وجودِ زن سے ہے تصویرِ کائنات میں رنگ
اسلام سارے عالم کا سب سے بڑا اور آفاقی دین ہے‘ دین اسلام کو اس زمین اور کائنات کے تمام ادیان اور نظریہ ہائے فکر پہ فوقیت و فضیلت حاصل ہے ۔ اسلام ہی دنیا کا واحد دین ہے جو خواتین کو دیگر سب سے بڑھ کر عزت احترام مقام دیتا ہے اور تاریخِ انسانی شہادت دے رہی ہے کہ عورت کو کسی بھی دوسرے مذہب نے اس قدر تکریم و تحفظ اور مرتبہ و امان نہیں دیا جتنا دینِ اسلام نے دیا ہے۔ امام الانبیاء ؐ نے خواتین کو مکمل اور حقیقی معنوں میں اہم مقام دے کر دکھایا۔ حضرت فاطمہ ؓ تشریف لاتیں تو حضور کریم ؐ کھڑے ہو جاتے۔ بی بی حلیمہ ؓ تشریف لاتیں تو آپ ؐان کا بھی کھڑے ہو کر استقبال فرماتے۔ دین اسلام نے عورت کو ماں ‘ بہن‘ بیٹی‘ بیوی جیسے رشتوں رتبوں میں پرویا اور پھر ان پاکیزہ رشتوں کا شرم و حیا و تکریم بھی فرض فرمائی ورنہ اہل مغرب کو دیکھیں کہ چرچوں میں بیٹھے پادری راہیں تکتے روتے انتظار کرتے رہتے ہیں کہ کاش کوئی جوڑی نکاح پڑھوانے کیلئے آ جائے۔ عورت کے بغیر معاشرت و معاشیات نامکمل ‘ عورت بنا بہاریں بھی زار ونزار بلکہ خزاں عورت نہ ہوتی تو یہ گلشن جہاں بے رونق و ویران ہوتا بقول اقبال:
وجودِ زن سے ہے تصویرِ کائنات میں رنگ
اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوزِ درُوں
عورت خدمت کرنے والی‘ قربانی دینے والی‘ ہمت حوصلے والی اور دلیری و بہادری میں بھی کبھی پیچھے نہیں رہی ‘ یاد فرمائیے بی بی زینبؓ بنتِ ابُوتراب کا کربلا میں کردار‘ سفر شام اور آخر خطابِ خُوب تر وخونچکاں
یہ جہاد اللہ کے راستے میں بے تیغ و سپر
ہے جسارت آفریں شوقِ شہادت کس قدر
حضرت اقبالؒ کا یہ شعر جس نظم سے ہے‘ انھوں نے یہ نظم ایک باکردار عرب بی بی کی زندگی پہ فرمائی تھی۔ وہ فاطمہ بنتِ عبداللہ 1912 ء کی طرابلس کی جنگ میں غازیوں کو پانی پلاتی ہوئی شہید ہوئی۔ یہ جنگ لیبیا کے مسلمانوں نے اپنی آزادی کیلئے اٹلی کے خلاف لڑی تھی جس میں فاطمہ نے رتبہ شہادت پایا اور تاریخ کے اوراق میں امر ہو گئی ۔ ایک بار پھر اقبال ؒ کے الفاظ میں
فاطمہ! گو شبنم افشاں آنکھ تیرے غم میں ہے
نغمہ عشرت بھی اپنے نالہِ ماتم میں ہے
شہادت کیا ہے؟ جدوجہد اور جہاد کسے کہتے ہیں اور جنگ کیا ہوتی ہے‘ کوئی کسی سپاہ سے پوچھے یا سپہ سالار سے کیونکہ امیر و افواج کو پتا ہوتا ہے کہ راج‘ تاراج اور تعمیر سامراج کس شے کا نام ہے۔ سچ ہے کہ فوج ممالک و اقوام کی ریڑھ کی ہڈی کی مانند ہوتی ہے لیکن یہ تھوڑی بات ہے واجبی اور سطحی سی بات ہے بڑی بات نہیں ہے اس سے آگے اور اُوپر بہت ہی اُوپر کی بات اور ہے اور وہ ذیشان فرمانِ حیدر کرم وجہہ ہے جس سے معلوم ہو تا ہے کہ ایک فوجی کا رتبہ اور آن بان شان کیا ہے۔ گورنر مصر کے نام خط میں مولا علی شیر خدا کرم وجہہ فرماتے ہیں کہ ’’فوجی اللہ کے سپاہی اور ملک و ملت کے نگہبان ہوتے ہیں جو دین کی حفاظت کیلئے قوت مہیا کرتے ہیں‘ درحقیقت وہی امن وامان ملت کے نگہبان ہوتے ہیں اور ان کے ذریعے اندرونی انتظام اور انصرام درست رکھا جا سکتا ہے‘‘۔ خبر چھپی ہے کہ ’’ پاک فوج کی میڈیکل کور سے وابستہ میجر جنرل ڈاکٹر نگار جوہر خان کو لیفٹیننٹ جنرل کے عہدے پر ترقی دے دی گئی ہے اور انہیں سرجن جنرل کے عہدے پر تعینات کیا گیا ہے۔ ڈی جی آئی ایس پی آرمیجر جنرل بابر افتخار کی جانب سے ٹوئٹر پہ جاری بیان کے مطابق ڈاکٹر نگار جوہر لیفٹیننٹ جنرل کے عہدے پر ترقی پانے والی پہلی خاتون افسر ہیں‘ پاک فوج کی تاریخ میں یہ پہلی بار ہوا کہ کسی خاتون کو سرجن جنرل کا عہدہ ملا‘‘۔ میری نظر میں یہ احسن قدم ہے اور بہت بڑا کام ہے جس سے سارے عالم میں یہ مثبت پیغام پھیلے گا کہ مسلم اُمہ‘ مسلم ممالک و ادارے بلکہ جملہ اہل اسلام خواتین کو کس قدر عزت عظمت و اہمیت دیتے ہیں۔ آج ملکی و عالمی میڈیا BBC تک سبھی پاک فوج اورو لیفٹیننٹ جنرل ڈاکٹر نگار جوہر کی تعریفیں فرما رہے ہیں اور خدمات گنوا رہے ہیں کہ پاک وطن کی پاک فوج کی پہلی خاتون و لیفٹیننٹ جنرل اور سرجن جنرل کو ست سلام اور ساتھ سلیوٹ بھی۔ بلا شبہ ڈاکٹر نگار ایک بہت ہی عظیم شخصیت ہیں۔ میرا اپنا ہی ایک شعر مادام ڈاکٹر نگار کی نذر:۔
تُو آس ہے کل کی اور اُمید ہے آج کی
تو فخر وتوقیر ہے اس دیس و سماج کی
ڈاکٹر نگار کا پیدائشی تعلق صوابی کے علاقے پنج پائی سے ہے لیکن وہ پورے پاکستان کی خواتین کیلئے باعثِ فخر اور لائقِ تقلید ہیں ۔ وہ میجر عامر کی بھتیجی ہیں اور ان کے والد کرنل قادر نے بھی آئی ایس آئی میں خدمات سرانجام دیں‘ میگزین ’’ہلال فارہر ‘‘ کو انٹرویو میں انھوں نے بتایا کہ وہ انہی کو دیکھ کر فوج میں آئی تھیں‘ آرمی ڈاکٹر بننا خواب تھا جو 1985 ء میں بطور کیپٹن ڈاکٹر کمیشن ملنے پہ پورا ہوا۔ اُنہوں نے ایڈوانس میڈیکل ایڈمنسٹریشن میں آرمڈ فورسز پوسٹ گریجویٹ میڈیکل انسٹیٹیوٹ سے 2015 میں ڈپلومہ مکمل کیا تھا۔ ڈاکٹر نگار کمانڈنگ آفیسر سی ایم ایچ جہلم ‘ ڈپٹی کمانڈنٹ سی ایم ایچ راولپنڈی‘ آرمی میڈیکل کالج کی وائس پرنسپل اور کمانڈنٹ ایم ایچ راولپنڈی تعینات رہیں۔ وہ نہ صرف پاکستان بلکہ جنوبی ایشیا کے سب سے بڑے ملٹری ہسپتال کی کمانڈنٹ کی حیثیت سے خدمات سرانجام دے رہی تھیں۔ ان کے ساتھ کام کرنے والی ایک ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ جب جنرل نگار کسی دفتر میں ہوں تو وہ وہاں چار مرد آفیسر ز کے برابر کام کرتی ہیں‘ انھیں پیشہ وارانہ زندگی میں انتہائی تُندی سے کام کرنے والی افسر کی شہرت حاصل ہے۔ ڈاکٹر نگار جو ہر کو فوج کی میڈیکل کور میں ’’موور‘‘ کہا جاتا ہے یعنی ایک ایسی افسر جو کبھی بھی کام روکتی نہیں ہیں۔ یہ اعزاز ملنے کے
بعد جب ڈھول باجے بج رہے تھے دم دم دھمال اور لڈیاں ڈل رہی تھیں‘ محترمہ ڈاکٹر نگار کو سلام سلیوٹ کے سنگ سلامیاں دی جا رہی تھیں اورگلے میں پھولوں کے ہار ڈالے جا رہے تھے تب جنرل نگار جوہر کی خوشی دیدنی تھی اور عاجزی و انکساری بھی۔