوآسان قسطوں میں قرض فراہم کیے گئے تو کسی کو ٹیکسوں میں میں رعایات ملیں اگر نہ ملا تو چھوٹے نجی سکولوں کو کچھ نہ ملا،چاہیے تو یہ تھا کہ نجی تعلیمی اداروں کے لیے حکومت اقتصادی پیکج کا اعلان کرتی ان کو یوٹیلٹی بلوں میں چھوٹ دی جاتی ان کے لیے آسان اقساط میں قرضوں کا اجراء کیا جاتا تاکہ وہ اس بحرانسے نکل سکتے اور ان سکولوں سے وابستہ ان 20لاکھ اساتذہ اور دیگر عملے کو بلاتعطل تنخواہوں کی ادائیگی جاری رکھتے جن کے گھروں کے چولہے ان تنخواہوں سے ہی چلتے ہیں ۔ حکومت جس نے اپنے منشور میں تعلیم کو پہلی ترجیح دینے کا عوام سے وعدہ کیا تھالیکن کرونا کے حالیہ بھران میں روزمرہ زندگی کے تمام شعبہ جات کوتعلیمی اداروں پر فوقیت دی گئی اور نئے سال کے بجٹ میں بھی چھوٹے نجی سکولوں کے لیے کسی پیکیج کا اعلان نہیں کیا گیا،اب بھی وقت ہے کہ حکومت فوری طور پر چھوٹے نجی تعلیمی اداروں کے لیے اقتصادی پیکج کا علان کر ے،جوجودہ بحران سے نکلنے کے لیے نجی تعلیمی اداروں کو پانچ سے پچاس لاکھ تک بلاسود قرضے فراہم کیا جائے اس سے ایک طرف تو تعلیمی ادارے معاشی مشکلات سے باہر نکل آئیں گے تو دوسری طرف تو کرونا وبا کے بعد معاشی بحران میں گھرے والدین کوریلیف فراہم کر نے کے قابل ہوں گے اور جیسے ہی سکول کھلیں کے تو بجائے اس کے کہ سکول والدین پر فوری طور پر بقایا فیسوں کے مطالبے شروع کر دیں وہ بچوں کی تعلیم پر توجہ دیں گے اس طرح نجی سکولوں سے جڑے 20لاکھ اساتذہ ودیگر عملہ بھی بے روزگار نہیں ہو گا ،لیکن یہ سب اسی وقت ممکن ہے جب ہم تعلیم کو اپنی پہلے ترجیح بنائیں گے۔وزیر اعظم عمران خان نے اپنی ایک تقریر میں نجی سکولوں کے مسائل پر بات تو کی ہے لیکن عملی طور پر اس حوالے سے اقدامات بھی نظر آنے چاہئیں۔